شام میں عوام پر کیمیائی حملہ اور عالمی برادری کا رد عمل

شام میں بدھ کے روز بشارالاسد کی فوج کی جانب سے ہونے والے کیمیائی حملے میں دوہزار سے زائد افراد شہید اور چھ ہزار کے لگ بھگ افراد شدیدمتاثر ہوئے تھے۔ متاثرہ علاقوں میں قیامت کا سا منظر ہے۔ جگہ جگہ لاشیں بکھری پڑی ہیں اور عمارتیں بھی لاشوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے بعد لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیرین نیشنل کولیشن کے ترجمان خالد صالح نے کہا ”ہمیں خدشہ ہے شہدا کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ ہمیں ایسے گھر ملے ہیں جو شہدا کی لاشوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ شہدا کی تعداد میں 500 سے لے کر اس سے دگنا تک اضافے کا خدشہ ہے۔ اگر تعداد یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو یہ کیمیائی حملے کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی تعداد ہوگی۔ کیمیائی حملے میں مارے جانے والوں میں 331بچے اور اس سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ بدھ کے روز اسدی فوج نے مخالفین کے تین علاقوں پر وحشیانہ کیمیائی حملے کیے تھے اور بدھ کے بعد سے مسلسل ان علاقوں کو گھیرے میں لے کر ان پر فضائی حملے کیے جارہے ہیں۔ سرکاری فوج نے تازہ حملے دمشق کے شمال میں ”قابون“نامی علاقے اور جنوب میں فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی ”یرموک“پر کیے ہیں۔ تازہ حملوں میں بھی ایک بڑی تعداد جام شہادت نوش کرچکی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زمالقہ میں راکٹ کے حملے صاف سنائی دے رہے ہیں۔ متعدد علاقے تازہ حملوں کی لپیٹ میں ہیں اور انقلابی دستے محفوظ مقامات کی جانب کوچ کررہے ہیں تاکہ مزید ممکنہ کیمیائی حملوں سے بچا جاسکے۔

شامی فوج کی جانب سے کیمیائی حملوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون نے کہا ہے کہ ”شام میں حکومت نے کےمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے۔“جبکہ ایران اور روس نے بشار الاسد اورشامی فوج کو بے گناہ قرار دے دیا۔ ایران کے مطابق اگر شام میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بھی ہے تو یہ شامی انقلابیوں کی کارروائی ہے۔ روس نے بھی کیمیائی حملے کو انقلابیوں کی سوچی سمجھی کارروائی قرار دیا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس بات کے ’ٹھوس اشارے‘ موجود ہیں کہ حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ خیال رہے کہ اس واقعے میں مرنے والے افراد کی تعداد ماضی میں کسی بھی کیمیائی حملے میں مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں جعلی طور پر مرنے اور زخمی ہونے والوں کو دکھانا بہت مشکل ہے۔ ان کے جسموں پر زخموں کے نشانات نہیں ہیں،وہ تڑپ تڑپ کر جان دے رہے تھے اور ان کے منہ سے جھاگ بھی نکل رہی تھی۔ شام میں 1988 میں عراقی کردوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال جس کے نتیجے میں ہزاروں کردوں کی ہلاکت کے بعد یہ پہلا بڑا واقعہ ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔ گزشتہ برس شامی حکومت سے منحرف ہونے والے نواف فارس نے بتایا تھا کہ اسد کی حکومت ضرورت پڑنے پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔

دوسری جانب سلامتی کونسل نے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ شامی حکومت پر وقوعہ تک اقوام متحدہ کے معاینہ کاروں کو رسائی دینے کے لیے دباﺅ بڑھ رہاہے۔ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد داؤد اوگلونے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ’ تمام سرخ لائنوں کو عبور کیا جا چکا ہے لیکن ابھی تک اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کے معاملے پر کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے، جس کے سبب وہاں خونریزی جاری ہے۔ انہوں نے کہا ”اگر ہم پابندیاں منظور نہ کر پائے تو ہم وہاں خونریزی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے میں ناکام ہو جائیں گے۔“ ترک وزیر خارجہ نے متنبہ بھی کیا کہ اگر فیصلہ کن اقدامات نہیں اٹھائے گئے، تو شام میں مزید خونریزی ہو سکتی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور ترکی سمیت چھتیس ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے تحریری طور پرشام میں کیمیائی حملے میں بے شمار افراد کی ہلاکت پر سخت عالمی ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ شام میں پہلے سے موجود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو دارالحکومت دمشق کے نواح میں اس مقام تک رسائی دی جائے جہاں پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ فرانس کے وزیرِ خارجہ لورنٹ فیبیس کا کہنا ہے کہ اگر حملہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا ’طاقت سے ردعمل‘ ہونا چاہیے۔ اسی حوالے سے کیمیائی حملے کی خبر کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بدھ کو ایک ہنگامی اجلاس بھی ہوا۔ جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جین الیاسن نے کہا ہے یہ واقعہ شام کی صورتحال میں ایک اہم اور سنجیدہ تبدیلی ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں واقعے کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے لیے ارجنٹائن کی سفیر ماریا کرسٹینا پرویسال نے بتایا کہ ’کونسل کے ارکان کو ان الزامات پر سخت تشویش ہے، یہ عمومی تاثر یہی ہے کہ اس معاملے کی حقیقت جانی جائے۔‘ اقوام متحدہ کے انسپکٹر اتوار کو شام پہنچے ہیں اور وہ وہاں اس سے پہلے ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں سے متعلق الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اجازت دی جاتی ہے تو وہ تازہ حملے کی تحقیقات کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس سے قبل شامی حزبِ اختلاف نے کہا تھا کہ مہلک کیمیائی ہتھیاروں سے لیس راکٹوں سے دمشق کے مضافاتی علاقے غوتہ پر بدھ کی صبح حملے کیے گئے۔ شام کے بارے عام خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس اب تک بڑی غیر اعلانیہ مقدار میں کیمیائی ہتھیار ہیں جن میں سارین گیس اور اعصاب کو شل کرنے والے ایجنٹ شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل نے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے جس میں انہوں نے شام سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کی بلاتاخیر، مکمل اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کاکہاتھا۔ اس سے قبل نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا جس کے دوران شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں روس اور چین نے سلامتی کونسل کے ایک سخت بیان کو روک دیا جس میں شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے معائنہ کاروں سے اس واقعے کی تحقیقات کروانے کا کہا گیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق شام میں شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ اقوام متحدہ کو دمشق میں قتل عام بند کرانا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ شام میں موجود ادارے کے معائنہ کاروں کو دمشق کے کیمیائی حملے سے متاثرہ مقام تک رسائی دلوانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان نے بھی کیمیائی حملے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے حالیہ الزام کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے، پاکستانی سفیرمسعود خان نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے دعوے پریہ انتہائی ضروری ہے کہ غیرجانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے حقائق سامنے لائے جائیں۔

یہ واضح رہے کہ شام میں گزشتہ دو سال سے لڑائی جاری ہے جس میں اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔اس لڑائی میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے، بشار الاسد کی فوج کے مظالم سے شام سے نقل مکانی کرنے والے صرف بچوں ہی کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین اور یونیسف کا کہنا ہے کہ شام میں جاری لڑائی کے باعث وہاں سے بھاگنے پر مجبور بچوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اب تک بیس لاکھ سے زائد بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ شام سے بھاگنے والے تین چوتھائی بچوں کی عمریں گیارہ سال سے کم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین اینٹونیو کا کہنا ہے کہ شام کے نوجوان اپنے گھروں، خاندان کے افراد اور مستقبل کھو رہے ہیں۔ شام سے بھاگنے والے بچے لبنان، اردن، ترکی، عراق اور مصر پہنچ رہے ہیں اور ان کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین اور یونیسف کا کہنا ہے کہ وہ ان بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔یونیسف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینتھونی لیک کا کہنا ہے کہ ہمیں اس شرمندگی کو بانٹنا چاہیے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بحران گزشتہ بیس سالوں میں سب سے بڑا بحران ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.