مصر میں فوجی بغاوت

لبرل اور اسلام دشمن قوتوں کافوج سے گٹھ جوڑ
اسرائیل ، امریکہ اور عرب بادشاہوں کا درپردہ کردار

مصرمیں 3 جولائی 2013کوجب کہ صدرمحمدمرسی کی حکومت نے ایک سال پورا کیا تھا تحریر اسکوائر پر ان کے خلاف زیادہ ترکرایہ کے ٹٹؤوں کے احتجاجوں کوبہانہ بناکرغیرملکی قوتوں،اپوزیشن اورخلیج کے بعض دولت مندعرب ملکوں کے اشارے اوران کی ملی بھگت سے فوج نے جمہوری طورپر منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔صدارتی محل پر دھاوابول کرصدرمرسی کوحراست میں لے لیاگیااس کے علاوہ اخوان المسلمون کی ساری اعلی قیادت کو بشمول مرشدعام عاکف بدیع کے، نظر بند کردیا گیا۔اسلام پسندوں نے جونئے ٹی وی چینل کھولے تھے ان کو بند کردیا گیا۔ پارلیمنٹ کوتحلیل اورنئے مصری آئین کوکالعدم قراردے کرسابق چیف جسٹس عدلی منصور کو عبوری صدرکا حلف دلوادیاگیا۔عدلی منصورکایہ پتہ نہیں کہ وہ مسلمان ہیں یاعیسائی یایہودی ۔عبوری وزیراعظم کے لیے پہلے ڈاکٹر محمد البردعی جوبین الاقوامی ایٹمی توانائی کے ادارے آئی ای اے ای کے سربراہ رہ چکے ہیں،کونام زدکیاگیامگرسلفی جماعت النورکی مخالفت پر ان کونائب صدربنادیا گیا اور ماہرمعاشیات حازم البیلاوی کوعبوری وزیراعظم بنایا گیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسی النورگروپ نے صدرمرسی کے خلاف فوجی بغاوت کا ساتھ بھی دیا۔

مصرمیں دوسال قبل تحریراسکوائرکے انقلاب کے بعدفوجی آمرحسنی مبارک کو عوام نے اقتدارسے بے دخل کردیاتھااورفوج نے تقریبا 16 مہینے اقتدارمیں رہ کرانتخابات کرائے جن میں اخوان المسلمون کوپہلی پوزیشن حاصل ہوئی تھی جبکہ سلفی گروپ النورنے دوسری پوزیشن حاصل کرلی تھی ۔اس کے بعدان دونوں کے اشتراک سے اخوان نے اپنی حکومت تشکیل دی جس میں عہدہ صدارت ڈاکٹرمحمدمرسی کوتفویض کیاگیاتھا۔مرسی کوبرطرف کرنے کے بعدپہلے فوج نے کہاتھاکہ ان کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے ۔ان کوصرف اس لیے برطرف کیاگیاکہ قوم ان کے خلاف ہوگئی تھی۔ مگراب مرسی اوراخوان کی اعلی قیادت کے اثاثے منجمدکردیے گئے ہیں اوران پر مقدمے چلانے کی تیاری ہورہی ہے۔ساتھ ہی دستورپر نظرثانی کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔

سال بھرکے بعداس پہلی جمہوری حکومت کوجس طرح سپوتاژکیاگیاہے اس کی سازش کی کڑیاں دور دور تک ملی معلوم ہوتی ہیں۔وجہ ہے کہ صرف مرسی کے خلاف عوامی ہنگامے اورمظاہرے حکومت کوگرادینے کے لیے وجہ جواز نہیں بن جاتے کیونکہ اگران کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے توان کے حامیوں کی تعدادبھی کم نہیں تھی اوروہ لوگ بھی اپنی قوت کا مظاہرہ سڑکوں پرآکرکررہے تھے یہ اوربات ہے کہ عالمی ، عربی ا و ر خودمصری میڈیانے ان کوبھرپورکوریج نہیں دیاالبتہ قطرکے الجزیرہ چینل نے ان کوبھی نمایاں طورپر پیش کیاجس کے نتیجہ میں تحریر سکوائرپر ہنگامہ کررہے لبرل اوراباحیت پسندوں نے الجزیرہ چینل کے قاہرہ کے دفترمیں گھس کوتوڑپھوڑکی اس کواپنامخالف قراردے ڈالا اوراس کی نشریات میں رخنہ اندازی کی۔ یہی الزام الجزیرہ پر شام کے کوریج کے سلسلہ میں سفاک شامی حکومت کے ہمنوالگاتے ہیں ۔

