چاند اترا ہے میرے آنگن میں

تحریر : محمد اسلم لودھی

بے شک اﷲ بہت بڑا تخلیق کار ہے وہ جس طرح مٹی سے انسان کا روپ دیتا ہے پھر اسے ماں کے شکم میں نو مہینے نہ صرف زندہ رکھتا ہے بلکہ بچے کے تمام جسمانی اعضاء کو اپنی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر ہر چیز کو انمول بنا دیتا ہے بے شک اسی عظیم ہستی اور سب سے بڑے مصور کا کام ہے ۔یہ باتیں انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے اے انسان تو خود کو بہت بڑا عقلمند تصور کرتا ہے تمہیں تو شعور بھی نہیں ہوتا کہ تم کیا کررہے ہو یہ ہم ہی ہیں جو چکنے گارے سے انسان تخلیق کرتے ہیں ۔نسل انسانی کی افزائش اﷲ تعالی کی بہترین عنایتوں میں سے ایک ہے ۔ایک عورت اس وقت تک ولی کامل کے درجے پر فائز نہیں ہوتی جب تک وہ ماں نہیں بنتی اسی طرح ایک انسان اس وقت تک عظیم مرتبے پر فائز نہیں ہوتا جب تک وہ باپ نہ بن جائے ۔قدرت نے ماں کو جنت اور باپ کو جنت کا دروازہ قرار دے کر عورت اور مرد کی عزت اور شان میں حد درجہ اضافہ فرمایا ہے ۔شادی ٗ سنت نبوی ﷺ ہے شادی انسان کو اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے روکنے کا نام ہے وہی عمل جو شادی کے بغیر قابل گرفت اور قابل سزا قرار پاتا ہے شادی کے بعد وہی عمل تخلیق انسانی کا باعث بنتاہے یہ سب میرے رب کی عظمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

16 اگست 2013 کی رات کا پچھلا پہر شروع ہوچکا تھا گھر کی تمام لائیٹیں جل رہی تھیں یوں محسوس ہورہا تھا شب معراج کو جس طرح پوری کائنات کو اﷲ تعالی نے اپنے نور سے منور کررکھا تھا وہی نور میرے گھر کے ہر گوشے میں موجود تھا میں نے پوچھے بغیر سرگرمیوں کا جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ کوئی غیر معمولی سرگرمیاں جاری ہیں دونوں بیٹے موٹرسائیکلوں پر گھر سے روانہ ہوگئے ۔چھوٹے بیٹے زاہد کی اہلیہ (رضوانہ ) اور والدہ ہمراہ تھیں ۔کچھ دیر بعد جب تہجد کا وقت شروع ہونے پر میں نیند سے بیدار ہوا تو گھر میں سبھی افراد موجود تھے پھر جب میں نے تہجد کی نماز پڑھنا شروع کی تو اچانک یہ قافلہ ایک بار پھر گھر سے کسی خفیہ مشن پر روانہ ہوگیا اس لمحے میں تمام صورت حال کو جان چکا تھا مجھے اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے آج میرے گھر میں کوئی نیا مہمان آنے والا ہے ۔ جس کی آمد کے لیے بہت عرصے سے میں دعا کرتا چلا آرہا تھا ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ میں باوضوہو کر رات کو جب سو یا تو خواب میں مطلع غیب سے کسی ہستی نے ایک نومولود خوبصورت اور چمکدار آنکھوں والا بچہ میری گود میں ڈال دیا پھر غیب سے آواز آئی یہ بچہ تمہارا ہونے والا پوتا ہے ۔میں نے گردن گھما کر جب پیچھے کی جانب دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا ۔لیکن اس صحت مند اور سرخ و سفید بچے کو دیکھ کر نہ صرف مجھے خوشی ہوئی بلکہ میں یہ بات سمجھ گیا کہ قدرت مجھے ایک ایسے پوتے سے نواز رہی ہے جو شاید زندگی کی شاہراہ پر آـگے بڑھ کر ایک ولی کامل کے درجے پر فائز ہو ۔میں حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کی زندگی کا مشاہد ہ کرچکا ہوں آپ ؒ کی والدہ ماجدہ بہت نیک سیرت اور تہجد گزار تھیں والد کے انتقال کے بعد آپ ؒ کی پرورش کا ذمہ والدہ ہی تنگی تلسی سے نبھا رہی تھیں ایک رات خاتون کو اکیلا جان کر ایک چور دیوار پھاند کر گھر میں اتر آیا آپ ؒ کی والدہ حسب معمول کمرے کے اس دروازے کے درمیان مصلہ بچھائے آنکھیں بند کیے اپنے رب سے مخاطب تھیں کچھ دیر تو وہ چور کمرے میں داخل ہونے کے لیے آپ کے سجدے میں جانے کے لیے منتظر رہا لیکن جب کافی دیر تک آپ ؒ کی والدہ راستے سے نہ ہٹی اور مسلسل آنکھیں بند کیے اپنے رب سے مخاطب تھیں تو چور نے دھکا دے کر اندر جانے کا فیصلہ کرلیا یہ ارادہ کرکے ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھا تھاکہ قدرت الہی نے اس کی آنکھوں کی بینائی چھین لی اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا پہلے تو وہ اسے ایک واہم سمجھا لیکن جب کچھ دیر تک یہ صورت حال جاری رہی تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اس نے سوچا کہ یقینا میں جس اکیلی عورت کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہوا ہوں وہ ایک عام عورت نہیں ہے بلکہ بہت نیک ہستی ہے ۔اس وقت حضرت فرید الدین گنج ؒ ابھی کمسنی کے مراحل طے کررہے تھے ۔مایوس ہوکر چور نے بلند آواز میں پکارنا شروع کردیا میری آواز کو اگر کوئی سنتا ہے میری درخواست ہے کہ وہ مجھے معاف کردے اور میری آنکھوں کی بینائی واپس دلا دے ۔پھر وہ بولا میں اقرار کرتا ہوں کہ میں اس گھر میں چوری کی غرض سے داخل ہوا تھا جس کی سزا کے طور پرمیں اندھاہوچکا ہوں میں اپنے گناہ اور ارادے کی توبہ کرتا ہوں مجھے معاف کردیا جائے اور میری بینائی لوٹا دی جائے میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ تمام زندگی چوری نہیں کروں گا اور اﷲ تعالی کی فرماں برداری میں زندگی گزاروں گا ۔ چور کی چیخ و پکار سن کر آپ ؒ کی والدہ عالم استغراق سے واپسی لوٹیں اور انہیں یہ احساس ہواکہ گھر میں کوئی اجنبی مرد موجود ہے لیکن اندھا ہونے کی بنا پر چیخ و پکار کررہاہے ۔ اس تہجد گزار خاتون نے کہا تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے تھے اس نے سارا واقعہ سنایا تو تہجد گزار خاتون نے کہامیں نے تو تمہاری آـنکھوں کی بینائی ختم نہیں کی ۔ میں تو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس سے ہمکلام تھی تم اپنے رب سے التجا کرو۔ ہوسکتا ہے وہ تمہاری بینائی واپس مل جائے ۔اجنبی نے پھر پکارا اے نیک دل خاتون ۔ میں تو چور ہوں اور گناہگار ہوں وہ میری بات نہیں مانے گا آپ اﷲ کی نیک بندی ہیں آپ اگر میرے حق میں دعا فرمادیں تو یقین ہے مجھے آنکھیں واپس مل سکتی ہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں چوری چھوڑ کر مسلمان ہوجاؤں گا اور ہمیشہ اﷲ کی عبادت کرتا رہوں گا ۔ یہ وعدہ لے کر تہجد گزار خاتون نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اجنبی شخص کی بینائی واپس لانے کے لیے دعا فرمائی ۔ ابھی وہ ہاتھ اٹھے ہوئے تھے اور زبان سے التجاجاری تھی کہ حکمت خدواندی سے چور کی بینائی واپس آگئی اور وہ پہلے کی طرح دیکھنے لگا ۔ اﷲ تعالی کا شکر اداکرکے وہ چور دیوار پھاند کر بھاگ گیا اگلی صبح اپنے بیوی بچوں سمیت دروازے پر دستک دے رہا تھا ۔ جب حضرت فرید الدین گنج ؒ کی والدہ نے پوچھا کہ دستک دینے والا کون ہے تو اجنبی شخص نے بتایا کہ میں وہی ہوں جو رات کو آپ کے گھر چوری کے ارادے سے آیا تھا اور آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھا تھا ۔خاتون نے پوچھا کہ اب تم کس لیے آئے ہواس نے کہا میں نے چوری سے توبہ کرلی ہے میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہو ں اور اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کامتمنی ہوں ۔تاریخ شاہد ہے کہ وہ شخص بعد میں ایک کامل ولی کے روپ میں زندہ رہا اور تمام عمر اﷲ کے عبادت میں مشغول رہا ۔
میری چھوٹی بہو ( رضوانہ زاہد ) بھی ایک تہجد گزار بیٹی ہے وہ سردیوں کی انتہائی سرد راتوں میں بھی برف کی طرح ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے تہجد پڑھتی رہی ہے جب انسان سردی کے ڈر سے پانی کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتا ہے ۔میں نے تہجد کے وقت سخت سردی کے عالم میں ٹھنڈے فرش پر مصلہ بچھائے گھر کے برآمد ے میں سر خ لباس میں رب کے حضور اسے سجدہ ریز خود دیکھا ہے۔تہجد کے بعد نماز فجر کی ادائیگی پھر دن کااجالا گھر میں اترنے تک وہ اﷲ کے ذکر میں مشغول رہتی تھی ۔ابھی اس کی شادی کو دو تین مہینے ہی تو گزرے تھے اتنے عرصے میں تو صرف اﷲ اپنے نیک بندوں کو ہی اپنے سامنے سجدہ ریز ہونے کی توفیق دیتا ہے ۔ مجھے اپنی اس بیٹی کے اس عمل پر بلاشبہ فخر تھا ٗ فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔یہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جب وہ 16 اگست کی صبح گھر سے حجاز ہسپتال کے لیے روانہ ہوئی تو میری آنکھوں میں آنسو جاری تھے دل سے ہوکیں اٹھ رہی تھیں ہاتھ اپنے رب کے حضور بلند تھے میں رو رو کر یہی دعا مانگ رہا تھا
اے رب کائنات ۔ تو بڑا عظیم ہے
توہی سب سے بڑا تخلیق کار ہے
تو ہی سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے
میری اس بیٹی پر رحم فرما جو تیری ہی رضا کی خاطر تخلیقی عمل سے گزرنے والی ہے
یہ تیری وہ نیک بندی ہے جو سردیوں کی سخت سرد راتوں میں تیرے سامنے سجدہ ریز ہوتی تھی
یہ وہی تیری بندی ہے جو سخت سردیوں کے موسم میں گرم گرم بستر کو خیر باد کہہ کر ٹھنڈے فرش پرمصلہ بچھائے اپنا ماتھا تیرے سامنے جھکاتی تھی
یہ وہی تیری نیک بندی ہے جو صبح کا سورج طلوع ہونے تک تیری حمد و ثنا کرتی تھی
تیرے حبیب نبی کریم ﷺ پر کثر ت سے درود بھیجتی تھی
اے اﷲ یہ تیری وہی بندی ہے جو گھنٹوں قرآن پاک نمناک آنکھوں سے پڑھا کرتی تھی ۔
اے اﷲ آج یہ تیرے کرم اور تیرے رحم کی محتاج ہے
اے اﷲ میری اس بیٹی کو اپنی حفاظت میں کرنا

اے اﷲ ڈاکٹر تو جاتے ہی آپریشن شروع کردیتے ہیں میری اس بیٹی کو آپریشن کی اذیت سے بچانا اور زچگی کے تمام مراحل نارمل طریقے سے اس طرح بخیر و عافیت گزارنا جس طرح تو حضرت مریم علیہ السلام کو ایک درخت کے سائے تلے کسی دنیاوی مدد کے بغیر زچگی کے مراحل سے بخیر و عافیت گزارا تھا اے اﷲ میری اس بیٹی کو اولاد نرینہ عطا فرما ایسا بیٹا تو ماں کی طرح تہجد گزار ہو۔ جو زندگی بھر تیرے سامنے جھکنے والا ہو جو تیرے احکامات کی پابندی کرنے والا ہو جو تیرے حبیب نبی کریم ﷺ پر تسلسل سے درود پڑھنے والا ہو ۔ جو اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہو ٗ جو خلق خدا کی خدمت کرنے والا ہو ٗ جو راہ راست سے بھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم دکھانے والا ہو ۔ اے اﷲ میں تجھ سے تیری ہی مدد مانگتا ہوں تو میری فریاد سن لے جس طرح تو نے حضرت یونس علیہ السلام کی فریاد مچھلی کے پیٹ میں سنی تھی اور آپ علیہ السلام سمندر کی گہرائی ٗ دومچھلیوں کے پیٹ کے اندھیرے اور رات کی تاریکی سے نجات عطا فرمائی تھی اسی طرح میری دعا بھی قبول کرلے اور مجھے اپنی اس تہجد گزار بیٹی کی طرف سے اچھی خبر سننے والا بنا دے ۔ میں جب یہ تمام حاجات اپنے رب کے حضور پیش کررہا تھا تو میری آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے میرا جسم کانپ رہا تھا اور روح مضطرب تھی نہ جانے یہ کیفیت مجھ پر کیسے طاری ہوئی لیکن اسی کیفیت میں میں رب کائنات کی تسبیحات کرکے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ رسالت میں درود پاک کا تحفہ پیش کرتے ہوئے باوضو ہوکر ایک بار پھر بستر پر لیٹ گیا تو کچھ ہی دیر بعدمیں اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے نیند کی گہری وادی میں جا پہنچا ۔

کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت پاکیزہ محفل چل رہی ہے روحانی ماحول میں میرے پیر و مرشد پیر طریقت رہبرشریعت حضرت محمد عنایت احمد ؒ تشریف فرماہیں اور محفل میں موجود تمام افراد کی نگاہوں کا مرکز ہیں ۔ کچھ دیر بعد آپ ؒ میری جانب متوجہ ہوتے ہیں اور کچھ فرماتے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہا ۔ پھر آپ ؒ کے دائیں جانب دو بہت ہی خوبصورت سرخ اور شوخ رنگ سر ورق کی دو کتابیں نظر آتی ہیں ان میں سے ایک قرآنی آیات کی کتاب ہے جبکہ دوسری کتاب کے ٹائیٹل پر "ماہ رمضان کا دوسرا عشرہ" درج تھا آپ ؒ نے پہلی والی کتاب اٹھا کر مجھے دی اور فرمایا یہ کتاب پڑھا کرو ۔ ابھی خواب کا یہ منظر جاری تھا کہ پونے سات بجے صبح میرا بڑا بیٹا ( محمد شاہد لودھی ) کمرے میں داخل ہوا اور مجھے نیند سے بیدار کرکے کہنے لگا ابو جی مبارک ہو ۔ اﷲ تعالی نے آپ کو پوتے سے نوازا ہے ۔ جونہی یہ الفاظ میں نے سنے تو میری زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے "الحمد اﷲ اے اﷲ تیرا شکر ہے "۔ پھر میں نے پوچھا رضوانہ بیٹی کا کیا حال ہے وہ خیریت سے ہے نا ۔ بیٹے شاہد نے بتایا وہ بالکل ٹھیک ہے اور مکمل ہوش میں ہے ۔ میں نے پھر پوچھا کہ زچگی کے مراحل نارمل طریقے سے انجام پذیر ہوئے ہیں یا آپریشن کے ساتھ ۔ بیٹے شاہد نے بتایا اﷲ کا شکر ہے ڈلیوری نارمل طریقے سے ہوئی ہے ۔یہ سب کچھ سن کر میں بستر سے کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا اور آسمان کی طرف چہرہ اٹھا کر اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے میری دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور میری تہجد گزار بیٹی کو زچگی کے ہر مرحلے میں اذیت اور پریشانی سے محفوظ رکھتے ہوئے ایک نیک سیرت ٗ بیٹا عطا فرمایا ۔

دل تو چاہتا تھا کہ میں حجاز ہسپتال پہنچ کر اپنے پوتے کی زیارت کروں لیکن مجھے بتایا گیا کہ بچہ ابھی نرسنگ روم ہے ماں کے پاس نہیں پہنچا ۔ میری جذباتی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ 16 اگست کا دن مجھے باقی تمام دنوں سے زیادہ روشن اور اجلا دکھائی دے رہا تھا گزشتہ رات سے ہی ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا جو اﷲ کی رحمت سے تعبیر کی جاسکتی ہے ۔ دل میں خوشی کی پھوار بار بار اٹھ رہی تھی اﷲ تعالی نے مجھے ایک ایسی دولت سے سرفراز فرمایا تھا جس پر میں اس کے سامنے اظہار تشکر کے لیے سر بسجود تھا ۔ میں نے بھی شکرانے کے نوافل اداکیے اور بیٹے زاہد لودھی نے پہلے غسل کیا پھر شکرانے کے نوافل اداکرکے وہ ہسپتال روانہ ہوگیا وہ حقیقت میں بہت خوش تھا زندگی میں ایسی خوشیاں بار بار تو نہیں ملا کرتیں ۔ بیٹے زاہد کا چہرہ خوشی سے کھل رہا تھا جیسے دنیا کی سب سے بڑی دولت (اولاد کی صورت میں ) اسے مل چکی ہو ۔ اب وہ ایک فرد کی بجائے باپ کے درجے پر فائز ہوچکا تھا اب اس کو جنت کے دروازے کامقام حاصل ہوچکا تھا وہ اس نیک سیرت بیوی ( رضوانہ ) کے شوہر کی حیثیت سے بلند مرتبے پر فائز ہوچکا تھا ۔ اس کے باوجود کہ رضوانہ بیٹی ابھی گھر نہیں پہنچی تھی پھر بھی ہر جانب خوشیوں کا بسیرا تھا ۔ میری دوسری بہو ( تحسین شاہد ) بھی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی وہ بھاگ بھاگ کے گھر کے تمام کام ایسے کررہی تھی جیسے گھر میں کوئی بہت بڑی شخصیت آنے والی ہو ۔ گزشتہ رات بھی میں نے اسے بطور خاص سورہ یسین پڑھتے دیکھا تھا جو اﷲ کے حکم سے آسانیاں پیدا کرتی ہے ۔ میری پوتی شرمین کو جب پتہ چلا کہ اس کا ایک بھائی بھی دنیا میں آچکا ہے تو وہ بھی چھلانگیں مارتی پھر رہی تھی اس کے باوجود کہ ہلکی بارش سے صحن کا فرش بار بار گیلا ہورہا تھا شرمین فاطمہ اپنے سے بڑا وائپر لے کر فرش کو خشک کرنے کی جستجو میں مصروف تھی کئی مرتبہ اس کی والدہ نے شرمین کو روکا کہ اس طرح اس کے اپنے کپڑے بھی بارش سے گیلے ہورہے ہیں جس سے وہ بیمار ہوسکتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا تھا کہ شرمین کو جیسے دنیا کی بہت بڑی خوشخبری ملنے والی ہے ۔