امید کی نئی کرن

پاکستان میں ہوئے عام انتخابات اور ان کے نتائج کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا،دوبار پاکستان کی قیادت کرچکے میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم کی کرسی کے حقدار بنے،قابل تعریف ہیں پاکستان کے عوام جس نے ناگزیر حالات میں بھی جمہوریت کو فوقیت دی،اس قدم نے یہ فیصلہ تو کر ہی دیا کہ اتنی مشکلات کے باوجود وہاں کے عوام ایک جمہوری ملک کے خواہاں ہیں۔ عوام چاہتے ہیں،کہ ایک مضبوط اور جمہوری حکومت ان کے ملک کی از سرے نو تعمیر کی کوشش کرے،ان کے خوابوں کو تعبیری شکل ایک جمہوری حکومت ہی دے سکتی ہے نہ کہ فوجی منصب داری۔وہاں کے عوام اب ان حالات سے تنگ آچکے ہیں،اور اب تبدیلی چاہتے ہیں۔بے نظیر بھٹوکے قتل کے بعد ہمدردی کے طور پر ہی صحیح لیکن آصف زرداری کو ایک موقع ضرور دیا،لیکن اس کے باوجود جب وہ ان کی توقع پر کھرے نہیں اترے تو وہاں کے عوام نے انھیں باہر کا راستہ دیکھا دیا،لیکن یہ بات اہمیت کی حامل رہی کہ ان ناگزیر حالات میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسی پارٹی رہی جس نے پاکستان میں پہلی بار پانچ سالہ مدت پوری کی،لیکن پاکستان کے حساس عوام نے اس بار اپنے ملک کی قیادت میاں نواز شریف کو سونپ کر ان پر اپنا بھروسہ جتایا۔

بات اگر نواز شریف کی کی جائے تو 25 اگست 1949 کو لاہور میں پیدا ہوئے نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ(پی ایم ایل)کے بڑ ے لیڈر ہیں جنھیں پیار سے لوگ میاں نواز شریف بلاتے ہیں ۔ نواز شریف اس سے پہلے 93سے 1990اور 99سے1997 میں پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ 14سال پہلے تختہ پلٹ کے ذریعہ بے دخل کئے جانے کے بعد انھوں نے ریکارڈڈ تیسری با رملک کے وزیر اعظم بننے کا حلف لیا،342نیشنل اسمبلی میں انہیں بھاری ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی ان کے حق میں 244پڑے جبکہ ان کے مخالف مخدوم امین( پیپلز پارٹی) کو 42 اور تحریک انصاف جاوید ہا شمی کو 31ووٹ ملے۔99سے 1997کے دوران مشرف کے ذریعہ فوجی تختہ پلٹ میں ان کی حکومت جانے کے بعد انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ،لیکن آپسی سمجھوتے کے بعد ان کے گھر کے چالیس لوگوں کے ساتھ انھیں ملک بدر کردیا گیا۔لیکن انھوں نے نہ صرف اپنے ملک واپسی کی بلکہ اپنی پارٹی کو بھی مضبوط کیا،اور 2013 میں پاکستان کی سب سے مضبوط پارٹی کی طور پر ابھر کر سامنے آئے ۔وہ پاکستان کے دوسرے سب سے امیر لیڈر اور ان کا خاندان پاکستان کا چوتھا سب سے امیر خاندان ہے ۔یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہوگا کہ پاکستان کے 66 سالہ تاریخ میں پہلی بار جمہوری طریقہ سے کوئی حکومت برسرے اقتدار آئی ہے۔

نئی حکومت نئی نسل اور نئی سوچ مل کر کیا گل کھلاتی ہیں اس کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیتے ہیں ،لیکن اگر حال کی بات کی جائے تو یہ سفر نواز شریف کیے لئے آسان نہیں ہوگا ،پاکستان میں امریکہ کے ذریعہ ہورہے ڈرون حملوں (جن میں لاکھوں بے قصور لوگ اپنی جان گنواں چکے ہیں)آئے دن ہونے والے بم دھماکہ ،فرقہ وارانہ فسادات سے جوجھتے پاکستان کو ایک نئی راہ پر لے جانا ان کے لئے آسان نہیں ہوگا،وہی بے روزگاری بھوک مری اقتصادی بحران اور لوڈشیڈنگ جیسے عوامی مسائل بھی ان کے لئے مشکل امر ثابت ہوسکتے ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے مما لک سے پاکستان کے رشتے خاص کر ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں کو مثبت راہ پر لے جانا ان کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا،

