معاشرتی بے سکونی کا بنیادی سبب ہمارے معاشروں میں مغربی لبرل ازم کا نفاذ ہے

ایک پرسکون معاشرے کے لیے اُس معاشرے میں مرد اور عورت کے کردار کا تعین بہت اہم ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق سے خاندان کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ ادارہ ہوتا ہے جس کے ذریعے معاشرے میں نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ اِس وقت دنیا میں ہر طرف سرمایہ دارانہ نظریہ حیات کا ہی دور دورہ ہے، سرمایہ دارانہ نظریہ حیات مغربی لبرل ازم کی ترویج کرتا ہے جس میں خاندان کے ادارے کو اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے مغرب کے معاشرے اخلاقی بے راہ روی اور کئی طرح کے سوشل مسائل سے دوچار ہورہے ہیں، اِس کے برعکس اسلام کے اندر خاندان کے ادارے کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہی وجہ تھی کہ جب تک اسلامی خلافت قائم رہی ، صدیوں تک خاندان کے ادارے کا تحفظ رہا اور وہ معاشرہ اطمینان اور معاشرتی سکون کی بلندیوں کو چھوتا رہا، جس سے پوری دنیا متاثر تھی۔

تاہم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کے حکمران جدیدیت کے نام پر مغربی اقدار کو ہمارے معاشرے میں داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوراس کا نشانہ خاص طور پر ہمارے نوجوان ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے،ہمارے نوجوانوں اور ہمارے مرد و خواتین کے لیے ان اقدار کا مقصد ان میں شخصی آزادی اور انفرادیت(خود غرضی) کی سوچ کو پروان چڑھانا ہوتا ہے تاکہ وہ ان تصورات کی بنیاد پر مختلف اعمال سرانجام دیں۔ اِس مقصد کے لیے جہاں ایک طرف تعلیمی نظام کو اِس طرح سے رکھا گیا کہ اِن مغربی اقدار کو ہماری نئی نسل اپنانے پر مجبور ہوں بلکہ دوسری طرف استعماری ممالک اِن حکمرانوں کے تعاون سے ایسے ثقافتی پروگرام ترتیب دیتے رہتے ہیں جن کا مقصد ہماری نوجوان نسل کو مغربی کلچر سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ اِس کی ایک مثال امریکہ کا Kennedy-Lugar Youth Exchange and Study (YES) Programہے یہ پروگرامThe US Department of State-Bureau of Cultural Affairs کے فنڈز سے چلایا جاتا ہے۔ اِس پروگرام کا مقصد ہائی سکولوں کے بچوں اور بچیوں کو ایک سال کے لیے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالر شپ دیا جانا ہے جہاں اِن بچوں کو امریکی فیملیز کے ساتھ ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ اِس پروگرام کا بڑا مقصد امریکی کلچر کی گہری انڈرسٹینڈنگ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یوایس ایڈ کی ویب سائٹ کے مطابق 2003سے اب تک ہائی سکول کے 700 طلباو طالبات کو امریکہ بھیجا جاچکا ہے۔ اِسی طرح یوایس ایڈ کے تحت Gender Equity Program بھی منظم کیا جارہا ہے جس کا مقصد پاکستان میں مغربی سوچ کے مطابق عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کرکے اُنہیں برابری کی نام پرانصاف مہیا کرنا ہے۔

