کالم ، لوڈ شیڈنگ

گاؤں کی کھلی فضا میں مسلسل چلتے ٹیوب ویل کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے، میں جب بھی شہرکی اس بھاگ دوڑ اور ایک رواں دواں زندگی سے بیزار ہوتا ،چھٹیوں کے چند روز انہی کھیتوں کھلیانوں میں گزارتا، اور لطف وعیاشی کا عجیب سرور پاتا، صبح کے وقت شبنم کے قطروں سے بھری گھاس پر چلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ،جب سورج ابھرنے لگتا، پرندوں کی چہچہاہٹ اور بھی مست کردیتی ، اسی دوران ہلچل سی پیدا ہوتی ، اور گائے بھینسوں، بکریوں اور مرغیوں کی جیسے دوڑیں سی لگ جاتیں، اور پھر مکھن کے جلنے کی خوشبو،جو کچے گھر کے آنگن میں بنے مٹی کے چولہے پر دھواں اگلتی گیلی سی لکڑیوں پر گرم توے کے اوپر پراٹھے پر لگا ہوتا،دوپہر کو گرم دھوپ سے جلتی ہرچیزکے باعث ہرکوئی محو ئے آرام ہوتااس میں بھی کبھی کبھی گھنے چھاؤں دار درختوں پر بیٹھے پرندوں کی کو ئی آواز آتی ، اس خاموشی میں بھی ایک مسلسل آواز دور کے کسی چلتے ٹیوب ویل کی ہوتی جوکہ ایک مدہم رفتارسے اور مستقل آتی رہتی اور اس خاموشی میں بلکل ضم سی ہوجاتی تھی ،یہ ابھی حال ہی کی بات ہے، پھر یوں ہواکہ کافی عرصے سے جایا نہ گیا، اور وقت کی گھڑی چلتی رہی، اس دفعہ اچانک گاؤں جانے کا خیا ل شدت سے آیا تو رہا نہ گیا چھٹیوں کے چندروز پھر ان کھلیانوں کی ہوا کھانے چلاگیا، اب کچھ کچھ ویساہی تھا، راستوں کی صعوبتیں ختم ہوگئیں تھیں ، اور کبھی کبھی کسی گذرتی گاڑی کے انجن کی آواز چند لمحوں کے لئے مزہ کرکرا کردیتی تھی،سبزے اور درختوں کا حال بھی کچھ پھیکا نظر آیا، لیکن سب سے عجیب اور ناپسندیدہ بات مجھے اس ٹیوب ویل کی لگی جس کی آواز صرف چند منٹوں کے لئے آتی پھر کئی گھنٹوں کے لئے بند ہوجاتی ،اور ایک ہو کا عالم ہوتا،یہ ٹیوب ویل بھی اب لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوگیا تھا، جو بجلی کے بغیر نہیں چل سکتاتھا، نتیجہ یہ کہ پانی کی کمی سے فصلیں تباہ ہورہی تھیں ، گھاس نہ ہونے سے چارہ نہیں تھا، جانور بھی بھوک کا شکار ہورہے تھے اور بیچارے کھیت کے مالک اب مالک نہیں بلکہ زمینیں بیچ کر انہیں زمینوں پر مزدوری کررہے تھے ، خوشحال سے گاؤں پر غربت کے سائے سے منڈلا رہے تھے ،مجھے وہ پراٹھوں پر لگے جلتے مکھن کی خوشبو بھی نہ آئی ، کہ اب یہ عیاشی ترک کردی گئی تھی ایک تو جانور ہی کم تھے اوپر سے دودہ بھی کم ہوگیا تھا، اور لسی مکھن نکالناترک کردیا گیا تھا، یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جو ملک کے حالات کی عکاسی کرتی ہے ، بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیں صرف اے سی اور پنکھے بند ہونے پر محسوس ہوتی ہے اور ہم اپنے جنریٹر سے کام چلاتے ہیں لیکن اس لوڈشیڈنگ سے ایک ٹیوب ویل کے بند ہونے سے پوراگاؤں معاشی مشکلات کا شکار ہوگیا تھا، اور ذرا سوچیں تو ملک میں کتنے ٹیوب ویل ہوں گے اور ان پر انحصار کرنے والی کتنی زندگی محتاج ہوتی ہوگی، آج مجموعی طور پر ھمارا زرعی ملک بھی اب بھاری زر مبادلہ خرچ کرکے کھانے پینے کی اشیاء باہر سے منگوا رہا ہے ،لیکن اس لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارے کا کوئی بندوبست نہیں کرسکے،اگر ہم اپنے ٹیوب ویل چلانے میں کامیاب ہوگئے تو ملک کو اصل خوشحالی کی طرف لوٹاسکتے ہیں اور یہی ایک سیکٹر ملکی میں انقلاب لا سکتاہے-
SHAFI ULLAH MEMON SENIOR JOURNALIST
About the Author: SHAFI ULLAH MEMON SENIOR JOURNALISTSHAFI ULLAH MEMON
CELL 0333 3854 108
CEO, EDITOR,
SUJAWAL NEWS. TV
SENIOR JOURNALIST IN SUJAWAL
PRESIDENT MEDIA CLUB SUJAWAL
DISTRICT THATTA SI
.. View More