معاشرے کی ٹیڑھی اینٹیں(نمبر ۱)

کہا جاتا ہے اچھی اور نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے تو ایسے ہی ہمیں اس چیز کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح اچھی اور نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے ویسے ہی بری اور بد گناہِ جاریہ ہوتی ہے اولاد اگر نیک ہو تو والدین کو قبر میں بھی فائدہ دیتی ہے اک آدمی جو اک اچھا انسان ہے معاشرے کا بہترین رکن ہے لوگوں کے ساتھ اخلاق اچھا ہے کسی کو ایذاء نہیں دیتا بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار کرتا ہے اﷲ کے حضور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ رکوع وسجود کرتا ہے ذکرِ الٰہی میں میں وقت گزارتا ہے اﷲ پاک کے کلام کی صبح شام تلاوت کرتا ہے پیارے آقاءِ دو جہاں پر درود پڑتا ہے المختصر کہ سنتِ رسولﷺ کے مطابق احکامِ الٰہی پر کاربند رہتا ہے اور ایسا انسان اگر آپ کی اولاد ہے تو اس انسان کا ہر عمل جو انسانیت کے فائدہ کیلیے، اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہوگا اس کا اجر و ثواب اس کو تو اﷲ پاک عطا کرے گا ہی مگر اس کے عمل کا اجر اس کے والدین کو بھی اﷲ پاک عطا کرتے ہیں کیوں کہ اﷲ پاک آپ کی محنت کو ضائع نہیں کرتا آپ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت کی جو ہر کام میں اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ کی رضا کو ملحوظ رکھتا ہے تو اس تربیت کی وجہ سے اس کے ہر اچھے عمل پر اﷲ پاک والدین کو بھی ثواب کمشن کے طور پر عطا کرتا ہے اور یہ ثواب کا کمشن تاقیامت نسل در نسل چلتا رہے گا مگر کوئی والدین اس کے برعکس نہیں چاہیں گے کہ اس کی اولاد کے ہر برے عمل کا گناہ بھی اسے پہنچتا رہے اور وہ اس عذاب میں جکڑا جائے لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ ہر والدین کے چاہنے کے باوجود ہمارا معاشرہ زخمی بدن اور پھٹے کپڑوں کے ساتھ دامن پھیلائے والدین سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اب بس کر دو یہ اپنے بچوں کو سیکھاؤ کہ مجھ میں اب اور زخم برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے کچھ ہوش کرو خدا راء جاگ جاؤ تم تو ایسی امت تو نہ تھے تمھارے آباء ایسے تو نہ تھے تمھارے اسباق جن کو تم نے یاد رکھنا تھا وہ یہ تو نہ تھے اور معاشرہ پکارتا ہے کہ لوٹ آو اب بھی وقت ہے ایسا نہ ہو کہ پچتانا پڑے۔