چنانچہ مرد اور عورت کے حوالے سے یہ تصورات اپنی بنیادسے مغربی اور ہمارے لیے بالکل اجنبی ہیں۔یہ تصورات مغرب کے مذہب کے حوالے سے تاریخی سوچ اورعیسائی چرچ کے ظلم وستم کے نتیجے میں پیدا ہوئے، جب مغرب نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کرکے اُسے انفرادی زندگی تک محدود کردیا جائے۔ چنانچہ دین اور دنیا کی جدائی پر مبنی سیکولرازم ہی مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر قوانین چار آزادیوں کی بنیاد پر بنتے ہیں، جس میں شخصی آزادی بھی شامل ہے۔یہ تصور مرد و عورت کے تعلقات اور ان کے ذاتی کردار کے حوالے سے بننے والے قوانین پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ سرمایہ داریت میں مرد اور عورت کے تعلقات ان کے جسمانی تعلق تک محدود ہو کررہ گئے ہیں ۔اس کے علاوہ مرد اور عورت کے تعلقات پر انفرادیت یعنی خود غرضی کا تصور غالب ہوگیا ہے۔ جبکہ عورت کو ایک بازاری چیز تصور کرلیا گیا ہے جو اُس وقت تک کارآمد ہے جب تک اُس سے فائدہ حاصل ہوتا رہے، اُس کی نسوانیت قابل احترام نہیں بلکہ برائے فروخت ہوتی ہے۔ چنانچہ تعلق کی یہ بنیاد اُس سے بالکل مختلف ہے جس کی اسلام مرد و عورت کے تعلق کے حوالے سے ترویج کرتا ہے یعنی عزت،تعظیم اور باہمی تعاون۔ مغرب میں مرد اور عورت کے تعلقات اُن کے جسمانی تعلق تک محدود کردینے اور اِن تعلقات میں انفرادیت یعنی خود غرضی کا تصور غالب آنے کی وجہ سے مغرب میں خاندان کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے ۔ معروف ویب سائٹ وکی پیڈیا میں بیان ہے کہ بیسویں صدی میں شرح طلاق میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے اور جن ممالک میں طلاق عام ہوتی جارہی ہے اُن میں امریکہ ، کینڈا، آسٹریلیا، جرمنی، نیوزی لینڈاور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ Single Parent(واحد والدین)کا مسئلہ وسعت پکڑتا جارہا ہے۔The U.S. Census Bureau کے مطابق امریکہ کی 30فیصد خاندان ایسے ہیں جن کی دیکھ بھال Single Parent(یعنی اکیلی ماں یا اکیلے باپ )کے ذمے ہیں۔ 2000ء میں امریکہ میں سنگل پیرنٹ گھرانوں کی تعداد 12ملین سے تجاوز کرچکی تھی۔ اور چونکہ مغربی تصور کے مطابق مرد و عورت کی زندگی کا سب سے اہم مقصد جنسی تسکین سے لطف اندوز ہونا ہے، جس کی وجہ سے مغرب میں مرد اور عورت کا بغیر شادی کے ساتھ رہنا ترویج پکڑتا جارہا ہے جس کا مقصد خاندان بنانے کی صورت میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بھی اُن کی سوشل زندگی میں سنگین نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ معروف ویب سائٹ یاہو نیٹ ورک کے ایک ریسرچر Kristin Ketteringham کے مطابق Single Parentمیں خواتین کی تعداد 80فیصد سے زیادہ ہے اور اُن میں 35فیصد ایسی خواتین اپنے بچے اکیلے پال رہی ہیں جنہوں نے شادی کے بغیر اپنے بوائے فرینڈ سے جسمانی تعلقات قائم کیے اور بچہ ہونے کی صورت میں اُن کے پارٹنر اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے خاندانوں میں پروان چڑھنے والے بچے معاشرے کا مثبت حصہ بننے کی بجائے معاشرے پر بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ Kristin Ketteringhamکی ریسرچ کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ Single Parentکے ہاں پلنے والے نوجوان دوسرے نوجوانوں کی نسبت تین گنا زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ اِسی طرح امریکہ میں Single Parentگھرانے مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں، جن میں 72فیصد ٹین ایج قتل جیسی سرگرمیوں اور 60فیصد ریپ جیسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔

عورتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغرب نے ایک طرف تو عورت کو ماں اور بیوی جیسے باعزت رشتوں سے محروم کردیا ہے اور دوسری طرف اُسے سستی لیبر کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ Single Parentعورتوں کو ہی لے لیجئے۔ جنہیں اپنے اور اپنے بچوں کو پالنے کے لیے نوکریاں کرنا پڑتی ہیں لیکن اُس کے باوجود اِن میں 70فیصد خواتین غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ عام طور پر ایسی عورتوں کو بہت کم تنخواہ پر ملازم رکھا جاتا ہے۔

