خستہ حال عمارات……زبوں حال مکین

کوئی بھی ذی ہوش ذی روح اپنے منہ سے موت نہیں مانگتا اور نہ ہی خود کو موت کے منہ میں دھکیلنا پسند کرتا ہے کوئی مسئلہ کوئی مصیبت یا پھر کوئی ایسی مجبوری آڑے آتی ہے کہ وہ اس پر فریب زندگی اور دنیا کو چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے یا اپنے آپ کوحالات کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیتا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے آئے روز کسی نہ کسی مکان کی چھت یا دیوار گرنے سے انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں اخبارات اور چینلزپر چھپی اور لکھی دکھائی دیتی ہیں۔ کہیں پر دو کہیں چار اور کہیں سات افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور پھر حکومت کی طرف سے کوئی تعزیتی بیان داغ کر اپنے فرائض کو ادا کر لیا جاتا ہے اور اب ملتان میں موجود585 انتہائی خستہ حال ،خطرناک اور بوسیدہ عمارات میں سے 116 کو گرانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ ڈی سی او ملتان نے ٹاؤن انتظامیہ کو آرڈر کیا ہے کہ ان 116 تباہ حال عمارتوں کے مالکان کو 15 اگست تک اپنی اپنی عمارتیں گرانے کے نوٹسز جاری کردیے جائیں کہ وہ اپنی عمارتوں کو اپنی مدد آپ کے تحت رضاکارانہ طور پرمسمارکردیں۔ ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد ضلعی حکومت خود ان عمارات کو مسمار کردے گی اور ٹھیکیداروں کے ذریعے انکو گرانے پر جو خرچہ آئے گا وہ ملبہ کو فروخت کرکے پورا کیا جائے گا اور اگر ملبہ سے خرچہ پورا نہ ہوا تو اس قطعہ اراضی پر قبضہ کرلیاجائے گا۔یہ فیصلہ عوام اور مکینوں کے مفاد میں کیا گیا ہے-

سبحان اﷲ! کیا عمدہ پلاننگ کی ہے جناب ڈی سی او گلزارحسین شاہ اور ان کے آفیسران نے کہ ’’جوتابھی عوام کا اور سر بھی عوام کا‘‘۔ڈی سی او صاحب آپ نے فیصلہ یقینا بڑی سمجھداری اور سو چ و بچارکے بعد کیا ہوگا۔جس سے انسانی جانوں کو بچانا مقصود ہوگا تودوسری طرف’’ ایک تیر سے دو شکار‘‘ کے مترادف اپنے دامن کوبھی داغدار ہونے سے بچانے کا محفوظ انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ کہ کل کلاں کو اگر کوئی عمارت منہدم ہوجاتی ہے اور انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو ذمہ داری تو ڈی سی او پر آئیگی نا ۔اس لئے’’ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے‘‘ والا معاملہ اپنا کرنہایت ہی عقلمندی کی ہے۔ڈی سی او صاحب آپ نے ان عمارتوں کا سروے تولازمی کرایا ہوگاعمارتوں کی تباہ حالی خستہ سالی دیکھ کر فیصلہ کیاہوگا۔ لیکن کیا بھی جاننے کی کوشش کی کہ کیوں؟آخر کیوں یہ لوگ ان موت کے دہانوں پر اپنے خاندانوں سمیت بیٹھے ہیں۔کیا عمارتوں کی طرح ان کی خستہ حالی اور زبوں حالی دکھائی نہیں دیتی؟ کیا آپ نے یہ سروے بھی کروایا کہ کیوں یہ لوگ ان عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔کوئی تو ایسی مجبوریاں اور مسائل ہونگے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی داؤ پر لگا رکھی ہے۔نہیں نا! چونکہ ہمارے ہاتھ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کی روایت شد ومد کے ساتھ موجود ہے اور اس پر’’ سختی سے عمل پیرا‘‘بھی ہیں۔ اس لئے جب خدانخواستہ ان خاندانوں میں سے کوئی ایک خاندان یا اس کا کوئی فرد یا افراد ان خوفناک اور خستہ حال عمارتوں کی بھینٹ چڑھے گا تو ہماری حکومت اور ارباب اختیار و اقتدار فوٹو سیشن کروانے اور چینلز کی زینت بننے کیلئے مرنے والے کیلئے لاکھ دولاکھ پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کردیں گے۔مرنے والا تو مر گیا اب لواحقین اور وارثان کو چیک دینے کے اعلانات کے بعد بھی اکثر ایسا ہوتاہے کہ وہ چیک کیش ہی نہیں ہوتاباؤنس ہوجاتا ہے یا پھر ہدایات کے مطابق کل آنے کا کہہ کر لواحقین کے جوتے گھسا دیئے جاتے ہیں وہ کل کے چکر میں اپنے روزمرہ کے کاموں اور معمولات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔عجب مذاق ہے۔

