ہمارا تصور اور فلسفہ عبادت

گلگت بلتستان میں غالباً1117ء کے قریب اسلام کی شروعات ہوئیں ہیں گو کہ پورے ملک میں جہاں کہیں پر بھی نظر دوڑائیں تو اولیائے کرام کی انتھک محنت اورتبلیغ سے ہی اسلام پھیلا ہے۔آج بھی ان کی زیارات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان بندگان خدا کی جدوجہد سے ہی اسلام پھیلا ہے۔ اس خطے میں بھی نہ کسی مفتی نہ شیخ نے اسلام پھیلایا ہے بلکہ اولیائے کرام ہی کی مرہون منت یہاں پر بھی اسلام پھیلا ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں بزرگان کے مزاروں کی حفاظت ، ان کے اقوال اور ان کی طرز تبلیغ کو اپنا شعار بنانا چاہئے۔جبکہ اسلام اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اور یہ محض ایک دور تک نہیں بلکہ قیامت تک اس میں جدت بھی ہے اور حکمت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔جیسا کہ کلام پاک پر جتنا غور کیا جائے گا اتنا ہی یہ کھلتا جائے گا جس میں جتنا ظرف ہوگا اتنا ہی یہ انسان کے اندر سما جاتا ہے۔ہم جس موضوع پر بات کر رہے ہیں وہ ہے ’’ ہمار تصور اور فلسفہ عبادت‘‘ موجودہ دور میں جہاں ہم جی رہے ہیں اور عبادات کے حوالے سے جس طرح کا تصور ہمارے اندر پایا جاتا ہے اس کو ہم سب نہ محسوس کرتے ہیں بلکہ اس تصور کے ہم مقید ہوچکے ہیں۔یہاں چند مثالیں پیش کرکے ہم عبادات کے حوالے سے اپنا خیال منظر عام پر لانے کی کوشش کریں گے۔ ایک دوکاندار ہے اور وہ انتہائی مہنگا فروش اور اپنے بیکار مال کو بھی قسمیں کھا کھا کر فروخت کرتا ہے حرام حلال میں کوئی تمیز نہیں رکھتا ہے،مگر جب آذان ہوجاتی ہے تو ایک دم سے دکان بند کرکے مسجد کی جانب بھاگتا نظر آتا ہے ،اور پہلے صف میں ہی اپنے لئے جگہ بنالیاتا ہے پھر وہ نماز ادا کرکے واپس اپنے کاروبار میں لگ جاتا ہے ۔اُس کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ آپ نے نماز پڑھ لی سب کچھ معاف ہوگا۔ اسی طرح ایک آفیسر جو رشوت کھلے عام لیتا ہے غریب سائلوں کو تنگ کرتا ہے اہل ثروت اور سفارشی حضرات کی خاطر داری کرتا ہے۔جب نماز کا وقت ہو تو بھاگتے ہوئے صف اول کی زینت بنتے ہوئے نماز ُ پڑھ کر واپس اپنے معاملات میں لگا رہتا ہے۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے ایسے حضرات جو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بہت سے لوگوں کی حق تلفی کرکے دولت مند ہوئے ہیں اور وہ حضرات ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین حج کرکے الحاج کے طور پر معاشرے میں پہچانے جاتے ہیں انہیں اس بات کی فکرنہیں کہ آیا اس نے جو مال خرچ کر کے خانہ خدا میں حاضری دی ہے وہ مال حق حلال کا بھی ہے کہ نہیں۔ بس اس نے تو یہ سنا ہے کہ حج کرنے کے بعد انسان اتنا پاک صاف ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی متولد ہوا ہے۔جبکہ رمضان میں دیکھو تو ہر شئے کی قیمت دگنی اور انتائی بے کار اشیاء کو بھی رمضان ہی کے مبارک مہینے میں مارکیٹ میں نکالا جاتا ہے بس روزہ رکھا سب جائز، سب کچھ معاف؟ہمارے سیاستدانوں کو دیکھو تو کبھی حج کرنے تو کبھی عمرہ کرنے نکلتے ہیں مگر غریب عوام کے ساتھ ان کا سلوک کتنا سفاکانہ ہوتا ہے۔ نہ ہم صحیح طریقے سے اپنے مال کا زکاۃ اد اکرتے ہیں نہ ہم غریبوں کا حق ادا کرتے ہیں۔اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بہت سے ٹھیکہ دار حضرات کام کو ادھورا چھوڑکر اپنے اثر رسوخ یا رشوت کے ذریعے پورا پورا پیسہ ہضم کر جاتے ہیں۔ سرکاری کام کو دو نمبر نہیں بلکہ چھ نمبر پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ بہت سے سرکاری عمارات، دیواریں وغیرہ سال کے اندر اندر خستہ حالی کا شکار ہوجاتی ہیں۔اسی طرح جب وہ مال داروں کی صف میں شمار ہوجاتے ہیں تو وہ معاشرے کے اشرافیہ طبقے میں شامل ہوجاتے ہیں۔اور ان کے محل نما گھروں میں اعلیٰ آفیسران، سیاستدان، علماء سب مدعو ہوجاتے ہیں پر تکلف دعوتیں دی جاتی ہیں۔