انسانیت کے قاتلوں کی سزا کا تعین کون کریگا؟

26تاریخ کا سورج نکلنے سے قبل صبح پونے پانچ بجے میری ننھی پانچ سالہ معصوم بیٹی نے بتایا کہ ابومجھے بائیں ہاتھ کی انگلی پر درد ہے میں نے انگلی دیکھی تو اس پر سویلنگ تھی چند لمحوں کے بعد بیٹی نے اچانک کہا ابو میری آنکھیں نہیں کھل رہی اپنے ہاتھوں سے میری آنکھیں کھولیں ننے منے معصوم سے چہرے پر موجودبے بسی ،اداسی اور بے چینی نے میرے دل پر جاہاتھ ڈالا۔تھتلی زبان سے نکلنے والے آخری الفاظ میری ساری زندگی کیلئے یادوں کا مرکز رہیں گے اپنی طرف سے بھرپور اور فوری جدوجہد کے بعد پانچ سالہ بیٹی کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال پہنچایا اور جاتے ہی متعلقہ ڈاکٹر کوبتایا کہ بیٹی کو کسی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہے روایتی سست روی کا شکار ہمارے ہسپتال کا نظام کیا پتہ تھا میری معصوم بیٹی کی جان بھی لے لے گا لیبارٹری سے جا کر خون کے ٹیسٹ کروائے تو ٹیسٹ رپورٹ 15منٹ بعد آئی جس میں حیران کن بات یہ تھی کہ رپورٹ میں خون کے اندر یا جسم کے اندر زہر نہیں تھا جبکہ بیٹی کے جسم کی حالت تیزی کے ساتھ بگڑ رہی تھی حالانکہ سانپ کے ڈسے مریض کی جان بچانے کیلئے ایک ایک سکینڈ انتہائی قیمتی ہوتاہے کیونکہ مریض کے جسم کے اندر زہرخون کے ذریعے دل ، دماغ پر برق فتاری کے ساتھ اثر جما رہا ہوتا ہے انسان کو خون فریز ہو رہا ہوتا ہے سانس بند ہو رہی ہوتی ہے اس موقع پر ڈاکٹر کی ایک لمحے کی غفلت انسان کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے یعنی لیباری رپورٹ بھی جعلی اور فرضی طریقے سے مرتب کی گئی جس سے لیبارٹری میں موجود اہلکار کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی سامنے آتی ہے لیبارٹری رپورٹ کو مرتب کرنے والے اہلکار کے اس مجرمانہ فعل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دن کو کتنے مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ ٹھیک ہوتے ہونگے اس سے ایک وجہ سامنے آرہی ہے کہ شاید ہسپتال میں موجود بعض ڈاکٹروں کی ہسپتال سے باہر پرائیویٹ لیبارٹریاں موجود ہیں یا پھر ان لیبارٹریوں پر ڈاکٹروں کی کمیشن لگی ہوئی ہے جہاں پر مریض مجبوراً سرکاری ہسپتال کی لیبارٹری رپورٹ کے باوجود ہسپتال کے باہر موجود پرائیوٹ لیبارٹریوں سے ہزاروں روپے فیس دیکر خون ٹیسٹ کرواتے ہیں پتا چلا چند ٹکوں کی خاطر انسانیت کے قاتلوں کے روپ میں لمبی داڑھی والا ہی دہشت گردی نہیں ہو سکتا بلکہ خون ٹیسٹ رپورٹ مرتب کرنے والا کسی سرکاری ہسپتال میں لیبارٹری کا کوئی اہلکار بھی ہو سکتا ہے عام انسانوں کیلئے مسیحا کے روپ میں کسی ہسپتال کے بیٹھا کوئی ڈاکٹر بھی ہو سکتا ہے جس کی نظر انسانی پلس پر نہیں بلکہ اس کی جیب میں موجود پرس پر ہوتی ہے بحرحال مجھے مطمئن کرنے کیلئے متعلقہ عملے نے اپنی جگہ پر بہت کام کیا اور ٹھیک40منٹ بعد میری پانچ سالہ معصوم اور بے قصور، بے بس اورلاچار ا بیٹی کے جسم میں زہر پھیلنے کی وجہ سے خون فریز ہو گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سانس رک گئی چھوٹے چھوٹے گلابی ہونٹ زہر کی وجہ سے نیلے ہو گئے خوبصورت اور لمبی لمبی آنکھیں جو چند لمحے قبل میر ی طرف بے بسی کے حالت میں دیکھ رہی تھیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گئی چھوٹے چھوٹے اور ننے ننے وہ ہاتھ جن سے میری بیٹی میرے سر کے بالوں سے کھیلتی تھی وہ ہاتھ خاموشی کیساتھ میرے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سو گئے تھے ننھے ننھے خوبصورت وہ پاؤں جس وقت میں گھر داخل ہوتا تھا پر چل کر یک دم میری بیٹی میرے پاس آکر میرا ہاتھ پکڑ لیتی اور مجھے پیار کرتی وہ پاؤں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روک گئے تھے وہ ننھی منی مگر میٹھی زبان سے جب بولتی تو پھول جھڑتے، کانوں میں رس گھولتی اور پھول بھی ایسے جن کی مہک میرے پورے گھر کے آنگن کو خوشبودار بنا دیتی ابو آگے ابو آگے وہ زبان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گئی تھی،بے بسی کی حالت اور اس کے ساتھ ہونے والے واقعے نے میرے دل و دماغ پر قیامت برپاکر دی تھی لیکن اس کے باوجود اپنے چہرے سے اپنے غم کو ظاہر نہیں ہونے دیا اس سارے واقعے کو اﷲ کی طرف سے آزمائش اورحکم سمجھ کر قبول کرلیا اتوار والے دن میرے علم میں یہ بات آئی کہ اسلام گڑھ کی کسی خاتون کو بھی سانب نے کاٹ لیا ہے لیکن ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی یہ اطلاع ملنے کے بعد اچانک ایسے جھٹکا لگا جیسے میرے دل پرکسی نے باہر کونکال لیا ہو اوریہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر اس عورت کیلئے ہسپتال میں انیٹی ویکسین نہیں تھی تو میری بیٹی کو میرے سامنے جو ٹیکہ لگا یا گیا تھا وہ کیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں تو ویکسین موجود ہی نہیں ۔۔۔۔اﷲ اکبر ۔۔۔سانپ کا ڈسا جو بھی ہسپتال آئے گا اس کو بچانے کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال جس کو حکومت آزاد کشمیر نے ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہسپتال کا درجہ دیا ہوا ہے اور اس ڈویژنل ہیڈ کواٹر ہسپتال کے اندر انٹی سنیک ویکسین موجود نہیں۔ہسپتال کے اندر انٹی سنیک ویکسین کا موجود نہ ہونا صریحاًمجرمانہ غفلت ہے اس غفلت کے مرتکب وزیر صحت ہیں یا DGہیلتھ۔۔۔۔ اس بات کا تعین کرنا یقینا وزیر اعظم آزاد کشمیر کی بنیادی ذمہ داری ہے وہ میرپور شہر جو پورے آزاد کشمیر کے اضلاع میں ٹیکس دینے والوں میں پہلے نمبر پر ہے اور ٹیکس بھی لاکھوں میں نہیں اربوں روپے میں ہے ہر حکومت کے وزیر سے لیکر وزیر اعظم تک اور چپڑاسی سے لیکر چیف سیکرٹری تک ہر کسی کی نظر بھی میرپور کے لوگوں کی جیبوں پر ہوتی ہے ہر سینئر بیوروکریٹ ، اسمبلی ممبریاوزیر ہر کوئی میرپور میں رہائش اختیار کرنے کاخواں ہے اوردوسری طرف المیے کی بات دیکھئے چند ہزار روپے کی ویکسین ہسپتال میں موجود نہیں دیکھئے میری جگہ پر اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر اپنے آپ کو کھڑا کر لیں ان کے ساتھ اگر یہ واقع پیش آتا تو اس وقت تک وزیر صحت اپنی وزارت پر قائم رہتا،یاDGہیلتھ اس وقت تک معطل ہو کر سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتایا وہ عملہ جس کی غفلت کے باعث میری بیٹی کی ہلاکت واقع ہوئی وہ گرفتار نہ ہوتے اس وقت تک پورے آزاد کشمیر کے اندر طوفان برپا نہ ہو چکا ہوتا ،درحقیقت میں اگر یہ واقع وزیر اعظم یا وزیر کے ساتھ پیش آیا ہوا ہوتا توپورے آزاد کشمیر کے اندریقینا طوفان برپا ہوچکا ہوتا اور کہیں گرفتاریاں ہو چکی ہوتی لیکن چونکہ ایک عام شہری اور حکومت کے کسی وزیر اعظم یا وزیرمیں فرق تو ہوتا ہے وزیر سے لیکر وزیر اعظم تک سب جانتے ہیں کہ ان کا ان کے بچوں سمیت ہر کسی بیماری کا علاج آزاد کشمیر کے کسی سرکاری ہسپتال میں نہیں ہو گا بلکہ آزاد کشمیر حکومت کے خرچے پر چاہے وہ اخراجات لاکھوں میں ہوں یا کروڑوں میں ان کا علاج امریکہ یا برطانیہ کے کسی بڑے ہسپتال میں ہوتا اسی لیئے عام شہری اور خاص شہری کے فرق ہے لیکن وزیر سے لیکر وزیر اعظم تک ہر حکمران مسلمان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اﷲ تعالٰی نے جنازے کا طریقہ کا ر کفن کا طریقہ کار اور قبر میں اتارنے کا طریقہ کا ر سب کو یکساں رکھنا ہو گا ا س کی ذات کے سامنے بھیکاری اور بادشاہ دونوں برابر ہیں اس کے سامنے خاص وہ ہے جو دنیا میں اس کا ذکر کرتا رہا اور حقوق العباد کا خیال رکھتا رہا ہم کوبحیثیت حکمران شاہ ایران کی مثال اپنے سامنے رکھنا ہو گی یقینا ایک عدالت وہ ہے جو ہر فیصلہ میرٹ اور اصولوں پر کرتی ہے اور اس عدالت کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے اس کے فیصلہ کیخلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہوتی اوروہ فیصلہ خدائی عدالت کاہے یقینا کسی معصوم ،بے قصور اور بے بس شہری کی بلا وجہ ہلاکت کا باعث بننے والے اسباب کا جواب وقت کے بادشاہ یا وزیر اعظم کو دینا ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کو اس واقعہ کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے ابتدائی مراحل میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں سنیک سینٹر قائم کرکے ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا اور میری معصوم بیٹی سمیت اسلام گڑھ کی خاتون کی ہلاکت کا باعث بننے والے اسباب اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب اہلکاران و ملازمین کیخلاف کاروائی کرنا ہو گی پھر جا کر اس معصوم بچی کے معاملے میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید روز محشر والے دن سرخرو ہونگے بصورت دیگر میرا ہاتھ ہو گا اور ان کا گریبان ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
Mumtaz Ali Khaksar
About the Author: Mumtaz Ali Khaksar Read More Articles by Mumtaz Ali Khaksar: 49 Articles with 34401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.