انہی مغربی اقدار کو ہمارے حکمرانوں نے مسلم معاشروں میں رائج کرنے کی جو مہم شروع کررکھی ہے وہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہے جو اسلامی اقدار اور مرد و عورت کے درمیان خوشگوار تعلقات کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ چونکہ مغربی نقطہ نظر کے مطابق مرد و عورت کی زندگی کا سب سے اہم مقصد جنسی تسکین سے لطف اندوز ہونا ہے ۔اس سلسلے کو مرد و عورت کے آزادانہ میل میلاپ اور گھٹیا ٹی وی پروگراموں،فلموں، اشتہارات ،ماڈلنگ،فیشن میگزینز کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔حکمران ہمارے معاشروں میں مرد و عورت کے آزادانہ میل ملاپ کی اجازت دے کر اور فیشن کے نام پر نیم برہنہ کپڑوں کی پبلک لائف میں عام اجازت کے ذریعے مرد وعورت کے درمیان موجود قدرتی کشش کو کئی گنا بڑھا کر ، ز نا کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔اس سلسلے کو اسکولوں اور کالجوں میں کافی شاپ کلچر،میلوں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ شخصی آزادی نے مغربی معاشرے میں مرد اور عورت کے درمیان باہمی تعاون کے جذبے کو تقریباً ختم ہی کردیا ہے اور انفرادیت یعنی خود غرضی بالاتر ہوگئی ہے اس طرح دو مخالف جنسوں کے مابین تعاون کی جگہ جنگ کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔اس غلط نظریہ نے معاشرے میں عدم استحکام اور افسردگی پیدا کی ہے جس کا شکار مرد،عورت اور بچے سب ہی ہورہے ہیں اور ماں ،باپ،بچوں اوررشتہ داروں پرمشتمل روایتی خاندانی اکائی تباہی کی طرف گامزن ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور جس کی انتہا ہم جنس شادیوں کی اجازت اور ترویج ہے، جسے خاندانی ذمہ داریوں سے راہِ فرار کی بہترین شکل قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لیے خاندان میں مرد اور عورت کے ایک دوسرے کے حوالے سے کردار سے متعلق صحیح نظریے کا وجود انتہائی ضروری ہے۔اس تعلق کے لیے درکار قوانین نہ تو مغرب سے درآمد کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے قوانین موجودہ مسلم معاشروں میں موجود غیر اسلامی روایات سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے حکمران دوسرے دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی مغرب کی محض نقالی ہی کرتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ چونکہ مغرب میں مرد اور عورت کے درمیان تعلق فقط جنسی تسکین کے حصول کو حاصل کرنا رہ گیا ہے چنانچہ مغربی معاشرہ عورتوں ،بچوں اور خاندان کے تحفظ اور مرد و عورت کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی تعلق کو قائم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے، خود غرضی اور انفرادیت پسندی نے اُس معاشرے میں میاں بیوی اور بچوں کے درمیان محبت اور اطمینان کی زندگی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں ان ناکام تصورات کے نفاذ نے،جن کا مسلمان اسلام کو چھوڑ کر غلط تہذیبی روایت کو اپنانے کی بنا پرشکار ہیں ، مسلمانوں کے مسائل مزید پیچیدہ کردیے ہیں۔ بچوں اور والدین کے درمیان،بیویوں اور شوہروں کے درمیان اور بیویوں اور سسرالیوں کے درمیان موجود روایتی مسائل مزید شدت اختیار کرگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت شخصی آزادی کے تصور اور انفرادیت (خود غرضی) کے تصورات سے بھی متاثر ہوگئے ہیں جس نے ان کے درمیان مسائل کو اور بڑھادیا ہے۔اور بالکل مغرب کی مانند ان تمام باتوں کے نتائج شرح طلاق میں اضافے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ اسلام آباد کی مصالحتی کونسل کے رجسٹرز کے مطابق حالیہ چند سالوں میں طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اوربچوں کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ میڈیا انفرادیت(خودغرضی) کی ترویج کرتا ہے اور روایتی اقدار جیسے بڑوں کا ادب کرنا یا اپنے سے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے جیسی باتوں کی ترویج نہیں کرتا ۔

انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت کی فطرت میں مماثلت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالی نے دونوں میں کچھ ایسی خصوصیات پیدا کیں ہیں جو انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں (أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر)’’کیا وہی نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ؟وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘(الملک:14)۔ لہذا ایسے قوانین کا ہونا لازمی ہے جو ان معاملات کو دیکھے جو ان دونوں کے درمیان مشترک ہیں اورایسے قوانین بھی ہونے چاہیے جو ان کے غیر مشترک معاملات کو حل کرسکیں۔ تاہم سرمایہ داریت اس کھلی حقیقت کواہم تسلیم نہیں کرتااور اسی لیے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی نہیں کرتا۔

مغرب میں عورت کے معاشرے میں کردار سے متعلق تصور اس کے عورت ہونے کی بنیاد پرنہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی ظاہری خوبصورتی کی مالک ہے اور معاشرے کی اقتصادی ترقی میں کتنا حصہ ڈالتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عورت فطری طور پر ایک ماں اور بیوی ہے اور اس کے دونوں کردار معاشرے اور خاندان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ان دونوں کرداروں کی ادائیگی کے لیے ذہنی اور جسمانی استعداد ضروری ہے اور عورت کے اس کردار کی ادائیگی کے لیے درکار صلاحیت کو کم تریا فضول نہیں سمجھنا چاہیے۔ عورت کے اس کردار کو کم تر سمجھنا تباہی کا باعث ہے جیسا کہ آج کا مغربی معاشرہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بچوں میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ، بچوں کے ذہنی اور جسمانی صحت کے مسائل ، تعلیم میں ان بچوں کا پیچھے رہ جانا جن کے مائیں پورا دن کام کرتیں ہیں۔ پاکستان میں اب بھی ایک عورت جب ایک ماں اور بیوی کا کردار خوبی سے نبھاتی ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ چیز ہمارے معاشرے میں بہت مضبوط ہے ۔ لیکن اب اس رویے میں تبدیلی محسوس کی جارہی ہے کیونکہ اب عورت کی اہمیت کو صرف اس کی ظاہری خوبصورتی، تعلیم ،نوکری اور اس کے معاشی مستقبل(Career) سے جانچا جا نا شروع ہوچکا ہے اور عورت ہونے کے ناطے اس کے بنیادی کردار کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ اِس کے برعکس عورت کی ظاہری خوبصورتی، تعلیم ،نوکری اور اس کے معاشی مستقبل(Career) کے نام پر ماڈلنگ، اداکاری اور مردوں اور عورتوں کے درمیان آزادانہ میل ملاپ کے ذریعے دولت کے حصول کو زندگی کا مقصد بنایا جارہا ہے اور اِس بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ اِن کاموں سے اخلاقی گراوٹ کس حد تک بڑھتی جارہی ہے اور نتیجتاً معاشرے فساد کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آج کوئی دن خالی نہیں جاتا جب اخبارات میں اجتماعی جنسی زیادتی کی خبریں موجود نہ ہوں۔ حتیٰ کہ مغرب کی مانند اب ہمارے معاشروں میں بھی کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

چونکہ مغرب کے نزدیک عائلی قوانین کی بنیاد شخصی آزادی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مرد اور عورت کے کردار کے حوالے سے یوایس ایڈ کے تحت Gender Equity Program بھی منظم کئے جارہے ہیں جن کا مقصد پاکستان میں مغربی سوچ کے مطابق عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کرکے اُنہیں برابری کی نام پرانصاف مہیا کرنا ہے۔ تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شخصی آزادی کی بنیاد پر معاشرے میں مرد اور عورت کے کردار کا تعین نہیں ہوسکتا کیونکہ مرد اور عورت کی خواہشات اور مرضی ان کے درمیان سچ اور حق کی بنیاد پر کسی تعاون کے معاہدے پر نہیں پہنچاسکتی بلکہ اس کے نتیجے میں اختلافات، ظلم اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ ان کرپٹ اور غیر اخلاقی مغربی افکار کی یلغار کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، جو کرپٹ مقامی روایات کی وجہ سے ہیں اورجن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اس وقت مسائل پیدا ہوتے ہیں جب مرد اور عورت کی خواہشات اور مرضی کواسمبلیوں میں قانون ، روایات اور اقدار کی بنیاد بنادیا جائے۔اس بنیاد کو اللہ سبحانہ وتعالی کی حاکمیت اعلی سے بدلنے کی ضرورت ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں(وَأَنِ احْکُم بَیْْنَہُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَاء ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَن یَفْتِنُوکَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّہُ إِلَیْْکَ )’’اور یہ کہ (آپﷺ)ان کے درمیان اللہ تعالی کے نازل کردہ (احکامات)کے مطابق فیصلہ کریں۔اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالی کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں‘‘(المائدہ:49)۔

چنانچہ عائلی قوانین کے حوالے سے اسلام جو تصورات دیتا ہے اُن کے مطابق مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی بنیادان کی ایک دوسرے کے لیے فطری کشش نہیں ہوگی بلکہ ان کا یہ نظریہ ہو گا کہ وہ دونوں انسان ہیں ۔اسلام عورت کو عزت و احترام کا مقام دیتا ہے جسے دستور وآئین کی زبان میںیوں بیان کیا جاسکتاہے کہ ’’عورت کا بنیادی کردار ایک ماں اور گھر کی دیکھ بھال کرنے والی کا ہے اور وہ ایسی عزت و آبروہے جس کی حفاظت فرض ہے‘‘ ۔اس حوالے سے دوسری شق یوں ہونی چاہیے کہ ’’مرد اور عورت دونوں کو ایسے کسی بھی کام سے روکا جائے گاجو اخلاقی لحاظ سے خطرناک ہویا معاشرے میں فساد کا باعث ہو‘‘۔
اور جہاں تک مرد اور عورت کی ایک دوسرے میں موجود فطری کشش اور ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت کا تعلق ہے تو اسلام میں اِس مسئلے کو نکاح کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔نکاح لوگوں کو زنا کے گناہ اور جرم سے محفوظ کردیتا ہے اور اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ جوان ہوتے ہی نکاح کرلیا جائے۔ زنا معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا ہے اور مرد،عورت اور بچوں پر ظلم کا باعث ہے۔ زنا کے ذریعے قائم تعلق مرد اور عورت دونوں پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں کرتا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اپنی ولدیت بھی نہیں جانتے ۔پرسکون ازدواجی زندگی کے آئینی تحفظ کے لیے اِس شق کا ہونا ضروری ہے کہ’’ازدواجی زندگی اطمینان کی زندگی ہو تی ہے،میاں بیوی کا رہن سہن(میل جول) ساتھیوں (دوستوں) کا ہو تا ہے۔مرد کی بالادستی دیکھ بھا ل کے لحاظ سے ہو تی ہے حکم چلانے کے لیے نہیں ۔عورت پر اطاعت فرض ہے جبکہ مرد پر اس کے لیے رواج(عرف)کے مطابق نفقہ‘‘۔اسلام میں میاں اور بیوی ایک قانونی معاہدے کے تحت جڑتے ہیں جس میں دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق اور فرائض ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد ان کی خواہشات اور مرضی نہیں بلکہ اسلام ہوتا ہے۔ مرد اور عورت کا تقوی ان قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو عدالتی نظام اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے۔ میاں اور بیوی ایک دوسرے کا خیال اور عزت رکھ کر اس تعلق کو پروان چڑھاتے ہیں اور اس کومزید مضبوط ان مندوبات کو اختیار کر کے کرتے ہیں جیسا کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لیے خوبصورتی کو اختیار کرنا مندوب عمل ہے اِسی طرح ایک دوسرے سے نرمی کا سلوک روا رکھنا بھی مندوب عمل ہے۔

چونکہ اسلام دین فطرت ہے اِس لیے دوسرے قوانین کی طرح مرد اور عورت کے کردار کا تعین ان کی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالی نے متعین کردیا ہے جیسا کہ کسی بھی ادارے کے استحکام اور اس کے روزمرہ کے امور کو بغیر کسی روکاٹ کے چلانے کے لیے اس ادارے میں موجود لوگوں کے کردار کا تعین ضروری ہے لہذا خاندان کے ادارے کو چلانے کے لیے بھی میاں بیوی کے کردار کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی کے کردار کو واضح کرنے کے لیے یہ شق اسلامی دستور کا حصہ ہونی چاہیے کہ’’گھر کے کا م کاج میں میاں بیوی مکمل تعاون کریں گے۔گھر سے با ہر کے تمام کاموں کو انجام دینا شوہر کی ذمہ داری ہے جبکہ گھر کے اندر کے تمام کام حسب استطاعت بیوی کے ذمہ ہیں۔جو گھریلو کا م وہ نہیں کر سکتی اس کے لیے خادم مہیا کر نا شوہر کی ذمہ داری ہے‘‘۔یہ کردار اسلام نے متعین کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو مندوب قرار دیا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لہذا مرد کے لیے ا س بات میں اجر ہے اگر اس کی بیوی بیمار ہے یا کسی اور کام میں مصروف ہے تو وہ گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں اپنی بیوی کی مدد کرے۔ اسی طرح سے عورت کے لیے بھی اجر ہے اگر اس کا شوہر بیمار ہے یا کسی اور کام میں مصروف ہے تووہ سودا سلف کی خریداری کے لیے جائے۔ لیکن باہمی تعاون اور عزت اس وقت قائم ہوتی ہے جب مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور جب کوئی اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کرے تو اس کی تعریف کریں۔ جوں مغرب کے برعکس اسلام عورت کو فقط دولت حاصل کرنے کے لیے سستی لیبر بنانے کا ذریعہ نہیں بناتا بلکہ عورت پر ایک ایسی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ نئی آنے والی نسل کو مثبت انداز میں پڑوان چڑھائے۔