یہ خوشیاں صرف ہم تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ میرے سب سے بڑ ا بیٹا شاہدبہت خوش دکھائی دے رہا تھاوہ خوش کیوں نہ ہوتا آج حقیقی انسانی رشتوں میں اس کو تایا کا مقام حاصل ہورہا تھا یہ وہ انسانی رشتے ہیں جن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہر انسان کو تقویت دیتے ہیں اور رشتوں کی قدرو منزلت کے مضبوط بندھن میں باندھ دیئے جاتے ہیں ۔میں قربان جاؤں اس پروردگار کے جو پیدا ہوتے ہی بچے کو رشتوں کی زنجیر میں ایسا محفوظ بنا دیتا ہے کہ ماں باپ کے علاوہ بھی بے شمار لوگ اس کی حفاظت ٗ تربیت اور پرورش کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں نئے رشتے کی پہچان اور اعتراف پیدا ہوتا ہے ۔ بظاہر ایک بچہ کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے لیکن پورا خاندان مختلف رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوا اس پر جان نچھاور کرنے کے لیے اپنے اپنے مرتبے کے اعتبار سے تیار ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کائنات کا حسن بھی انہیں روایات سے باقی ہے ۔ جبکہ زاہد کی والدہ ( عابدہ اسلم ) یعنی میری بیگم روایتی بزرگ عورتوں کا کردار نہایت جانفشانی سے انجام دے رہی تھی اﷲ تعالی نے اس کو بہت حوصلہ دے رکھاہے وہ سخت ترین اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے حواس قائم رکھتی ہے میں 34 سال سے اسے دیکھ رہا ہوں جہاں میں حوصلہ ہار بیٹھتا ہوں جہاں میں خود کو مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوبتا ہوامحسوس کرتا ہوں وہ ان سخت ترین حالات میں بھی روشنی کی کرن تلاش کرکے مجھے نہ صرف حوصلہ دیتی ہے بلکہ عملی صورت میں سہارا بنتی ہے مجھے اس کا تعاون باوفا اور باشعور بیوی کی حیثیت سے تو میسر ہی ہے لیکن مجھے اس کا ساتھ ایک وفادار اور حوصلہ مند ساتھی کی صورت میں بھی ملا ہوا ہے جو زندگی کی کٹھن راہوں میں بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی باوفا رفاقت میں زندگی کے 34 سال 34 منٹوں کی طرح ایسے گزر گئے کہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے شادی کو ابھی 34 منٹ ہی گزرے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی گھر میں موجودگی مجھے بے پناہ حوصلہ فراہم کرتی ہے ۔ وہ 16 اگست 2013 بروز جمعہ المبارک بھی اپنی تمام تر محبتوں ٗ شفقتوں اور تجربوں سے میرے گھر کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی ۔ہسپتال لے جانا پھر زچگی کے تمام مراحل پر کڑی نظر رکھنا ٗ مشکل کے ہر لمحے بروقت فیصلے کرنا اسی کی صوابدید تھی وہ ایک کامیاب بزرگ عورت کی طرح زندگی کے ہر میدان میں سرخرو ہوتی جارہی ہے ۔16 اگست کا یہ مشکل ترین مرحلہ بھی اسی کی توجہ اور رہنمائی میں انجام پذیر ہوا تھا ۔

بہرکیف میں جسمانی طور پر 9 بجے صبح بنک آف پنجاب اپنی ڈیوٹی پر حاضر تو ہوگیا تھا لیکن ذہنی طور پر میں حجاز ہسپتال کے اس نرسنگ وارڈ کے باہر رکھے ہوئے لکڑی کے بینچ پر بیٹھا محسوس کررہا تھا جس وارڈ کے اندر میری تہجد گزار بیٹی (بہو رضوانہ ) کائنات کو ایک ولی عطا کرکے محو استراحت تھی ۔ موبائل پر میرا بیٹے زاہدلودھی سے مسلسل رابطہ تھا وہ مجھے لمحہ بہ لمحہ باخبر کررہا تھا آج کا دن تو اس کے لیے بھی بہت خوشیوں بھرا تھا اور وہ اپنی اس خوشی کا بار بار اظہار کربھی رہا تھا ۔ایسا کیوں نہ ہوتا ماں باپ اولاد کے لیے اور اولاد ماں باپ کے لیے خدائی عطیہ تصور ہوتے ہیں ۔یہ وہ خونی رشتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں بظاہر ایک دوسرے سے جڑے نہ ہونے کی بنا پر بھی یکجان اور یک قالب کردیتے ہیں ۔بیٹا زاہد پہلے ایک نیک سیرت بیوی اور اب پورے خاندان کا سربراہ بن چکا تھا ۔ وہ اس مقام پر فائز ہوکر بھی بہت خوش تھا ۔میں نے اپنی خوشی کا اظہار موبائل پر تمام دوستوں کو مسیج کرکے پوتے کی پیدائش کی خبر سنا رہا تھا تمام دوستوں نے مجھے دلی مبارک باد دی جو میری خوشیوں میں مزید اضافے کا باعث بنتی رہی ۔ عارفہ صبح خان (جو ممتاز ادیبہ ٗ ڈرامہ نگار اور کالم نگار بھی ہیں ) اس کو میں بہن کہہ کر پکارتا ہوں جب اسے پوتے کی پیدائش کا مسیج کیا تو اس نے مبارک باد دیتے ہوئے دعا دی کہ اﷲ تعالی آپ کو سات پوتے مزید عطا فرمائے ۔ جواب میں میں نے آمین کہہ کراپنی رضامندی کا اظہار کردیا ۔یوں تو مبارک باد بھی چند الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن اس دن مجھے احساس ہوا کہ جب کوئی مجھے مبارک باد دیتا ہے تو دل میں خوشی کی ایک پھوار سی پھوٹنے لگتی ہے اور پورے جسم میں سرایت کرجاتی تھی ۔