معاشرے کی جتنی آہو پکار ہے جتنی خرابیاں ہیں اس کے قصور وار اس معاشرے کے والدین ہیں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بارے میں غور کریں کہ معاشرہ کیوں روتا ہے کہیں یہ ان کی وجہ سے تو نہیں رو رہا اگر سمجھ آتا ہے تو سنینے یہ آپ ہی کی وجہ سے رو رہا ہے وہ اس لیے کہ آپ نے اپنے بچے کی تربیت اچھی نہیں کی سوچنے کی بات ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے ؟ اس موضوع پر گفتگو اور فکر ہم نے کشمیر کی وادیِ نیلم کے پر فضاء مقام پر کی کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن بگڑ رہا ہے آئے روز ایسے چونکا دینے والے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے کیا ایسا بھی کوئی کر سکتا ہے ہر گلی محلے میں بچے نوجوان الٹی سیدی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں، گالیاں نکالنے کے ماہر بچے اور کسی شریف انسان کو تنگ کرنے اور عورتوں پر آوازیں کسنے کے شغل، حیاء کا یہ عالم ہے کہ گلی محلے میں تھڑوں پر بیٹھے عورتوں کو دیکھ کر آوازیں یوں کستے ہیں جیسے خود کسی بہن کے بھائی نہیں یا ماں کے بیٹے نہیں اور شہروں کی حالتِ زار پر رونا آتا ہے کہ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں مارکیٹوں اور پارکوں میں اسی شغل سے آتے ہیں اور یونیورسٹی لیول پر تو لڑکے لڑکی کا اکٹھے پھرنا کوئی معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا اور ہاتھوں میں موبائل فون لیے سارا دِن گانے اور فلمیں دیکھنا ہماری نوجوان نسل کا شغل بن چکا ہے اور حیرت اس وقت ہوئی جب ہم کشمیر کی وادیوں میں پر خطر سڑکوں سے (جن سے اوپر دیکھو تو لٹکتی چٹانیں اور نیچے دیکھو تو حدِ نظر گہرائی میں بہتا دریاءِ نیلم جہلم ) ہم کلمہ طیبہ کا ذکر کرتے گزر کر اڑنگ کیل پہنچے تو وہاں اک بچے کے ہاتھ میں موبائل دیکھا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ یہاں کونسا نیٹ ورک چلتا ہے تو اس نے کہا کوئی بھی نہیں چلتا حیرت سے پوچھا کہ پھر یہ موبائل کیوں رکھا ہے تو اس نے جواباََ کہا فلمیں اورگانے سننے کے لیے ، کیا اس موبائل میں تلاوت نہیں چل سکتی؟ کیا اس میں کسی عالمِ دین کا بیان نہیں چل سکتا ؟ یا بقول میرے اک دوست کے جب اس سے صبح کی نماز کا الارم نہیں لگ رہا تھا تو کہتا ہے میرا موبائل کافر ہو گیا ہے، کہیں ایسے ہی ہم بھی تو اپنے بچوں کو کافر موبائل تو نہیں لے کر دے رہے جن سے یہ گانے اور فلمیں سن سن اور دیکھ دیکھ کر ایسے ہو گیے ہیں کہ کوئی اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ کی طرف رغبت مر گئی ہے اور کانوں ، آنکھوں اور دلوں پر پردے پڑ گئے ہیں ،یہ ساری خرافات اس لیے کہ والدین نے اپنی اولاد کو سمجھایا نہیں روکا نہیں کہ بیٹا یہ یہ کام برے ہیں کوئی بھی حرکت کرنے سے پہلے وہی حرکت اپنے گھر والوں سے ہونے کو محسوس کرنا تمھیں اچھا لگے گا؟اس بات کی تصدیق آپ خود بھی کر سکتے ہیں اﷲ پاک ہم سب کو ہدایت دے مجھے افسوس ہوتا ہے جب مسجد میں نمازِ فجرو عشاء پر اور پھر رمضان کی نسبت نمازِ تراویح میں بکثرت بزرگ اور چند نوجوان دیکھتا ہوں اور اس پر بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ذرہ سا قیام لمبا ہو جائے تو الجھن ہوتی ہے مگر روزے کا وقت گزارنے کے لیے تین گھنٹے کی فلم دیکھنے میں کوئی الجھن یا اﷲ پاک کا خوف نہیں آتا ، یہ سب دین سے دوری کی وجہ ہے جو والدین کا ذمہ تھی مگر حق ادا نہیں کیا ۔

میری اس بات کو جانچنے کے لئے اپنے گھر میں نظر دوڑائیں آپ کے پاس ہر ضرورت کی چیز پڑی ہو گی بچوں کو ہر سہولت دی ہو گی کیا آپ کے گھر میں کوئی فقہ (اسلامی شریعت)کی کتاب پڑی ہے؟

جو آپ بتائے کہ حلال حرام کیا ہے، آپ پر آپ کی اولاد کے حقوق کیا ہیں،پاکی پلیدی کیا ہے،لوگوں کے ساتھ سلوک کیسے کرنا ہے، وضو،نماز، روزہ،زکواۃ ، حج کیا ہیں ان کے مسائل کیا ہیں مختصر کہ روز مرہ کے جو مسائل پیش آتے ہیں ان پر شریعت کیا کہتی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد آپ کا جنازہ بھی نہ پڑ سکے آپ کی بخشش کا سامان بھی نہ کر سکے ؟

