شاردہ تحریک کیوں چلی۔۔۔۔؟

مولانا عبدالشکور حقانی

شاردہ تحفظ حقوق کی تحریک اپر نیلم باالخصوص تحصیل شاردہ کے بنیادی حقوق کے حصول اور موجودہ حکمرانوں کے ضمیروں پر دستک کانام ہے ۔ آئینہ دکھایا تو برا مانتے ہیں، کوشش کروں گا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہوشاردہ تاریخی ، سیاسی، تمدنی، معدنیاتی لحاظ سے دنیا کا بہتریں خطہ ہے۔ اس سب کے باوجود بے پناہ مسائل میں گھیرا ہوا ہے۔ جب تاجکستان میں حضرت ایوب علیہ السلام کا دور تھا تو اس وقت اس خطہ میں حجرت ذوالکفل علیہ السلام مبعوث تھے۔ دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے اسکی امتیازی شان رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے زمانہ نے یہ دن بھی دکھائے کہ آج ہم ہر اعتبار سے محروم ہیں یہ کہانی پھر سہی آج اس پر قلم اٹھایا ہے کہ شاردہ تحریک کیوں چلی۔ جب انڈیا سے گولہ باری ہو رہی تھی تو ادھر معدنیات کی نکاسی کے لئے بلاسٹنگ ہو رہی تھی۔ تو یہ ماجرہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ غیر اعلانیا جنگ میں نیلم کا باسی کہاں جائے۔نہ حکومت کی طرف سے تحفظ و مراعات اور نہ ہی فوج کی طرف سے ہدایات، نہ مورچے تھے نہ ہی خوراک کا انتظام۔ دشمن حکومت کی فوج آگ برسا رہی تھی اور سجن حکومت معدنیات نکال رہی تھی۔ اسی عرصہ میں فوجی یا سول مجاہدین کارگل کا میدان گرم کرتے ہیں تو اس کا بدلہ نیلم میں چکایا جاتا ہے۔ کارگل میں تو چھہ ماہ کا راشن اور جستی چادریں فری تقسیم کی جاتی ہیں جبکہ وہاں حکومت انڈیا کی ہے اور عوام مسلمان اسکے بر عکس یہاں کے عوام انڈین گولہ باری کے رحم و کرم پر اور کبھی کوئی قومی لیڈر دادرسی کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ وزیراعظم آزادکشمیر کو بھی موقع نہ ملا۔ البتہ نوری ٹاپ کے راستے معدینات کی سمگلنگ جاری رہی۔ اس طرح زلزلہ میں ایک ماہ تک پوری ویلی کے لوگ ساری دنیا سے کٹے رہے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بلکہ مزید زخموں پر نمک اسطرح ڈالا گیاکہ نیلم میں زلزلہ ہی نہیں آیا۔جبکہ اس کے اثرات کی وجہ سے آج تک یہ پہاڑیاں اور چوٹیاں بھی سرک رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈی سی نیلم بھی حادثے کا شکار ہو گے بھی زلزلہ کے زخم بھی تازہ تھے کہ سیلاب کی تباہی نے کمر توڑدی جسے ہماری جمع پونجی مکانات ، زمین اور فصلیں تباہ ہوئی۔ یہاں ایک شکوہ ان جی اوز سے بھی کہ چلہانہ سے کام شروع کرتے ہیں تو شاردہ پہنچنے تک سیزن ختم ہو جاتا ہے اور واپس ہو جاتے ہیں بعض تاوبٹ سے شروع کرتے ہیں تو شاردہ پہنچنے تک مدت ختم ہو جاتا ہے۔ یوں شاردہ میں تعمیر و ترقی کا کام نہیں ہو پاتا کئچھ اس طرح اﷲ مغفرت کرے بڑے میاں صاحب اور اب چھوٹے میاں صاحب بھی بڑے میاں صاحب بن گئے ہیں کنڈل شاہی سے کام کو شروع کرتے ہیں کہ دودھنیال نہیں پہنچ پاتے کہ مدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور حاجی گل خندان صاحب مارگلہ سے نیچے آرہے ہوتے ہیں کہ مدت ختم۔ اب انشاء اﷲ ان جی اوز سیزن میں اور عوامی نمائندگان مدت کے اندر ہی کام ختم کریں گے۔ بات ہو رہی تھی سیلاب کی تباہی کی جس نے ویلی کے باسیوں کو رلا کر رکھ دیا۔ جبکہ وقت کے وزیراعظم عتیق احمد خان سے ایک جملہ بھی ویلی کے متاثرین کے لئے نہ نکلا۔ شاردہ میں جب جلوس نکالا گیا کہ پیٹ پر پتھر باندھے گے مگر کالج چاہیے مگر مجاہد اول کے شیر نے تقریبا سارے مظفرآباد کی پولیس ہڑتال روکنے کے لئے بھیج دی لیکن پولیس ناکام رہ گئی اور حلقہ چیئرمین عملدرآمد کمیشن سردار گل خندان بھی عاجز آگئے لیکن اس وقت کالج بھی نہ ملا دوسرے دن حادثہ ہ وگیا۔ شاردہ میں تمام آفیسران دوسرے علاقوں سے بھیجے جاتے ہیں جو کہ ہمہ وقت حاضر نہیں رہتے جبکہ مقامی نوجوان ڈگریاں لے کر پھرتے ہیں۔ لیکن ملازمت نہیں ملتی۔ کیوں کہ نیلم کے باسی ہیں ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جب چوکیدار اور چپراسی بھی باہر سے بھرتی ہو کہ آنے لگے جبکہ کھریگام نالہ میں کاریں ڈوبنے لگیں ٹوریسٹ بچے اور عورتیں بھی چیخنے لگے بسیں اور پیدل بھی کراس کرنا مشکل ہو گیا۔ جب شاردہ پل پر رکاوٹ کھڑی کی گئی کی جیپ نہیں گزر سکتی اندھیرے میں بغیر ٹیلیفون کے سابقہ چیف سیکریٹری بمعہ بیگم صاحبہ رات شاردہ نہ گزار سکیں تو چند ہمدرد احباب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اتنی بے بسی کیوں سارے ادارے مردہ کیوں رہیں۔ نیلم سے معدنیات جڑی بوٹی کے ذخائر جا رہے ہیں لیکن نیلم کے عوام مٰں خوشحالی کیوں نہیں آ رہی ہے۔ تو سوئی ہوئی قوم کو جگانے اور حکومتی اداروں کو دیانتداری سے کام کرنے کے لئے مقامی درددل رکھنے والے معززین کی میٹنگ بلائی گئی ۔ لیکن ناکام رہی، دوبارہ کال دی گئی اور اس طرح باالاخر چوتھی بار چند نوجوانوں نے بھرپور جذبات کا اظہار کیا اور طے ہوا یکم جون کو شاردہ بازار میں شاردہ کانفرنس ہو گی۔اور مستقل شاردہ تحریک کا اعلان کیا گیا۔ یکم جون کو شاردہ کے مسائل و وسائل پر تقریریں ہوئی اور شاردہ کا احتجاج ریکارڈ کریا گیا اور چودہ جون تک مسائل کے حل کے لئے ڈیڈلائن دی گئی۔ اور چودہ جوں کو موسلا دھار بارش کے باوجود بھرپور جلسہ کا انعقاد کیا گیا اور بارش میں لوگوں کی موجودگی کو دیکھ کر انتظامیہ بھی دنگ رہ گئی۔ اگر اس حالت میں ہمیں دشمن بھی دیکھ لیتا یا بھاگ جاتا یا صلح کر لیتا لیکن ہماری بات نہ سنی گئی۔ اور اس طرح ہم نے پندرہ دن کی مذید ڈیڈلائن د ے کر 28جون کی تاریخ مقرر کی گئی۔ حالات کا بہانہ بنا کر ہمیں ہڑتال کی کال واپس لینے کے لئے دباو ڈالا گیا، دھمکیاں بھی دی گئی لیکن ہم تھے کہ جم کر بیٹھ گئے۔تاہم شدید اصرار اور پر خطر حالات کی وجہ سے ہم نے 28مئی کی ہڑتال میں نرمی کرتے ہوئے صرف اڑھائی گھنٹے کی ہڑتال کی گئی اور سب نے دیکھا کہ شاردہ میں پہلا موقع تھا کہ پورا بازار آدمیوں سے بھر گیا بازار بند کیا گیا اگرچہ بعض لوگوں نے رکاوٹیں بھی ڈالیں لیکن بات اب بھی نہ بنی تو مردہ کے لئے سور اسرافیل کی ضرورت تھی تو ہم نے پانج جولائی کو دھرنا ہڑتال تاوقتیکہ حکومت مطمعن نہ کرے ہڑتال جاری رکھنے اور روڈ بند رکھنے کی کال دے دی۔ اس پر بھی پانج جولائی تک کسی نے نہ سنی بلکہ پولیس نے کمیٹی کے زمہ داران کو گرفتار کرنے کئے چھاپے مارنے شروع کئے کمیٹی کے مرکزی قائدین نے روپوشی اختیار کر لی لیکن سیکنڈ دیفنس لائن نے بھر پور کام کیا اور بالاخر صبح کو وہ ہوا جو کہ دنیا نے دیکھا شائد شاردہ میں اتنا بڑا جلسہ نہ ہو سکے۔ بالآخر ہڑتال ختم کروانے کے لئے ڈی سی اور میاں عبدلاوحید کو مجمع میں حاضر ہونا پڑا اور مزاکرات کئے گئے۔ مذاکرات اگرچہ نامکمل رہے کہ میاں صاحب نے کچھ مسائل کیلئے چیف سیکرٹری اور وزیراعظم سے کمیٹی کی نشست کرانے اور مسائل ہائی کمان تک پہنچانے کا وعدہ کیا گیا کئچھ کام کا موقع پر ہی آغاز کرنے کا حکم دیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا ، میاں صاحب اپنی مصروفیات اور نا اہلی کی وجہ سے شاردہ کمیٹی کی میٹنگ ہائی کمان سے نہ کروا سکے یا روائتی شاردہ دشمنی کی وجہ سے انھوں نے مناسب نہ سمجھا، بہر حال شاردہ میں تحریک کو ایک نیا رخ دیتے ہوئے دستخطی مہم کا آغاز کیا گیا اور شاردہ یونین کونسل سے دس ہزار دستخطوں پر مشتمل یاداشت تیار کی جا رہی ہے اس کے علاوہ ارباب اختیار کو تین ہزار خطوط بھجوئے جا رہیں۔ تاکہ شارہ کے عوام کی طرف سے موثر اور مہذب انداز میں مطالبات اور احتجاج کو ریکارڈ پر لیا جا سکے۔ انشاء اﷲ عید کے بعد دعا کر کہ نئے عزم کے ساتھ اٹھیں گے۔ حکومت سے ملکر مسائل حل کریں گے اگر شنوائی نہ ہوئی تو اصلاح کی کوئی دوسری صورت بھی کالی جا سکتی ہے۔ اگر اخلاص کیے ساتھ کام کیا جائے تو مسائل سے زیادہ وسائل ہیں ، آخر میں میں تمام لوگوں ، صحافیوں اور جملہ خیرخواہوں کا شکریا ادا کرنا چاہوں گا جنھوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا پیپلزپارٹی کے مقامی ورکرز کا شکریہ بھی ادا کرتا چلوں جنکا تعاون ہمارے ساتھ تھا اگرچہ کھل کر سامنے نہ آ سکے۔

Ashraf Tubbsum
About the Author: Ashraf Tubbsum Read More Articles by Ashraf Tubbsum: 6 Articles with 5793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.