یہاں ایک بات کا احساس بار بار اٹھتا تھا کہ ہم عیدالاالنبی ( نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت ) کی خوشی بہت دھوم دھام سے مناکر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ 12 ربیع الاول کے دن پوری کائنات کے لیے رحمتہ اللعالمین ﷺ دنیا میں تشریف لائے لیکن کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی امت کا حصہ ہونے کے باوجود صرف یہ کہتے ہوئے اپنی عبادت گاہوں اور گھر میں صف ماتم بچھائے رکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھا گیا ۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی تو پوری کائنات نور میں نہلا کر خود رب کائنات نے منائی تھی جو اﷲ تعالی کی واحدنیت کا اظہار لیے دنیا کو غیر اﷲ کی تقلید سے بازرکھنے کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے۔اگر مجھے اپنے پوتے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہے کہ جو شخص مجھے مبارک باد دیتا ہے وہ مجھے اپنا سب سے عزیز ترین دوست نظر آتا ہے کیا نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانے والا شخص ٗ اﷲ تعالی اور اس کے نبی کریم ﷺ کے لیے خوشی کا باعث نہیں بنے گا ۔ بے شک جس عظیم ہستی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اﷲ اور اس کے فرشتے درود و سلام پڑھتے ہیں کیا منکرین ولادت النبی کی یہ حرکات اﷲ اور اس رسول ﷺ کے لیے تکلیف کا باعث نہیں ہوں گی ۔

16 اگست 2013ء کو سید ایام جمعہ المبارک کا دن تھا جمعہ المبارک تمام دنوں کا مقدس ترین دن ہے ۔ جہاں اس دن اﷲ تعالی کے ہاتھوں کائنات زمین و آسمان کی تخلیق مکمل ہوئی وہاں حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اسی دن پہلا سانس لیا تھا پھر جمعہ کو ہی حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر اترے پھر اسی جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ جمعہ کے دن ہی کربلا معلی میں حضرت امام حسین ؓ نواسہ رسول کو شہید کیا گیا ۔ جمعہ کے دن ہی قیامت آئے گی ۔اﷲ تعالی ان مسلمانوں کو بغیر حساب کتاب لیے جنت میں داخل فرمادیتا ہے جو جمعہ کو فوت ہوتے ہیں یقینا جمعہ کو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچے بھی نہ صرف کامیاب ترین انسان ہوں گے بلکہ اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوں گے ۔میرا پوتا محمد عمر لودھی جمعہ کی صبح نماز اشراق کے وقت صبح چھ بجے کر 20 منٹ پر اس دنیا میں آیا اور اس نے اپنا پہلا سانس حجاز ہسپتال کے نرسنگ روم میں تہجد گزار ماں کی آغوش میں لیا ۔کتنا خوش نصیب ہوگا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔

آج مجھے بنک کے ورکنگ اوقات کار شام چھ بجے تک تھے لیکن بنک میں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا اس لیے ساڑھے بارہ بجے جب میں بنک سے گھر کے لیے روانہ ہوا تو تیز بارش نے سارے ماحول کو جل تھل کر رکھا تھا بہت سارے لوگ بارش سے بچنے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں میں ٹھہرے ہوئے تھے لیکن میرے جسم میں جیسے خوشی کے فوارے پھوٹ رہے تھے خوشی کی اس رم جھم نے میرے لیے برستی بارش کا موسم بہت خوشگوار بنا دیا تھا چنانچہ میں بارش میں نہاتا ہوا موٹرسائیکل پر گھر کی جانب رواں دواں تھا پاس سے گزرنے والی گاڑیاں جب تیزی سے گزرتی تو برساتی پانی کی ایک بوچھاڑ مجھے معطر کردیتی تھی انسان اگر اندر سے خوش ہو تو باہر کا ماحول بھی اچھا لگتا ہے آج بارش کاخوشگوار موسم میرے جسم میں گدگدیاں کررہا تھا اور میں اس خوشگوار موسم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکھوں سے اٹھکیلیاں کرتا ہوا گھر کی جانب اس لیے گامزن تھا کہ پہلے پہنچ کر میں اپنے پوتے کا گھر کی دہلیز پر استقبال کروں گا۔گھڑی پر دیکھا تو دوپہر کاایک بج چکا تھا نماز جمعہ پڑھنے مکہ کالونی کی جامع مسجد پہنچا جہاں مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی صاحب ( جو اپنی ذات میں علم دین کا سمندرہیں اور اس مرحلے میں میری رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ) نے نماز جمعہ پڑھائی ۔ درود و سلام کے بعد جب بالمشافہ ان سے ملاقات ہوئی تو صوفی اختر صاحب سمیت چنداور ساتھی بھی جمع ہوگئے مفتی صاحب نے پوتے کی پیدائش پر مجھے مبارک باد دی ان کی مشاورت سے میں اپنے پوتے کا نام محمد عمر رکھ رہاہوں کیونکہ یہ نام خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب ؓ سے نسبت رکھتا ہے جن کو دائرہ اسلام میں لانے اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے خود نبی کریم ﷺ نے اﷲ تعالی سے مانگا تھا ۔آپ نے جتنے بھی جنگی معرکوں میں نبی کریم ﷺ کی سرپرستی میں شرکت کی تو بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ کفار پر خوف اور دبدبہ پیدا ہوگیا آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر ہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آپ کو اپنے بعد خلیفہ دوم نامزد فرمایا تھا پھر آپ نے اپنے دور حکومت میں ایسا منصفانہ اور عادلانہ نظام قائم کیا کہ آ ج چودہ سو سال بعد بھی آپ کے نظام حکومت اور عدل و انصاف کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ ایک بار شدید زلزلے کی وجہ سے زمین ہلنے لگی آپ ؓ نے اپنا دایاں پاؤں زمین پر مار کرکہا کیا میں نے تجھ پر عادل و انصاف نہیں کیا میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ رک جا۔ یہ کہنا ہی تھاکہ زمین پہلے کی طرح ساکت ہوگئی ۔پھر گورنر مصر حضرت عمرو بن العاس ؓ نے آپ کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ دریائے نیل میں اگر کسی دوشیزہ کو زیورات سے لد کر نہ ڈالا جائے تو وہ دریائے نیل خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ جس سے کھیتی باڑی اور زراعت کو نقصان پہنچتا ہے اس واقعے کے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر کیا جو دریائے نیل کی لہروں کے سپرد کردیا گیا ۔حضرت عمر فاروق ؓ نے خط میں لکھا کہ دریائے نیل اگر تو اپنے سبب سے بہتا ہے تو نہ بہہ اور اگر اﷲ کے حکم سے بہتا ہے تو پھر بہتا رہ اور کبھی خشک نہ ہو نا ۔خط کے آخر میں لکھا منجانب اﷲ کا بندہ امیر المومنین عمر فاروق ۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے ہاتھ کالکھا ہوا یہ خط دریائے نیل میں ڈالنے کے بعد آج تک خشک نہیں ہوا اور 12 مہینے ایک ہی رفتار سے بہتا ہے ۔میں چاہتا ہوں میرا پوتا حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرح ٗ انصاف پسند ٗ خلق خدا کی خدمت کرنے والا اور خدا سے ڈرنے والا ہو ۔ شمشیر زنی کا ماہر ٗ بہادر ٗ نڈر اور اسلام کی سربلندی کے لیے جان نچھاور کرنے والا ہو۔ اس کی جاں مردی سے دشمن لرزتے ہوں ۔وہ اﷲ کے خوف سے کانپنے والا اور نبی کریم ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ محبت کرنے والا ہو ۔

16 اگست کا دن برجوں کے حساب سے "برج اسد" بنتا ہے ۔ برج اسد کے حامل افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر اپنی شخصیت کے اظہار ٗ نمود و نمائش اور دکھاوے کی زبردست خواہش رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس کی تعریف و توصیف کریں بعض اوقات یہ لوگ خوشامدیوں کے چکر میں بھی آ جاتے ہیں ۔برج اسد پیدائشی لیڈر ہوتے ہیں اس لیے وہ خود کو لوگوں کی رہنمائی کرتے اور ہدایات و احکام جاری کرتے ہوئے دیکھنا پسند کرتے ہیں وہ ایسے تخلیقی کاموں کے لیے بہت مفید ہیں جن کا دائرہ وسیع ہو ۔ وہ افکار و خیالات کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور ٹھوس و مستحکم ارادے کے مالک ہوتے ہیں تصنیف و تالیف کامیدان ان کے لیے بڑی دلکشی رکھتا ہے کیونکہ ایک مضمون نگار کی حیثیت سے وہ اپنے مخصوص نظریات کو ڈراموں ٗ افسانوں ٗ ناولوں اور سنجیدہ علمی کہانیوں کے ذریعے آسانی سے پیش کرسکتے ہیں ۔ برج اسد کے حامل افراد بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں زندگی میں ایک دو مرتبہ خطرے بھی مول لے سکتے ہیں لیکن برج اسد میں ایک کمزوری یہ ہے کہ جب حالات ناسازگار ہوجاتے ہیں تو اس پر مایوسی اور شکستہ دلی کا غلبہ ہوجاتاہے ۔برج اسد ایک شاہی برج ہے جو حکمرانی چاہتا ہے اور یورینس غیر معمولی اور خلاف توقع واقعات کا سیارہ ہے اچانک تبدیلی کا مظہر بھی ہے اسد اور یورینس میں بہت کم تعاون ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ملاپ انوکھے خیالات اورندرت فکر کا باعث بنتا ہے نئی نئی اسکیمیں اور ہیجان انگیز ایجادات وجود میں آسکتی ہیں ۔ایسے افراد کی رومانی زندگی متلاطم اور طوفانی ہوتی ہے خوشی اور مسرت بھی انتہائی اور مایوسی اور ناکامی بھی انتہائی ہوتی ہے ایسے افراد بار بار رومان اور محبت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن محبت کا سلسلہ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہتا ۔ برج اسد 24 جولائی سے 23 اگست تک کے عرصے پر محیط ہوتا ہے جس کا نشان ببر شیر ٗ عنصر آگ ٗ حاکم سیارہ سورج ٗ خوش بختی کے اعداد 5 اور 9 ٗسعد پتھر لعل اور یاقوت ٗ موافق رنگ سنہرا اور نارنجی مبارک دن اتوار ہے ۔( استفادہ علم نجوم کے موقر ادارے امریکن ایسٹرواینالسس انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات سے تلخیص و ترجمہ )
نماز جمعہ کے بعد جب میں گھر پہنچا تو سہ پہر کے تین بج چکے تھے سخت بھوک لگی تھی بڑی بہو نے کھانا آراستہ کیا حسب معمول دوپہر کو ایک روٹی کھاتا تھالیکن آ ج خوشی کے عالم میں ٗ میں نے دانستہ ڈیڑھ روٹی کھائی ۔ بہت مزا آیا بیگم سے موبائل پر بات تو اس نے بتایا کہ ہم ساڑھے تین بجے گھر پہنچ رہے ہیں اب نگاہیں دروازے پر مرکوز ہوگئی کہ کب دستک ہو اور میرا پوتا اپنی دادی ( میری اہلیہ ) کی آغوش میں زندگی میں پہلی بار گھر میں داخل ہو ۔انتظار کی گھڑیا ں طویل ہوتی جارہی تھیں جبکہ دل کی کیفیت بھی ہلچل میں تبدیل ہورہی تھی پونے چار بجے دروازے پر ایک گاڑی آکر رکی ۔دستک ہوئی تو دیکھا میرا پوتا اپنی دادی کی آغوش میں گھر میں داخل ہورہاہے ۔ میں جب استقبال کے لیے آگے بڑھا تو اہلیہ نے ایک بچہ یہ کہتے ہوئے میری بانہوں میں رکھ دیا یہ لو اپنا پیارا سا پوتا ۔ میں نے اسے آغوش میں لیتے ہی آیت الکرسی پڑھی اور اس پر پھونک ماری پھر اس کے چہرے کے طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا تو وہ ہو بہو ویسا ہی تھا جیسا چند ہفتے پہلے خواب کی حالت میں مجھے دکھایاگیا تھا ۔وہی چہرہ ٗ خوبصورت آنکھیں ٗ سرخ اور سفید رنگ ۔ آدھ کھلی آنکھوں سے وہ میری آغوش میں ہر چیز سے بے نیاز سو رہا تھا جبکہ میں چہرے کو دیکھ کر اس کے مستقبل کو پڑھنے کی جستجو میں تھا ۔ اتنی روشن آنکھیں میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے قدرت نے اس بچے کی آنکھوں میں ہزار پاور کا کوئی بلب لگارکھا ہے میں نے اپنی بہو (رضوانہ) کو مخاطب کرکے پوچھا بچے کی آنکھوں میں پانی ہے یا چمک ۔ اس نے بتایا" انکل یہ آنکھوں کی چمک ہے "۔ خدا مجھے جھوٹ نہ بلاوے ایسی چمک تو اﷲ کے نیک بندوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے جو ان کے جسمانی نور کی عکاسی کرتی ہے ۔وضو کرکے میں نے اپنے پوتے کے دائیں کان میں پہلے بلند آواز میں درود پاک پڑھا پھر کچھ دیر ٹھہرکے اذان دی اسی طرح بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور آخر میں پھر نبی کریم ﷺ کی بارگاہ رسالت میں درود پاک بھیجاپھر کچھ وقفے کے بعد کلمہ طیبہ ٗ کلمہ شہادت ٗ کلمہ تمجید ٗ کلمہ چہارم ٗ کلمہ پنجم ٗکلمہ ششم بھی پڑھے اور کان میں اﷲ ہو کا ورد کچھ دیر تک جاری رکھا ۔ جب میں یہ عمل دھرا رہا تھا تو اس بچے نے میری جانب آنکھیں گھما کر ایسے دیکھا جیسے حیرت سے کسی کو دیکھتے ہیں ۔یہ اس بات کا اظہار تھا کہ میں جو کچھ اپنے پوتے کے کان میں پڑھ رہا ہوں وہ اس کو بخوبی سن بھی رہا ہے ۔غیب کا علم تو اﷲ تعالی اور اس کا نبی حضرت محمد ﷺ ہی جانتے ہیں میں تو ایک گناہگار اور خاکی انسان ہوں اور نہ جانے کب اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا پھر قیامت تک مجھے قبر میں ہی لیٹے رہنا ہے لیکن دل کہتا ہے کہ میرے گھر میں16 اگست 2013ء کو پیدا ہونے والا بچہ اگر ولی کامل نہیں تو صالحین میں ضرور شمار ہوگا یہ ایسا خوش نصیب انسان ہوگا جو والدین اور دادا ٗ دادی تمام عزیز و اقارب سمیت پوری کائنات کے لیے رشد و ہدایت کا باعث بنے گا ۔نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا لیکن ولیوں کی پیدائش کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ٗ اﷲ تعالی راستے سے بھٹکی ہوئی مخلوق کو راہ راست پر لانے کے لیے نیک اور صالحین بندوں کو دنیا میں بھیجتا رہے گا ۔ہوسکتا ہے میرا پوتابھی صالحین میں شامل ہو ۔ میری دعا اور دلی تمنا تو یہی ہے آگے اﷲ قبول کرنے والا ہے ۔ جس نے میری پہلے دعاؤں کو قبول کیا یقین کامل ہے وہ اب بھی مجھے مایوس نہیں کرے گا ۔مجھے یاد ہے شرقپور شریف میں میاں شیر محمد ؒ ایک ولی کامل گزرے ہیں ان کی پیدائش سے اڑھائی سال قبل ایک ولی کامل گھر کے پاس سے گزرے تو وہ رک گئے اور لمبی لمبی سانس لے کر کچھ سونگھنے لگے ایک اجنبی شخص کو رکا ہوا دیکھا تو کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے اور وہاں رکنے کی وجہ جاننے لگے ۔ استفسار پر بزرگ نے بتایا بلوائے تو مجھے اس گھر سے ایک ولی کامل کی خوشبو آرہی ہے ۔یہ حضرت شیر محمد شرقپور ی ؒ کی پیدائش سے اڑھائی تین سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ پھر جب آپ ؒ کی ولادت ہوئی اور آپ منصب ولایت پر فائز ہوئے تو حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف کرماں والے ٗ سمیت بہت سے بزرگوں نے آپ سے فیض حاصل کیا ۔ ڈاکٹر محمدعلامہ اقبال ؒ نے جب اپنی ایک نظم میں خدا سے شکوہ کیا تو اس دور کے علما نے آپ پر کفر کا فتوی جاری کردیا ۔ اس کے باوجود کہ علامہ محمداقبال ؒ نے اس شکوے کا جواب میں بھی ایک وضاحتی نظم لکھی لیکن کفر کافتوی لکھنے کی وجہ سے علامہ محمد اقبال ؒ سخت پریشان تھے کہ اگر اس حالت میں مجھے موت آگئی تو کون میرا جنازہ پڑھے گا اور کون مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرے گا ۔ یہ اذیت دن بدن بڑھتی جارہی تھی اور کفر کا یہ فتوی اندر ہی اندر آپ کو دیمک کے کیڑے کی طرح کھائے جارہا تھا ۔ایک دن علامہ محمداقبال ؒ محمد شفیع اکاڑوی ( جو ان کے دوست تھے ) کے پاس گئے اور درخواست کی کہ وہ آپ کو حضرت میاں شیر محمد کے پاس شرقپور لے کر جائیں اور کفر کے فتوی سے نجات دلائیں ۔محمد شفیع اکاڑوی( جو میاں شیر محمد ؒ کے خالہ زاد بھائی تھی ) علامہ محمداقبال ؒ کا پیغام لے کر شرقپور گئے اور اپنے خالہ زاد بھائی حضرت میاں شیر محمدسے احوال بیان کیے ۔حضرت شیرمحمد نے علامہ محمداقبال سے ملنے سے انکار کردیا ۔ آپ ؒ کسی بغیر داڑھی والے شخص کو نہیں ملا کرتے تھے جبکہ علامہ محمداقبال ؒ کی بھی داڑھی نہیں تھی ۔یہ درخواست دو مرتبہ یکے بعد دیگر حضرت شیرمحمد ؒ تک پہنچی لیکن رد ہوتی رہیں پھر ایک دن عالم غیب سے اشارہ ملنے پر حضرت شیرمحمد ؒ نے علامہ محمداقبال کو اپنے آستانے پر آنے کی دعوت دے دی ۔ جب علامہ محمداقبال ؒ آپ ؒ کے روبرو پہنچے تو قدموں میں سر رکھ کر بہت روئے اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں اور رندھی ہوئی آواز میں کہا میاں صاحب مجھ پر کفر کے فتوی جاری ہوچکے ہیں کیا میں کافر ہوں مجھے ان فتووں سے بچائیں میں تو رب کا حقیر بندہ ہوں اور اسلام پر سختی سے کاربند ہوں ایک کلمہ گو پر کفر کا فتوی جاری کرنے والوں کو آپ ہی سمجھیں ۔ حضرت شیر محمد ؒ ساری باتیں تحمل سے سنتے رہے پھر علامہ کے جھکے ہوئے سر پر اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا اقبال اٹھو تم کل بھی مسلمان تھے ٗ آج بھی مسلمان ہو اور مرنے تک بھی مسلمان رہو گے ۔آج کے بعد وہی عالم جنہوں نے تم پر کفر کا فتوی جاری کیا ہے وہ اپنے منبروں پر ترنم سے تیرا کلام پڑھا کریں گے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک ولی کامل کی زبان سے نکلے ہوئے وہ الفاظ اور اقبال ٗ عاشق رسول اور مفکر پاکستان کے مرتبے پر ایسے فائز ہوئے کہ آج دنیا بھر میں علامہ محمد اقبال ؒکے کلام پر یونیورسٹیوں میں الگ الگ شعبے قائم کیے جاچکے ہیں ۔یہ سب کامیابیاں اﷲ تعالی کے ایک ولی کی زبان کی وہ تاثیر سے ملی جن کی پیدائش سے اڑھائی سال پہلے ایک بزرگ نے کہا تھا مجھے اس گھر سے ولی کامل کی خوشبو آرہی ہے ۔

یہ روایت بہت پرانی چلی آرہی ہے کہ نومولود بچے کو کسی بزرگ ہستی کی گود میں دے کر دعا کی درخواست کی جاتی ہے جس سے بچہ حقیقی دنیا میں بہت کامیاب انسان اور دین اسلام سے محبت کرنے والا ثابت ہوتا ہے ۔مجھے یاد ہے میرے پیرو مرشد حضرت محمد عنایت احمد ؒ کی پیدائش1938ء میں جب وادی کشمیر کے گاؤں "کلسیاں" میں ہوئی تو آپ کے والد گرامی حضرت صحبت علی ؒ نے جو خود بٹالہ شریف والوں کے مرید تھے اپنے نومولود بچے کو اس وقت کی بزرگ شخصیت اور قطب الاقطاب حضرت سید ولایت شاہ ؒکی گود میں ڈال دیا قبلہ شاہ صاحب نے پیار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بچہ دنیا میں دین کی روشنی پھیلائے گا اور لاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھی راہ دکھائے گا ۔حضرت سید ولایت شاہ ؒ کی دعا اﷲ تعالی کے ہاں مقبول ہوئی اور اسی نومولود بچے نے بڑے ہوکر پیر طریقت رہبر شریعت حضرت محمد عنایت احمد ؒ کے نام سے شہرت پائی اور ہزاروں فرزند توحید آپ کے دست مبارک پر نہ صر ف مسلمان ہوئے بلکہ حلقہ ارادات میں بھی شامل ہوگئے ۔آپ ؒ دو سال پہلے رحلت فرماچکے ہیں جن کا مزار مبارک اے تھری گلبرگ تھرڈ میں قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔میں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دو اہم شخصیات کو اپنے گھر تشریف لانے کی دعوت دی ان میں سے ایک شریعت محمد ی ﷺ کے عالم اور جامع رضویہ قادریہ مکہ کالونی کے خطیب ( ڈاکٹر مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی ) ہیں جبکہ دوسری شخصیت صاحب کشف و کرامات صوفی محمد اختر سیفی صاحب ہیں ڈاکٹر مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی صاحب شریعت ہیں جبکہ صوفی محمد اختر سیفی ٗ صاحب طریقت ٗ کشف و کرامات ہیں ۔ یہ دونوں احباب میری نظر میں دین اور روحانیت میں اعلی مرتبے پر فائز ہیں ۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیات میرے گھر نماز عصر کے بعد تشریف لائیں میں نے اپنے نومولود پوتے محمد عمر لودھی کو پہلے صاحب شریعت مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی ؒ کی گود میں دیا جنہوں نے محمد عمر لودھی کو گود میں لے کر سپارہ 19 سورہ الفرقان کی آیت نمبر 73 تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا ۔یہ دعا پڑھ کے مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی صاحب نے محمد عمر لودھی کو صاحب کشف و کرامات صوفی محمد اختر سیفی صاحب کی آغوش میں دے دیا محمد عمر لودھی کو گود میں لے کر انہوں نے قرآن پاک کے سپارہ 16 سورہ طہ کی آیت نمبر 57 تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے ۔ اے میرے رب میرا سینا کھول دے اور میرا معاملہ آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔بعد ازاں انہوں نے فرمایا کہ اﷲ ہر انسان کو اس کے گمان کے مطابق عطا کرتا ہے اﷲ کرے آپ کا پوتا آپ کے اور ہمارے گمان پر پورا اترے اور سارے خاندان اور امت مسلمہ کے لیے رشد و ہدایت کی روشنی پھیلانے والا بنے ۔ آمین

بہرکیف میں نے شریعت اور طریقت دونوں کا فیض اپنے اس پوتے کو منتقل کردیا ہے ۔حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ میرے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ آنے والے وقت میں ایک صالح انسان ٗ کامیاب مسلمان بنے گا جس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ دکھی دلوں کا سہارا بنیں گے جو کتابوں میں محفوظ کیے جائیں گے ان شااﷲ ء

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.