ہر محفل کی زینت بنتے ہیں۔بس ہمارا یہ تصور رہا ہے کہ ہم مسجد جاکر نماز پڑھ کر، تراویح پڑھ کر، مجلس پڑھ کر، حج ادا کرکے سب کچھ خدا سے معاف کروائیں گے اور پاک صاف رہیں گے۔ کیا اسلام میں ایسا کوئی تصور ہے؟کیا اسی طرح ہم اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکیں گے؟معاشرے میں جس قدر بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے،ہر طرح کی برائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں جہاں ہماری استطاعت ہوتے ہوئے بھی ہم خاموش رہتے ہیں۔ اپنی اولادوں کی تربیت کے بارے میں ہمیں ذرہ برابر بھی کوئی فکرنہیں رہتی ہے۔12سال کے بچے پیراڈو اور موٹر سائکل چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس باعث آئے روز حادثات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔قرآن کریم کو فقط کسی کی موت پر یا دم دعا پر یا تعویز بنانے میں ہی استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ ہم اس آفاقی کلام سے کوئی استعفادہ حاصل نہیں کرتے ہیں۔نیک امور میں سبقت لے جانے کے بجائے ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں، ایک دوسرے سے بلند بالا عمارتیں تعمیر کرنے میں اور ایک دوسرے سے کہیں زیادہ مہنگی گاڑی خریدنے میں لگے ہوئے ہیں۔ در حقیقت میں فلسفہ عبادت ہمیں کچھ اور درس دیتا ہے۔کوئی نماز پڑھنے اگر مسجد میں ایک آدھ گھنٹہ گزارتا ہے تو وہاں جو کچھ سنا جاتا ہے وہ تو ایک طرح کی ’’ تھیوری‘‘ ہے ، غرض انسان اپنے اپنے عبادت خانوں میں وقت گزارتا ہے وہاں اچھی نصیحت اور نیک درس سن لیتا ہے وہ بھی تھیوری ہے۔ جب انسان اپنے عبادت خانے سے باہر نکل کر جوتی پہن کر پہلا قدم عبادت خانے سے باہر رکھتا ہے تو سمجھ لیں کہ عملی میدان شروع ہوگیا ہے۔ تمام انبیاء کرام کی تبلیغ ہو یا علمائے کرام کا درس ہو ان سب کا مقصد معاشرہ سازی ہے۔انسان کے اذہان کو کھولنے کے لئے درس دی جاتی ہے ، ایک پر امن اور عدل پر مبنی معاشرے کی قیام کے لئے درس دی جاتی ہے۔جبکہ معاشرے کی ابتداء اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے جب ہر کوئی اپنے پرویوار کی درست سمت تربیت کرے گا تو یہ انفرادی عمل اجتماعی عمل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جمعہ کی نماز میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ روز آنے والے نمازیوں کے مسائل سنے جائیں اور ان کا تدارک کیا جائے۔ ساتھ عالمی سطح پر تغیر پزیر حالات اور مسلمانوں کو بیدار رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔مگر اس دور میں کجا کوئی کسی مستحق کا خیال رکھتا ہے ،سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے۔دنیا پرستی اور حوس پرستی میں ہم اس قدر مگن ہیں کہ ہمارے پڑوس میں کون بھوکا ہے کون ضرورت مند ہے ہمیں فرق نہیں پڑتا ہے۔جب کہ بزرگان دین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی انسان پتھر توڑتا ہے خدا نے اس کو اچھی صحت دی ہے اور وہ دن میں اپنا خون پسینہ بہا کر ہزار بارہ سو روپے کما لیتا ہے اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ خرید لیتا ہے جبکہ اس کا پڑوسی پتھر توڑنے کا قابل نہیں وہ بچارہ محض مزسوری کرکے 400روپے کما لیتا ہے اگر وہ پتھر توڑنے والا انسان اپنے گھر میں پکے ہوئے تعام میں سے ایک پلٹ اس مزدور کے گھر نہیں بھیجے گا تو اس کی اس حلال کی کمائی میں بھی اشکال ہے۔ اب سوچا جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں آیا ہمارا شمار کس کٹگری میں ہوتا ہے۔جبکہ رمضان مبارک میں ہمارے تیور قابل دید ہوتے ہیں ہمارا صبر کا پیمانہ کتنا گر چکا ہوتا ہے۔ہم ضرورتمندوں کاکتنا خیال رکھتے ہیں۔