او میرے بھائی !اگر آپ واقعی مخلص ہیں اور ان کی جانوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر سروے کرنے کے بعد یہ دیکھیں کہ ان میں سے کتنے کرایہ دار ہیں اور کتنے مالکان؟ اب کرایہ داروں سے بلڈنگ خالی کرانے کا کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ کسی اور جگہ پر عمارت کرایہ پر لے کر اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن اگر مالکان خود رہائش پذیر ہیں اور وہ بلڈنگ کی دیکھ ریکھ (maintinance) نہیں کرواسکتا تو وہ لاکھوں روپے جو بلڈنگ تلے دب کرمرنے کے بعدان کے لواحقین کو دیئے جانے ہیں اب ان کی امداد کرکے ان کی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے اور ان کی چھت بھی سروں پر قائم رکھی جاسکتی ہے ۔ عوام کو تحفظ اور امداد کا ایک باقاعدہ نظام بناکرخود کو ٹیشن فری کیا جاسکتا ہے اور ان غریب زبوں حالوں کی خستہ سال عمارتوں کو مرمت کرانے یا پھر گروانے کا موقع بھی بہتر اندار میں مہیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ یقینا ایک نیا انداز نیا کام ہوگا جوکہ لائق تحسین ہوگااور یہ بے بس و نادار لوگ آپ کو دعادیں گے اور کسی مجبور و بے کس کی دعا قبولیت کے شرف کو بہت جلد پہنچتی ہے۔ اس میں آپکاکچھ نہیں جانا۔ تمام سروے ہوچکا صرف تھوڑا سا انداز بدلئے کہ کون کو ن کرایہ دار ہیں اور کون کون مالکان۔کون کس حیثیت میں ہے۔ آیا کہ وہ اتنی سکت رکھتا ہے کہ سروں پر سایہ کرنے والی سرد گرم موسم میں پناہ دینے والی چھت کو گروا کر بنواسکے۔ اس کے خطرناک اور غیر محفوظ حصوں کو مرمت کرواسکے یا پھراوپر کی منزلوں کو اتروا کر وزن ہلکا کراسکے۔ یہ ساری معلومات آپ باآسانی حاصل کرکے اس نیک کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر اپنی عاقبت اور ان کی محفوظ دنیا کا سامان پیدا کرسکتے ہیں۔

اور اگرواقعی گرانے پر مصر ہیں تو پھر یقینا ان کے گرانے اور ملبہ اٹھوانے پر اتنی لاگت آئے گی کہ آپ کو انکی زمین پر قبضہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کیونکہ اکثریت اس قابل بھی نہیں کہ مرمت کروا سکے کجا کہ وہ اسے مسمار کرنے پر اخراجات کریں۔اور پھر ہر روز ایک نئی کہانی نیا ڈرامہ،رونا پیٹنا، احتجاج ،بددعائیں یہ سب آپ کو بھگتنا پڑیگا اور یہ بھی بہرحال آسان نہیں ہوگابہت سی قباحتیں حائل رکاوٹیں کو بھی face کرنا پڑے گا۔لہذا برادرانہ مشورہ ہے کہ ان بلڈنگز کو گرانے سے پہلے ان کے مالکان سے مل بیٹھ کر اس کا کوئی قابل عمل حل نکال کر حکومت کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے تاکہ اس پرفتن دور میں یہ تباہ حال اور خستہ سال لوگ اپنی زندگی کو کم از کم سکون سے گزار سکیں-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193177 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More