فوجی بغاوت کے بعدسب سے سعودی عرب کے ’خادم الحرمین ‘شاہ عبداﷲ نے خودفوجی جنرل عبدالفتاح السیسی کوفون کرکے مبارکباددی اس کے بعدعرب امارات نے بھی اس کا خیرمقدم کیانیز دونوں ملکوں نے اپنے خزانوں کا منہ نئی مصری گورنمنٹ کی مددکے لیے کھول دیا چنانچہ بغاوت کے چنددن بعدہی مصرکو3ارب ڈالرکی امداد دینے کا اعلان کردیا۔قطر،اردن اورعراق کے حکمرانوں نے بھی بغاوت کا خیرمقدم کیا۔حال ہی میں اردن کے شاہ عبداﷲ دوم نے مصرکا دورہ بھی کیا۔صرف ایران نے محتاط رویہ اختیارکیا۔اورترکی کے نائب وزیراعظم نے اس بغاوت کوجمہوریت کے قتل سے تعبیرکیا۔شام پہلے ہی سے اخوان کا مخالف ہے ۔بشارالاسدنے کہاکہ مصری عوام نے اخوان کے نظریہ کومسترد کردیاہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ سے کہاکہ وہ مصرکودی جانے والی 3.1بلین ڈاکرکی امدادکونہ روکے ۔یعنی ایک جملہ میں کہناہوتوکہ سکتے ہیں کہ عرب دنیاکی بادشاہت،آمریت کے ساتھ یہودیت بھی اخوان کے خلاف کھڑی نظرآئی ۔ا مریکی حکومت نے اس بغاوت کی مخالفت نہیں کی بلکہ یہ محتاط بیان وہائٹ ہاؤس سے جاری کیاگیاکہ اقتدارجلدازجلدعوامی نمائندوں کو سونپا جائے ۔اقوام متحدہ نے بھی صرف اتناکیاکہ رمضان المبارک کی آمدکے پیش نظرفریقین ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔اس کے بعد باری تھی اخوان کے حامیوں کی چنانچہ ان کے حامی اورمرسی کے مداح بھی بہت بڑے پیمانہ پر قاہرہ اوردوسرے شہروں میں سڑکوں اور چوراہوں پر آگئے، فوج نے بظاھرغیرجانب داررہنے کا اعلان کیا تھا مگر صدراتی کمپاؤنڈجہاں مرسی کوزیرحراست رکھاگیاہے ان کے حامیوں کے عدیم المثال مظاہرے اوراس میں شامل لوگوں کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے فوج اورانقلابیوں میں زبردست تصادم ہواجس میں اب تک سینکروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور یہ تصادم برابرجاری ہیں۔غاصب حکومت نے اخوان کومذاکرات کی پیش کش کی جس کواخوان نے بلاتاخیر مسترد کردیا اور اس وقت اپنے ایجی ٹیشن کوختم کرنے کی یہی سبیل بتائی کہ صدرمرسی کی حکومت کوفوراًبحال کیاجائے ورنہ احتجاج جاری رہیں گے۔اب جرمنی اورامریکہ نے صدرمرسی کی رہائی کا مطالبہ کیاہے۔ کسی مسلم ملک کوتویہ توفیق بھی نہ ہوسکی ۔

سوال یہ ہے کہ ایساکیاہوگیاتھاکہ فوج کومداخلت کرناپڑی؟تحریراسکوائرپرمظاہرے توبرابرجاری تھے جوکبھی مرسی کے مخالف ہوتے تھے کبھی ان کے حامیوں کے ۔ پھرفوج نے الٹی میٹم دیاکہ 48گھنٹوں کے اندر اندر حکومت اوراپوزیشن کواپنے اختلافات دورکرکے بحران ختم کر لیناچاہیے ،چنانچہ صدرمرسی نے الٹی میٹم کومستردکرکے اپوزیشن لیڈروں کوایک بارپھرمذاکرات کی دعوت دی جس کوانہوں نے قبول نہیں کیا ۔بلکہ مطالبات کی ایک فہرست پیش کردی جن کودیکھ کریہی لگتاتھاکہ اپوزیشن بحران کا حل قطعی نہیں چاہتی اوروہ ہرقیمت پر اس حکومت کو گرانے میں دل چسپی رکھتی ہے۔انہوں نے کہاکہ کسی بھی طرح کے مذاکرات تبھی ہوسکتے ہیں جب محمدمرسی اقتدار سے دست بردار ہو جائیں۔غالبامرسی کویہ توقع نہیں تھی اور نہ ان کے حامیوں اوراخوان المسلمین کوکہ الٹی میٹم کے باوجودفوج انتہائی اقدام کربیٹھے گی ۔اس لیے انہوں نے حفظ ماتقدم کے طورپر کوئی قدم نہیں اٹھایامثال کے طورپر وہ خود فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کوبرطرف کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے فوج سے ٹکراؤ مول لینااس بحرانی موقع پر غلط سمجھا۔