آپ میں سے ہر والدین یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا ، بیٹی انجینئر ، ڈاکٹر بن جائے اور اس کے لئے آپ نے سینکڑوں کتابیں لا دیں کیا شریعت کی اک کتاب لا کر نہیں دے سکے ؟ مترجم قرآنِ پاک لا کرنہیں رکھ سکتے؟ اور اگر کوئی قرآنِ مجید ہے بھی تو کسی الماری میں ہوگا پڑا ہوا صرف تبرک کے لئے اور اس بات کا جواز کہ آپ وراثتی مسلمان ہیں۔

افسوس ہوا مجھے اک نوجوان کی بات سن کرجو اک متوسط خاندان کا میرے پاس الیکٹرونکس ٹیکنالوجی کا اک مضمون پڑنے آتا تھا تو میں اسے ویسے اک دن کہا کہ صبح کی نماز کے بعد قرآنِ مجید کی تلاوت کا معمول بنا لو تو مشکلات کم ہو جائیں گی تو جواباََ کہتا ہے سَر مجھے تو قرآن پڑنا نہیں آتامیں اس کے جواب پر حیران تھا اور سوچتا رہا کہ کس کا قصور ہے کہ اس نے قرآن نہیں پڑا مجھے چھوڑیں آپ بتائیں والدین کی غلطی نہیں تو کس کی ہے؟

تھوڑی دیر ٹھہر کے سوچ لیں کہ کدھر جا رہے ہیں ہم کہ اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم میں تو ماسٹر کروا دیں سولہا (۶۱)سال کا عرصہ جس کا مقصد صرف پیٹ کا ایندھن بھرنا ہے اور جس اصل مقصد کے لئے آئے ہیں اس کیلیے چند مہینے یا ہفتے بھی نہیں، کیوں کہ ہمارے بچوں کاوقت ضائع ہوتا ہے حالانکہ وہ سولہا سال ضائع کیے ہیں کیا جن کے پاس دنیاوی تعلیم نہیں بھوکے مرتے ہیں نہیں، شائد اتنا ہی وقت دین سیکھنے میں لگتا توآپ کی آخرت کا سامان بن جاتا۔

میں نہیں کہتا کہ عالمِ دین بناؤ لیکن کم از کم اتنا تو دین سیکھاؤ کہ جب اﷲ پاک سوال کرے تو کہ سکو کہ ہم نے یہ کیا ، میں اکثر اپنے طالب علموں سے کہتا ہوتا ہوں کہ شریعت سیکھو بچو کیوں کہ قبر میں فرشتے ڈائیوڈ، ٹرانسسٹر ، لاجک گیٹس کوئی نہیں پوچھیں گے۔
وہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ
کم آپڑیں سنوارنے تے شابس جہان دی
تربیت آپ نے اپنے بچوں کی اچھی کرنی عاقبت آپ کی سنورنی ہے تو معاشرہ بھی آپ کی اور آپ کی اولاد کی مثالیں دے گا۔

اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی آخرت اچھی ہو اور صدقہ جاریہ بھی ہو تو اولاد کو دین کی طرف راغب کروکہ وہ اﷲ اور رسولﷺ کے مطیع بن جائیں۔

میری والدین سے گزارش ہے کہ اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلائیں کیوں کہ اگر پاک رزق سے بھی اولاد کی پرورش نہیں ہو تو لاکھ جتن کرو سیدھی نہیں ہوتی کیوں کہ

حضورﷺ کی اک حدیث ہے کہ حرام رزق سے اگنے والا گوشت جہنم کے لئے بہتر ہے(قانونِ شریعت از بہقی)
اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ دین کی تعلیم کا لازمی انتظام کریں خدا راء لاڈ پیار میں بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگزر نہ کریں پہلے سمجھائیں دوبارہ کرے تو تھپڑ مارنے کا حق آپ کو شریعت دیتی ہے یہ
مار نہیں پیارنے ہمارے معاشرے کو بگاڑ کے رکھ دینا ہے
اﷲ پاک ہمیں حضورﷺ کے صدقے میں جدید دور کے فتنوں سے بچائے(آمین)
Fayyaz Hussain
About the Author: Fayyaz Hussain Read More Articles by Fayyaz Hussain: 23 Articles with 15557 views Khak-e-paa aal-e-rasool (a.s) wa ashaab-e-rasool (r.a).. View More