ہم سب سچے پاکستانی ہیں

کوئی مانے یا نہ مانے مگر بھئی اپنا تو یقین ہے کہ ہم سب سچے پاکستانی ہیں،اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرنے والے ،رات دن اپنے وطن کے عشق میں مبتلا اور اسکے وقار میں اضافہ کرنے کیلئے فکرمند……اب کسی امریکہ یا بھارت نوازبندے یا بندی کو ہماری یہ بات بے وزنی لگے تولگے ……ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا،ہم تو ویسے بھی بڑے مضبوط اور توانا اعصاب کے مالک واقع ہوئے ہیں دنیا ہمارے بارے میں اچھا سوچتی ہے کہ برا یا سرے سے سوچتی بھی ہے کہ نہیں ہمیں اسکی پرواہ نہیں ہے،اپنی مٹی سے محبت ہماری رگ وپے میں رچی بسی ہوئی ہے اور دنیا کی دوسری قوموں کی جانب توجہ دینا اور انہیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھناگناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ہمیں بھلا اس سے کیا کہ دنیا کہاں سے کہا ں چلی گئی ہے ہماری بلا سے جو جہاں مرضی جائے ہم تو اپنی جگہ سے ہلنے والے نہیں اور کیا حرکت کے لئے آ گے جانا ہی ضروری ہے،حرکت تو پیچھے بھی ہو سکتی ہے سو ہم آگے کی بجائے پیچھے جا نے میں ہی راضی ہیں ہم اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ انتہائی مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے حصول پاکستان کی خاطر ہمارے بزرگوں کی دی ہوئی قربانیوں کو یاد کر کے افسردہ نہ ہوں اور اس بور کر نے والے موضوع کی وجہ سے ان کا موڈ خراب نہ ہو،اس لئے ہم نے انہیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھابم دھماکوں،خودکش حملوں کی دھن پر رقص کرتے ہوئے اور کیبل و انٹرنیٹ کی دنیا میں کھوئے یا دوسرے لفظوں میں سوئے ہوئے پاکستانی نوجوانوں کی نیند میں خلل ڈالنا اور انہیں خوامخواہ ڈسٹرب کرنابھلا کہاں کی دانشمندی ہے سو جس طرح تمام دوا ئیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا ضروری ہوتی ہیں ہم نے پوری کی پوری تاریخ پاکستان اپنے بچوں کی پہنچ سے دور رکھی ہوئی ہے اور اپنے اس مقصد میں اتنے کامیاب ہیں کہ ہمارے نوجوان اس فضول ٹاپک پہ کسی کے ساتھ بحث تو درکنار دو لفظ بھی کہنے کے قابل نہیں ہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ ہماری کاوشوں کے نتیجے میں ہماری نئی نسل کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ پاکستان سو فیصد اسلام کے نام پر بنا تھا اور قا ئد اعظمؒ کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا حصول تھا ان پرانے قصوں میں بھلا کیا پڑا ہے کیا ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ ہم یہ کھوج لگاتے رہیں کہ نظریہء پاکستان کیا تھا پاکستان بنے اب بہت مدت بیت گئی سو ان کہانیوں کو بھول جانا چاہئے اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہر فکر اور غم سے آزاد ہوکر صرف اپنی تعلیم بھرپور توجہ دیں سو ان کے لئے ہم نے بہت ہی رنگا رنگ قسم کا نصاب بنا رکھا ہے اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے غریبوں کو انکی بساط (اوقات )اور امیروں کو انکی دولت کے حساب سے تعلیم دی جارہی ہے انصاف کا یہ عالم ہے دولتمندوں کے بچے جہاں زیور تعلیم سے ٓراستہ ہو رہے ہیں مفلسوں، مجبوروں، کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کو ان اداروں کے پاس پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور جہاں غریب کا بچہ علم حاصل