جہاں تک تحریراسکوائرپر جمع ہونے والے کی بات ہے تویوں محسوس ہوتاہے کہ مصری عوام جوش وخروش سے حسنی مبارک کے خلاف تواٹھ کھڑے ہوئے مگران کوابھی اتناسیاسی شعورحاصل نہیں ہواکہ وہ یہ طے کرسکیں کہ وہ اپنے لیے کس قسم کی حکومت چاہتے ہیں۔اپوزیشن لیڈروں کی تمام حرکات جمہوریت مخالف تھیں۔جب ایک باراخوان اقتدارمیں آگئی اورپورے طورپر جمہوری طریقہ سے آئی توعقل و منطق کا تقاضایہی تھاکہ ان کواپنی مدت حکومت پوری کرنے دینی چاہیے تھی ۔اگرعوام ان کی حکومت کوپسندنہیں کررہے تھے توجمہوری طورپر انتخابات کے ذریعہ ہی ان کووہ باہربھی کردیتے جب یہ آپشن موجودتھاتوفوجی مداخلت کی ضرورت کیوں سمجھی گئی جس سے ملک میں جمہوریت کا پہلاتجربہ ہی ناکام ہوگیا، سینکڑوں معصوموں کی جانیں گئیں اور مصری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ملک سالوں پیچھے چلاگیا،فوج کے اس جرم کا حساب کون لے گا؟اورفوج تنہاا س جرم میں شریک نہیں بلکہ اپوزیشن بھی جمہوریت کے اس قتل میں اس کے ساتھ شریک رہی ہے۔

جہاں تک صدرمرسی کے اقدامات کی بات ہے جن سے لوگ اورحزب اختلاف شدیدطورپر نالاں ہوگئے توایساتوانہوں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے جوآئین بنایاوہ پوراانٹرنیٹ پر موجودہے اس میں ایک بھی شق ایسی نہیں جوملک کوکٹروادی اسلامی ملک بنادے ۔بلکہ شدت پسندسلفیوں نے ملک کی عیسائی اقلیت قبطیوں پر جزیہ لگانے کا مطالبہ کیاتوحکومت نے ان کے مطالبہ کوتسلیم نہیں کیااوران کوبرابرکا شہری قرار دے کران کومساوی حقوق دیے ،عورتوں کومساوی حقوق دیے گیے بلکہ ملازمتوں میں ان کے مزیدآسانیاں اورسہولتیں فراہم کی گئیں ۔ انہوں نے زبردستی کچھ بھی نافذنہیں کیاالبتہ ان کی حکومت میں بے حجابی میں کمی آئی اورمتعددایسے ٹی وی چینل کام کرنے لگے جن کے انیکرشرعی اوراسلامی وضع قطع کا لحاظ کرتے تھے۔جن کے پروگراموں میں اباحیت نہیں ہوتی تھی ۔تاہم انہوں نے فلم انڈسٹری ،تھیٹر ، ڈراما اور پریس کی تمام آزادیابرقراررکھیں ،مصرمیں میڈیاپہلی بارآزادہوامگروہ زیادہ ترسیکولراورلبرل لوگوں کے ہاتھ میں تھامرسی کے آنے کے بعدبھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔انہوں نے شرعی سزائیں نافذنہیں کیں جن پر مشرق ومغرب ہرجگہ واویلا مچایا جاتا ہے ۔ انہوں نے بینکنگ کوعلی حالہ برقراررکھامطلب کہنے کا یہ ہے کہ انہوں نے بالکل فطری ،تربیتی اورتعمیری طریقہ اختیارکیاکسی بھی شعبہ میں پرجوش طریقہ پراسلامائزیشن کی مہم نہیں چلائی یہاں تک کہ اسرائیل کے ساتھ ہوئے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کوبھی نہیں توڑا۔جس کی وجہ سے پرجوش اسلام پسندوں نے بھی ان کوشدیدتنقیدکا نشانہ بنایا۔ پھروہ کیاچیز تھی جس کے باعث لبرل اوراباحیت زدہ طبقہ کوان سے خطرہ محسوس ہواحزب اختلاف نے ان کومطلق العنان قراردے کران کے خلاف مہم کیوں چھیڑدی ؟ا ور بائیں بازوکے لوگ ان کے خلاف مظاہروں میں سب سے آگے آئے ؟

عوام کے سامنے نظریات سے زیادہ اصل چیز روزی روٹی اورروزگارکی حصولیابی اورزندگی کے ہرشعبہ میں زہرکی طرح سرایت کیے ہوئے کرپشن سے نجات پاناتھی جس سے ان کی زندگی عذاب بنی ہوئی تھی ۔مرسی نے اس کے لیے کوششیں کیں مگرمسائل کہیں زیادہ پیچیدہ تھے اوروہ مزیدوقت چاہتے تھے ۔انقلاب کا مزاج توڑپھوڑاورجلدی سے تبدیلی لے آناہوتاہے ۔میڈیانے دنیابھرمیں اورخاص طورپرمصرمیں مرسی حکومت کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیاکہ مرسی کوعوامی مسائل سے کوئی سروکارنہیں،ان کا طرزعمل آمرانہ ہے اوروہ اخوان کے ایجنڈدے کوبروئے کارلاناتھا۔انقلابی معصوم اندازمیں یہ سمجھتے ہیں کہ بس ایک اقتدارکا تختہ پلٹااورسارے دلدر دور ہوگئے !مگرزندگی کے حقائق ان کی معصوم اور جائز خواہشات سے کہیں زیادہ بے رحم ہوتے ہیں! مسئلہ یہ تھاکہ مرسی کوجوملک ملاتھاوہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ملکی خزانہ خالی تھا معیشت چرمرائی ہوئی تھی۔بے روزگاری آسمان کوچھورہی تھی ۔بڑے بڑے صنعت کاروں نے انقلاب کی آہٹ محسوس کرتے ہی اپنے کھربوں کے سرمایے بیرونی بینکوں میں منتقل کردیے تھے جس سے کرنسی کی قدراورزیادہ گرگئی مہنگائی کمرتوڑ ہوگئی۔ عدلیہ کی جانب داری میڈیاکے مخالفانہ پروپیگنڈے اورحزب اختلاف کے عدم تعاون کے باعث حکومت کچھ زیادہ نہیں کرپائی ۔مرسی نے بیرونی ممالک دورے کرکے اپنی ساکھ ضرورقائم کی ۔انہوں نے جارح اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کرائی جس میں تاریخ میں پہلی بارحماس کی اورفلسطینی مجاہدین کی شرطوں پر اسرائیل کوجھکناپڑا۔داخلی محاذپر نئے آئین پر ریفرنڈم ہوااوراس میں بھی مرسی کامیاب ہوگئے۔مگرمعیشت کی بحالی اور لاکھوں بے روزگارنوجوانوں کوروزگارفراہم کرناجوانقلاب کا دست وبازوتھے ،ایک بڑامسئلہ بن گیا۔ اس محاذپر حکومت ناکام تھی ۔راقم کی نظرمیں ایک اسٹریٹیجیکل پؤائنٹ اور ایساتھاجس میں مرسی سے چوک ہوگئی۔ اپوزیشن کے پاس دوبہت اہم طاقت ور شخصیتیں تھیں ڈاکٹرعمروموسی اور ڈاکٹرمحمدالبردعی ۔یہ دونوں عالمی سطح کے شخص ہیں ۔ مرسی کوکوشش کرنی چاہیے تھی کہ ان دونوں سے اپنی حکومت میں کام لیں۔البردعی بہترین وزیرخارجہ ثابت ہوسکتے تھے۔اورعمروموسی سے بھی ایسے ہی کسی اہم عہدہ پرکام لیاجاسکتاتھا۔اگرایساہوجاتاتوان کے حکومت میں رہنے سے حزب اختلاف کی مخالفت میں کمی آجاتی اورعوام حکومت سے اتنے زیادہ برافروختہ نہ ہوسکتے تھے ۔ حکومت صحیح سمت میں جارہی تھی معاشی مسائل بھی دیرسویرحل ہوتے جن میں بڑی مشکل اِس سے بھی پیداہوگئی کہ حکومت IMFسے قرضہ لینے میں بھی ناکام ہوگئی ۔نتیجہ یہ ہواکہ معاشی مسائل بڑھتے ہی چلے گئے اور بالآ خر حالات حکومت کے قابوسے نکلتے نظرآئے ۔ایسے میں فوج کا تعاون بہت اہمیت رکھتاتھا۔لیکن فوج نے لاء اینڈآرڈرکا مسئلہ بحال کرنے میں حکومت کی مددکی بجائے غیرجانب داری کی روش اختیارکرکے الٹاحکومت اوراپوزیشن دونوں کو 48گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا ۔ ظاہرہے کہ ایک جمہوری نظام میں فوج حکومت کے ماتحت ہوتی ہے اورایسے الٹی میٹم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی مگریوں محسوس ہوتاہے کہ فوج نے پہلے ہی اپنامائنڈبنالیاتھااورجنرل عبدالفتاح السیسی کی نیت صاف نہ تھی ۔یادرہے کہ فوج نے 1952میں جب شاہ فاروق کا تختہ پلٹ دیاتھا۔اُس کے بعدسے ہی وہ ملک کے اندرایک مراعات یافتہ کلاس(previliged)رہی ہے ۔اقتدارعملا اسی کے ہاتھ میں رہتاہے آیاہے ۔اُس کے بعدانورسادات کے زمانہ میں جب مصرامریکی کیمپ میں داخل ہوگیااوراسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈمعاہدہ کے بعد امریکہ کی 1.5 بلین سالانہ امدادکا مستحق قرارپایاتواس بڑی رقم کا ہرسال 1.3بلین حکومت کوbypassکرکے سیدھے فوج کے ہاتھ میں چلاجاتاہے ۔یوں پوری طرح کرپٹ فوج کومرسی اوراخوان سے اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس ہوا ۔ اورفوجی بغاوت کے معاًبعدامریکہ کی اس کی مذمت نہ کرنابلکہ گول مول بیان جاری کرنا،اسرائیلی نمائندہ کا قاہرہ کا سفرکرنا،سعودی عرب کے بادشاہ کوجنرل سیسی کو فون کرکے مبارکباد دینا، حکومت میں شامل سلفی نورگروپ کا فوج کوحمایت دینا متحدہ عرب امارات کا فوراًہی فوجی حکومت کی مددکا اعلان کرنایہ بتاتاہے کہ یہ ایک بڑی سازش کے تحت ہواہے جس کے ڈانڈے دوردورتک ملے ہوئے ہیں۔

یادرہے کہ اس سے قبل نومبر2012میں سابق اسرائیلی وزیرخارجہ تزپی لیونی اورعمروموسی کے مابین ایک ملاقات ہوئی تھی جس میں عمروموسی سے تزپی لیونی نے کہاتھاکہ‘مصرکے داخلی حالات میں عدم استحکام پیدا کیا جائے ‘۔ان دونوں کے مابین ہوئی یہ گفتگولندن کے الحوارٹی وی نے نشرکردی تھی اس لیے اس کا یہ رازفاش ہو گیا ۔

تیونس کے بعداسلام پسندوں کی حکومت کا یہ دوسراتجربہ تھااورمصراپنے اسٹریٹیجک محل وقوع ،اپنے تاریخی وتہذیبی مقام اورعالم اسلام میں اپنے فکری ورثہ کے باعث اتنی اہمیت رکھتاہے کہ کوئی اورملک اس کی برابری نہیں کرسکتا۔یہاں اگراسلامی سیاست کا تجربہ کامیاب ہوجا تا توترکی کے کامیاب ماڈل کے بعد اسرائیل پردونوں ملکوں کا دباؤبڑھ جاتا۔(یادرہے کہ حال ہی میں ترکی اپوزیشن نے بھی یہی کھیل تقسیم اسکوائرپر بھیڑاکھٹی کرکے وہاں بھی کھیلنے کی کوشش کی تھی)مسلۂ فلسطین کے حل اوربیت المقدس کی بازیابی کے امکانات روشن ہوجاتے دوسرے شام میں سنیوں کوجوکشت وخون علوی اسدنظام کررہاہے ،اس پر دباؤبناکرمسئلہ کے کسی حل تک پہنچا جا سکتا تھا ۔ مگرمیڈیااوربائیں بازوکے زیراثرنقلابی نوجوان جن میں لبرل اوراباحیت پسندوں کی تعدادبھی خاصی تھی اورجوبڑی جلدی میں ہیں وہ یہ سب حقائق دیکھنے سے قاصررہے ۔ اوراپوزیشن کے بہکاوے میں آکربالآخرمشرق وسطی میں نئے روشن ہونے والے امکانات کی بربادی کا خودہی سبب بن گئے ۔

اب غاصب فوج کے تحت قائم نئی عبوری حکومت نے بظاہرچھ مہینے میں نئے انتخابات کرانے کا اورآئین میں ترامیم کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں یہ ہوگاکہ فوج کے مفادات کا خاص خیال رکھاجائے گااورمبارک عہدکے باقیات سئیات ہی عملا پورے ملک پرمسلط ر ہیں گے ۔مگراخوانیوں کے زبردست مظاہروں کے پیش نظردو امکان اور ہیں یاتوفوجی انتظامیہ صدرمرسی کی حکومت کوبحال کردے اورملک کوایک بