ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

پیارے دوستو ! میرا نام جمپو ہے۔ میں فارسٹ گرامر سکول فا رسٹ لینڈ کا طالب علم ہوں ۔آج کل ہمارے امتحانات ہو رہے ہیں ۔اتوار کی چھٹی کی وجہ سے میں جھاڑیوں میں دبک کر اپنی لسننگ پاور بڑھانے کی اایکسر سائز کر رہا تھا ۔آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے اضطراب کے دور میں بے چینی کی بڑی وجہ دوسروں کی بات توجہ سے نہ سننا ہے۔میں اپنے کانوں کو کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائز گھما کرسو تک گنتی گن رہا تھا،جس کے بعد میں نے اپنے دوست کچھوے کے ساتھ کمپیوٹر کلاسز کے لئے جانا تھا ۔اب آپ حیران ہوں گے کہ ہم نے تو کچھوے اور خرگوش کی دشمنی کی داستانیں پڑھی ہیں ۔یہ اچانک کیا ہو گیا ؟
حیران نہ ہوں ! میں آپ کو بتاتا ہوں ! دراصل کمپیوٹر ایج کی وجہ سے ہمارا رابطہ فیس بک پر ہو گیا تھا ۔ہم نے ایک دوسرے کو اپنے سگڑ دادوں کی کہانیاں سنائیں ۔مجھے علم تھا کہ میرے بزرگوں نے کچھوے کے جد امجد سے شکست کھائی تھی۔اس سے پہلے ہم اپنی صبا رفتاری پر ناز کرتے تھے۔لیکن میرے ابو علامہ اقبال کا یہ شعر گنگناتے رہتے تھے
تھے تو آباء وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!

جب میں نے ہوش سنبھالا تو ان سے اس شعرکے گنگنانے کی وجہ پوچھی ۔انہوں نے غمزدہ لہجے میں کچھووں کی جیت کے متعلق بتایا کہ کس طرح بدلے کی آگ ان کے سینے میں جل رہی تھی۔تو جناب فیس بک پر مسٹر پوستی سے رابطہ ہوا ۔ اور پرانے زخم پھر ہرے ہو گئے۔کیوں کہ کچھوے نے غرور میں آکر میرے آباؤ اجداد کی شان میں گستاخی کی۔میں نے ابو سے پرانی دوڑ کی شکست میں وجوہا ت پر تبادلہ خیال کیا تو پتہ چلا کہ حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی ،سستی،اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ شرمناک واقعہ پیش آیا۔اس سے یہ پتہ چلا کہ ہم طالب علموں کو حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی ،سستی،اور لاپرواہی سے بچ کر اپنی تعلیمی منزل کے لئے ٹریک طے کرنا چاہئے۔اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو امی ابو سے لازمی ڈسکس کرنا چاہئے ۔

میں نے اﷲ پر بھروسہ کرکے ایک بار پھر تاریخ دہرانے کا فیصلہ کرلیا۔اﷲ سے دعا مانگی ۔اور کچھوے کو فارسٹ میراتھن کی چیلنج کردیا ۔دریائے سندھ کے ساتھ سا تھ کا ٹریک طے پایا۔غیر جانبدار ججوں کی ٹیم بنائی گئی۔جس میں مسٹر گھوڑا اور مسٹر چیتا جیسے نامی گرامی اتھلیٹس کے ناموں سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔میری کزن گلہری نے مجھے مقابلے کے لئے کوچنگ کی ۔سٹیمنا بڑھانے اورٹریک پربھاگنے کے گر بتائے۔ہرن ،نیولا،ہج ہاگ اورگرگٹ میری حوصلہ افزائی کررہے تھے ۔دوسری طرف مگر مچھ ،چھپکلی،سانپ، اورکرلا میری مخالفت میں مسٹر پوستی کی حمائت کررہے تھے۔مقابلے سے پہلے میں نے بھی خوب گاجریں کھائیں ۔فارسٹ سپورٹس لیبارٹری میں میرا اور کچھوے کا ڈوپ ٹسٹ لیا گیا
۔ فارسٹ لینڈ کا میڈیا اس تاریخی مقابلے کو بھر پور کوریج دے رہا تھا۔میرے اور کچھوے کی اس ریس کے ہر ٹاک شو میں تجزیے پیش کئے جا رہے تھے۔فارسٹ کولا کمپنی نے اس مقابلے کو سپانسر کیا تھا۔پوری دنیا سے شائقین فارسٹ لینڈ پہنچ رہے تھے۔پھر مقابلے کی گھڑی بھی آہی گئی۔مجھے پتہ تھا کہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مجھے اپنی برتری ثابت کرنی پڑے گی۔غرض ہر طرف اسی اہم مقابلے کی باتیں ہو رہی تھیں۔تالیوں کی گونج میں مقابلہ شروع ہوا ،میں نے جمپ لگا کر سبقت حاصل کر لی ۔پوستی کچھوا سمجھ رہا تھا کہ میں ماضی کو دہراتے ہوئے راستے میں سو جاؤں گا ۔لیکن میں منزل کو پانے کے لئے بے تاب تھا۔عقاب اور چیل فضا سے اس مقابلے کی لائیو کوریج کر رہے تھے۔اور پھر میرے خون پسینے کی محنت رنگ لائی۔فارسٹ لینڈ کے بادشاہ عزت مآب ببر شیر نے ٹرافی میرے پنجوں میں تھمائی ۔میری آنکھوں میں شکرانے کے آنسو آگئے ۔میری دادی اماں نے آگے بڑھ کر مجھے چوم لیا۔ابونے مجھے گلے لگا کر مبارک باد دی ۔