کرنے کے نام پر ماسٹروں کی ٹانگیں دبانے،انکے گھروں کے سودا سلف ڈھونے اور غلیظ گالیاں کھانے جاتا ہے وہاں سے امراء اور انکے بچے کبھی گذر کر بھی نہیں دیکھتے،ہم ایک صحتمند قوم ہیں اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق قوم کوطرح طرح کی ملاوٹ سے بھرپور خوراک فراہم کر رہے ہیں سرخ مرچوں میں فولادی خصوصیت شامل کرنے کے لئے اینٹوں کو بھی پیس کر شامل کرنے میں بھی ہم نہیں ہچکچاتے ،کوکنگ آئل اور گھی میں جانوروں کی چربی پگھلا کر شامل کرنا ہماری جانوروں سے محبت اور عقیدت کا ثبوت ہے آخر یہ جانور بھی تو ہمارے ہم وطن ہوئے نا……دین اسلام کے شیدائیوں کے ملک میں ایک لیٹر خالص دودھ حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے، ہمارے ڈاکٹر انتہائی پروفیشنل اور انسان دوست ہیں بس کبھی کبھار تنخواہوں اور دیگر مراعات کا معاملہ آجائے توہڑتال وغیرہ کر لیتے ہیں اور اس دوران اگر ایک آدھ بندہ انکے سامنے پھڑک جائے تو قصور ڈاکٹروں کا تو نہ ہوا بس مرنے والے کی زندگی ہی اتنی لکھی تھی،ہمارے توپرائمری پاس عطائی ڈاکٹر بھی تحقیق اور تجربے میں کسی سے کم نہیں انسانوں کو جلد آرام پہنچانے کے لئے ڈھور ڈنگروں کو لگائے جانے والے انجیکشن سے انکا علاج کوئی اور کر کے تودکھائے،ہمارے وکلا حضرات جنہوں نے عدلیہ کی آزادی کے لئے لازوال کردار ادا کیا طبیعت کو کوئی بات نا گوار گزرے تو اب بھری عدالت میں ججز کے ساتھ جوڈو کراٹے بھی کر لیتے ہیں کیونکہ عدلیہ اب آزاد ہے تو وکلا ء بھی آزاد ہیں،ہمارے صحافی بھائی ہر روز برائیوں کے خاتمے کے پختہ ارادے لے کرگھروں سے نکلتے ہیں مگر برائیاں ڈھونڈ کر انہیں نظر انداز کرنے کی قیمت وصول کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں،حکومت سے تو بیروزگاری ختم ہوتی نہیں پھراپنے بیروزگار ہونے کے خدشات کو ختم کرنے کے لئے چھوٹی موٹی بلیک میلنگ کا سہارا لینے میں کیا مضائقہ ہے،ہمارے علمائے کرام اﷲ تعالیٰ کے احکامات ماننے کا درس دے دے کر گلے خراب کر لیتے ہیں لیکن تفرقے میں نہ پڑنے کے حکم ربی کوخود پر نافذ کرنا انہیں کسی طور گوارا نہیں چنانچہ جب ایک ہی گلی محلے میں بیک وقت اپنے اپنے انداز میں اذانوں کا آغاز ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ مختلف مسالک کے درمیان اذانوں کا کوئی مقابلہ شروع ہو گیا ہے اور کسی ایک پر دوسرے کی اذان کا احترام لازم نہیں ،مولوی حضرات دین کی محنت اور تحقیق سے غافل ہوکرپراپرٹیاں بنانے اورایک دوسرے کی مسجد کے نمازیوں کو گھیرنے پر ساری توجہ مرکوز کر لیں تو ایسا ہی ہوتا ہے،حلال وحرام کے بارے میں وعظ کرنے والوں نے چندہ اکٹھا کرتے وقت کبھی کسی صاحب ثروت سے استفسار نہیں کیا کہ بھائی آپ کی کمائی حلال بھی ہے کہ نہیں ،ہمارے سیاستدان ہر روزموسم کی رپورٹ دیکھ کراسکے مطابق اپنی ترجیحات اور سمت کا تعین کرتے ہیں وعدہ کرکے مکرنے اورقلابازیوں میں اسقدر ماہر ہیں کہ کچھ پتا نہیں چلتا کب اپنے ہی غلط کہے ہوئے کو صحیح اور صحیح کہے کو غلط ثابت کرنے میں جت جائیں ،بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ سمجھ نہیں آتی کون کس کا کب تک دوست ہوگااور کب دشمن کا درجہ پالے گا،ہماری بیورو کریسی کو عوام کے نام سے ہی نفرت ہے اس لئے سرکار کے دفتروں میں عوام نامی جانوروں کا داخلہ بالکل ممنوع ہے،صنعتکارمیں آگے بڑھنے کے جذبے کا سمندر موجزن ہے سو وہ پورے ملک کے حصے کی گیس اور بجلی صرف اپنی فیکٹری میں پھونک کر راتوں رات ترقی کرنا چاہتا ہے اور مزدور ہڈ حرامی کے سارے طریقے آزما کر بھی اپنی تنخواہ کو نہ صرف حلال کی کمائی سمجھتا ہے بلکہ اس میں اضافے کے مطالبے سے کسی دور میں بھی دستبردار نہیں ہوا،پولیس میں ممی ڈیڈی افسران کے آنے کے بعدفوٹو سیشن کا رواج نکتہ ء عروج پرہے،د وچار گلی سڑی پرانی بندوقیں اور ڈھائی درجن زنگ آلود گولیاں اور کچھ خول خواہ وہ اپنے ہی تھانے کے کسی بوسیدہ بکسے ہی سے کیوں نہ برآمدکئے گئے ہوں میز پر سجاکر فلاں فلاں گینگ کی گرفتاری کا ڈھونگ رچاکر کمال شان سے پریس کانفرنس کرناہماری پولیس کا ہی خاصہ ہے،تھانوں میں بیٹھے تفتیشی جادوگر اپنے منتر سے بے گناہ کو گناہ گار اور شتہاری کو معصوم بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں،،گلیوں بازاروں میں دن دیہاڑے شہری لٹ رہے ہیں مگر شرم کسی پولیس افسرکو چھو کر بھی نہیں گزر تی،دفاعی ادارے اتنے چا ک وچوبند کہ سیاستدانوں کی چھینکوں تک کی رپورٹ انکے پاس موجود ہوتی ہے مگر ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی اور دوست ملک کے حملے سے قطعی لاعلم رہتے ہیں،ملک بچانے کے نام پر 11،11سال اقتدار کی موج مستی لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی سمیت کسی بھی محاذ پرناکامی کی ذمہ داری اپنے کھاتے میں ڈالنے پر رضا مند نہیں،ہمارے پاس ایٹم بم موجود ہے مگر اسے چلانا تو درکنارہم کسی کواس سے دھمکانے کے قابل بھی نہیں ، ہمارے کھلاڑی میچ کی ہار جیت کی بجائے اب ہر بال پہ سٹہ لگانے کا ہنر سیکھ چکے ہیں اور اسکی بدولت دنیا میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں،ہمارا ملک غیروں کا مقروض مگر ہماری ارب پتی ایلیٹ کلاس نے کبھی ملک کو ان قرضوں سے نجات دلانے کا تذکرہ بھی اپنی زبان پر لانے کی جسارت نہیں کی سو بیرون ملک پڑے ڈالرز اور پاؤنڈز ہماری تنگدستی اور بے بسی کامنہ چڑا رہے ہیں،توانائی کے بحران نے گھر کے برتن بیچ کر یوٹیلیٹی بل ادا کرنے والے غریب کا چولہا اور پنکھاتو بند کردیا لیکن کروڑوں کی بجلی و گیس چوری کرنے والے با اثر چوروں کا چولہا اور اے سی جوں کا توں چل رہا ہے ،رشوت لینے والا رشوت کی کمائی کواپنا حق سمجھتا ہے اور رشوت دینے والے کے نزدیک کام کرانے کے لئے اس سے بہتراور آسان طریقہ کوئی نہیں، ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بکثرت جھوٹ بولتے ہیں،ہم کم تولنے کو اپنا فن کہتے ہیں،ہم نے غیبت کو وقت گزاری کے مشغلے اور فیشن کے طور پر اپنا رکھاہے،ہم تماشہ بھی خود اور تماشائی بھی خودہیں،گلستاں کی ہر شاخ پہ الوؤں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے،آگ سے سارا چمن جل رہا ہے ا ور ہمارے اندر براہیم ؑکا ایماں پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں نظر آرہا،ہمیں ندامت نہیں کہ ہم نے قائدؒ کے پاکستان کود ولخت کیا اور باقی ماندہ ملک کا بھی حشرنشر کر دیا،ہم انسانوں کی فلاح کی بجائے اس ملک کو بے گناہوں اور معصوموں کی قتل گاہ بنا کر مطمئن ہیں،ہمارے کانوں کو دھماکے دار موسیقی سننے کی عادت پڑ گئی ہے سو ہم ہر روز ہم وطنوں کے پرخچے اڑتے دیکھتے ہیں اور پھر سکون کی نیند سو جاتے ہیں کیونکہ۔۔۔ہم سب سچے پاکستانی ہیں۔
Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67149 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.