الفاظ دہرانے سے یا تسبیح پڑھنے سے انسان فلاح نہیں پاتا ہے جب تک وہ معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرے تب تک وہ سارے رٹائے ہوئے جملے بے معنی ہوجاتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ درخت کے نیچے مت سوجائیں وہاں شیاطین ہوتے ہیں، اس دور میں لوگ شیاطین سے واقف تھے زہریلی گیس کو نہیں سمجھتے تھے اس لئے ان کی ذہنی ادراک کو سمجھتے ہوئے لفظ شیاطین استعمال کیا، ناخن لمبے مت رکھیں ناخن کے اندر شیاطین ہوتے ہیں، آج یہ ثابت ہوا کہ ناخن کے اندر گندگی جمع ہونے سے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے انسان بیمار رہتاہے۔جمہ کو پیاز کھانا مکرہ ہے حقیقت میں جمہ کو پیاز کھانے سے انسان کے منہ سے بدبو نکلتا ہے اور ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ بدبو زیب نہیں دیتا ہے۔اس لئے منع فرمایا ہے۔ اسلام میں ہر چیز کا ایک فلسفہ ہے ہم اس فلسفے کو سمجھے بغیر کنوئیں کے مینڈک کی طرح خود کو مسلمان سمجھتے ہیں کیا عملی طور پر ہم واقعی مسلمان ہیں۔کیا ہم اپنی ذاتی زندگی میں اپنے ساتھ بھی انصاف کرتے ہیں کیا ہم صلح رحمی میں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔کیا ہم درس و تدریس سننے کے بعد رشوت خوری، کرپشن، جھوٹ فریب، مکاری، قتل و غارت گری سے بعض رہتے ہیں اگر عبادت خانے سے نکلنے کے بعد امور بد سے بعض رہتے ہیں تو ٹھیک چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے،جبکہ بارہا درس سننے کے بعد بھی اپنے اپنے سابقہ رویئے سے ٹس سے مس نہیں ہیں تو محض یہ ایک طرح کا ایکسرسائز کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔انسان جو بھی کام کر رہا ہو کاروبار، سرکاری ملازم، ڈاکٹر، یا سیاتدان اگر وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوجائے اور جس خدمت کے عوض اسے جو معاوضہ مل رہا ہو اسے رزق حلال سمجھ کر اکتفا کرے تو یقینا ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا، اور انسان جو عبادت بجا لائے گا وہ بارگاہ خدا وندی میں قبول ہوگا۔بغیر عمل کے ہر عبادت نفع بخش نہیں ہوسکتی ہے۔کلام پاک میں خدا فرماتا ہے کہ ایک ذرہ برابر نیکی اور بدی بھی گنی جائے گی۔ جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا شہ رگ سے قریب ہے کوئی شئے اسے مخفی نہیں اگر واقعی ہم صدق دل سے اس بات کو ماتنے ہیں تو ہمیں شرم آنی چاہئے کہ جب خدا دیکھ رہا ہے تو میں وہ کام کیسے کروں جبکہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔اگر انسان صرف اس بات پر عمل کرے میں خدا کا بندہ ہوں اور خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو کیوں وہ کسی پر ظلم کرے گا کیوں وہ کسی کو قتل کرے گا،کیوں وہ رشوت کھائے گا، کیوں کسی غریب کی حق تلفی کرے گا،کیوں ناپ تول میں بے مانی کرے گا۔ہمیں الفاظ کے بجائے عمل سے دکھانا ہوگا کہ ہم جو عبادت کرتے ہیں اس کا عملی نمونہ معاشرے میں نظر آنا چاہئے۔جبکہ ہمارا تصور دقیانوسی ہے اس دقیانوسی تصور کو ختم کرکے حقیقی اسلام کو سمجھ کر اسکی فلاسفی کو جانتے ہوئے معاشرہ سازی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔بصورت دیگر خد انہ کرے ہمارا ٹھکانہ سوائے جہنم کے اور کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ اب بھی وقت ہے باب توبہ بند نہیں ہوچکا ہے ۔ ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے اور اپنے سروں پر خاک ڈال کر اپنے گناہگار ہونے کا اعتراف کرنا ہوگا اور صدق دل سے توبہ کرنا ہوگا۔اﷲ رحمٰن، رحیم، کریم ہے وہ ضرور عفو فرمائے گا، اگر ہم یہ سوچ کر گناہ کرنے لگ جائیں کہ جانے دہ بعد میں توبہ کرلیں گے تو یہ نہ خدا کےء ساتھ بلکہ اپنے ساتھ ابدی دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔آئیں صدق دل توبہ کریں اور صحیح اسلام اور فلسفہ اسلام کو سمجھتے ہوئے عملی میدان میں ایک مسلمان کی طرح اپنا کردار ادا کریں۔ پروردگار عالم ہم سب کو احکام اسلام پر عمل کرتے ہوئے معاشرے سازی میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 17318 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.