حالانکہ انھوں نے اپنے پہلے صدارتی خطبہ میں ہی یہ بات واضح کر دی کے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے ۔انھوں نے اپنے ملک کی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’میں آپ کو کوئی خواب نہیں دیکھاؤنگا ملک کی حالت بہت خراب ہے اور اس کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

اس کے باوجود نئی حکومت سے نئی امیدیں وابستہ کر وہاں کی عوام ماضی کی تلخ یادوں کوبھول جانا چاہتی ہے،اب یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی امیدوں پر کس حد تک کھرے اترتے ہیں۔وہ لوگ جو نہیں چاہتے کے دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان میں ہورہے معصوموں کا قتل یونہی جاری رہے،جو نہیں چاہتے کہ پھر کوئی ملالہ کسی دہشت گرد کی گولی کا شکار بنے۔وہ نوجوان جو بے روزگاری کی وجہ سے کسی غلط صحبت کا شکار نہیں ہونا چاہتے،ان سارے لوگوں کی امید بھری نگاہیں نواز شریف کی جانب ٹکی ہوئی ہیں ، یہ تو ہوگئی پاکستانی عوام کی ان سے امیدیں،اب اگر بات ہندوستانی عوام کی کی جائے تو اس نئی حکومت سے ہندوستانی عوام کی بھی بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں،ہندوستانی عوام ماضی کی تلخیوں کو بھول کر نئے سرے سے رشتہ کی شروعات کرنا چاہتی ہے،ماضی میں ہوئی غلطیوں اور خامیوں کو کوریدنے کے بجائے ،آج کے رشتے کو بہتر بنانا چاہتی ہے،آج کی نئی نسل ان گزری باتوں کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی جو صرف کڑوی کسیلی یادوں کی صورت میں ان کے ماضی کا حصہ ہیں۔ان گزری باتوں کو یاد کرکے صرف سیاسی روٹیاں سیکیں جاسکتی ہیں،نہ کہ دو ملکوں کے درمیان رشتے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کا یہ بیان کہ ہم حقیقی طور پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں،امید کی ایک کرن کی طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔لیکن یہ کوششیں اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب دونوں ملک کے سیاسی گلیاروں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی آگ کو بھڑکانہ کم کیا جائے۔دونوں جانب کی حکومتیں مثبت فیصلہ لیں،اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے نہ کے صرف کاغذی واعدے ہوں۔ایسے فیصلے جو عوام کے لئے مفید ثابت ہوں ،جو ان کے درمیان پھیلی تلخیوں کو کم کریں،یہ نہ ہو کے صرف دیکھانے کے لئے بڑے بڑے واعدے کر لئے جائیں اور عملی صورت جوں کی توں رہے۔

دونوں ملک کہ درمیان پائی جانے والی غیر یقینی صورت حال کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات ہوں لیکن ایسے مذاکرات جن سے مسائل کے حل نکل کر سامنے آئیں ۔دونوں ملک کے درمیان رشتوں کو بہتر بنانے کے لئے مخالف سرگرمیاں بند کردی جائیں-

نواز شریف کی یہ باتیں کہ ’’باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بناء پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے پڑوسی کے دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہیں‘‘۔بہت حد تک قابل قبول ہیں۔

ان ساری باتوں سے وہ پہلو نکل کر سامنے آرہے ہیں جو دونوں ممالک کی عوام چاہتی ہے،اگر صحیح طریقہ سے ان باتوں پر عمل کیا جائے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بہتر رشتے کی امید کی جا سکتی ہے۔
Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 11359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.