دوسری طرف مسٹر پوستی بھی تو کمپیوٹر ایج کا کچھوا تھا! اس نے بظاہر تو مجھے کھلے دل کے ساتھ تاریخی کامیابی کی مبارکباد کا گریٹنگ کارڈ ای میل کیا۔لیکن دل ہی دل میں اپنی شکست کا تجزیہ کرتا رہا۔(یہ باتیں مجھے کچھوے نے بعد میں بتائیں ) اس نے مجھے ایک بار پھر دوستانہ ریس کی دعوت دی ۔اپنی ای میل میں اس نے لکھا تھا کہ اس مرتبہ ریس کا روٹ ذرا مختلف ہو گا ! مجھے یہ چھوٹی سی بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔لیکن میں نے یہ مقابلہ بھی قبول کر لیا۔ابو کو بھی دال میں کالا کالا لگ رہا تھا مگر فرار کا راستہ نہیں تھا۔اس مرتبہ کنیڈا ، آسٹریلیاور امریکہ سے بھی میری حوصلہ افزائی کی گئی تھی ۔ حسب معمول روائتی انتظامات کے ساتھ ریس شروع ہوئی ۔میں نے مسلسل اور انتھک جدو جہد کے مقولے کے تحت سبقت لے لی۔جان توڑ دوڑ کے بعد آگے پہنچا تو دیکھا کہ دریائے سندھ سامنے ہے اور کوئی پل بھی نہیں ہے۔میری منزل دریا کے اس پار چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ شائد کوئی پل نظر آجائے۔دیکھا تو قریب ہی ایک افتتاحی تختی لگی تھی کہ فارسٹ لینڈ کے پرائم منسٹر نے یہاں پل کا افتتاح کردیا ہے ۔جلد تعمیر شروع کی جائے گی۔میں مایوس ہو کر بیٹھ گیا ۔اچانک دائیں طرف نظر پڑی تو علاقے کے مشہور صوفی بزرگ کا مزار نظر آیا۔میں عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا۔دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھی اور مشکلات کے خاتمے کے لئے دعا مانگی۔میری نظر سامنے لکھی ہوئی آئت پر پڑی ،سستی مت کرو غم نہ کرو میں اپنے عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو(آل عمران۔۱۳۹) ۔اس سے میں نے اپنے اندر عجیب جذبہ محسوس کیا کہ جو کچھ بھی ہو گا اﷲ کی طرف سے میرے لئے اچھا ہی ہو گا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد کچھوا نمودار ہوا۔اورمیری طرف طنزیہ نظر ڈال کر دریا میں تیرتا ہوا منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔مجھے اپنے موبائل سے ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز موصول ہورہی تھیں۔اس کے باوجود میرا دل مطمئن تھا کہ اﷲ صبر کرنے والوں کے لئے عجیب دروازے کھولتا ہے۔

اب میں نے کچھوے کو مبارک باد دی۔اور شاندار ڈنر پر بلایا۔جس میں سی فوڈ کے علاوہ چین اور دریائے ایمیزون کے مشہور کھانے بھی پیش کئے گئے تھے۔کچھوا بھی میرے لئے ڈیرہ اسماعیل خان کا سوہن حلوہ ،چارسدے کے خامتے کا سوٹ ،صادق آبادکی برفی۔حیدر آباد کی ربڑی اورگھوٹکی کے پیڑے لایا۔اس کی محبت دیکھ کر میرا دل بھی پگھل گیا۔پھر ہمارے دلوں میں ایک زبردست آئیڈیا آیا۔کہ کیوں نہ ہم ایک ٹیم بن کر ایک آخری ریس لگائیں ۔دنیا بھر کا میڈیا اس اچھوتے خیال پر حیران تھا۔۵ مئی کا ورلڈ ایتھلیٹکس ڈے اس مقصد کے لئے منتخب کیا گیا۔

اس ریس میں دریا تک میں نے کچھوے کو اٹھایا ۔اور دریا پار کرنے میں کچھوے نے مجھے اپنی سواری مہیا کی۔دریا کے پار میں نے اسے اٹھا کر آخری نشان تک پہنچایا ۔اس طرح ہم نے ٹیم ورک کی اعلیٰ مثال قائم کی۔کیوں کہ ہم دونوں جیت گئے تھے۔اگر ہم اپنی خوبیوں کو دوسروں کے لئے اور دوسروں کی صلاحیتوں کو مشترک منزل کے حصول کے لئے صرف کریں توساری دنیا جنت بن جائے گی۔میرے ابو نے میری آپ بیتی پڑھی تو مجھے ایک حکائت سنائی ۔کہ جہنم اور جنت میں چند لوگوں کو سیر کرائی گئی۔انہوں نے دیکھا کہ دونوں جگہوں میں لوگوں کے بازوٗوں کے جوڑ نہیں ہیں ۔جہنم میں ہر کوئی انفرادی طور پر کھانا کھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور جنت میں لوگ ایک دوسرے کے منہ میں ڈال کر خوشی خوشی کھانا کھا اور کھلا رہے تھے۔کیوں نہ ہم سب بھی اس دھرتی کوجنت بنالیں!
Barkatullah Awan
About the Author: Barkatullah Awan Read More Articles by Barkatullah Awan: 5 Articles with 9856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.