تاہم یہ ذہن نشین رکھنا بھی ضروری ہے کہ اسلامی ریاست عورت کو نہ توصرف گھر تک محدود کرتی ہے اور نہ ہی ماں اور بیوی کے کردار کے علاوہ کوئی اور کردارادا کرنے سے روکتی ہے۔ عورت بھی معاشرے کی ایک مکمل رکن ہوتی ہے اور اس کے معاملات میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کو شریعت کے قوانین کے اندر رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے،نوکری کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں۔ چنانچہ دستور کے اندر یہ بیان ہونا چاہیے کہ’’عورت کو بھی وہی حقوق دیے گئے ہیں جو مردوں کو دیے گئے ہیں اوراس کے بھی وہی فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو مردوں کی ہیں تاہم اسلام نے کچھ احکامات خصوصی طور پر عورتوں کے ساتھ مخصوص کیے ہیں یاشرعی دلائل کے مطابق مردوں کے ساتھ خاص کیے ہیں۔عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تجارت کرے،زراعت یا صنعت سے وابستہ ہو جائے،معاہدات اور معاملات کو نبھائے ، ہر قسم کی املاک کی مالکن بنے،خود یا کسی کے ذریعے اپنے اموال کو بڑھا ئے اورخود براہ راست زندگی کے تمام امور کو انجام دے سکے‘‘۔اِسی طرح یہ شق بھی ضروری ہے کہ ’’عورت کو ریاست میں ملازم مقرر کرنا جائز ہے،قاضی مظالم کے علاوہ قضاء کے دوسرے مناصب پر فائز ہو سکتی ہے۔وہ مجلس امت کے اراکین کو منتخب کر سکتی ہے اورخود بھی اس کا رکن بن سکتی ہے ۔ خلیفہ کے انتخابات میں شریک ہو سکتی ہے اور خلیفہ کی بیعت کر سکتی ہے‘‘۔ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین امت کے امور کی نگہبانی میں انتہائی متحرک تھیں اور ان کے کردار پر بندش اس وقت عائد کی گئی جب خلافت کا خاتمہ ہوا اور سیکولر قومی ریاستوں کو قائم کیا گیا جن پر ظالم لوگ حکمران بنا دیے گئے چاہے وہ جمہوری تھے یا آمر یا بادشاہ۔

چنانچہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی خلافت مرد اور عورت کے معاشرے میں کردار کو جس طرح متعین کرے گی اُنہیں اِن تین نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ مرد اور عورت کے درمیان تعلق کے قیام کو واپس تقوی اور عزت کی صحیح بنیادوں پر لوٹایا جا ئے گا۔ اس کا مقصد انسانی نسب کا تحفظ اور اس بات کا ادراک پیدا کرنا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات اور زمین پر اللہ سبحانہ و تعالی کا غلام ہے۔یہ اس مغربی تصور سے الٹ ہے جس میں جسمانی کشش کی غلط بنیاد کو مرد اور عورت کے تعلق کی بنیاد بنا دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں دونوں جنسوں کے درمیان تعاون کے فروغ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔
2۔ اسلام کا معاشی ،عدالتی نظام اور تعلیمی اور میڈیا پالیسی ،عورت کو اس کی بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی میں بھر پور معاونت فراہم کرے گی اور اس کو اس کے موجودہ بوجھ سے نجات دلائے گا۔
3۔ موجودہ معاشرے میں موجود کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں مرد اور عورت اپنی بنیادی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرسکیں گے اور معاشرہ بھی انھیں اس کردار کی ادائیگی میں معاونت فراہم کرے گا اور انھیں موجود بھاری ذمہ داریوں سے نجات دلائے گا۔

saleem sethi
About the Author: saleem sethi Read More Articles by saleem sethi: 7 Articles with 6017 views Lahore Based Journalist.. View More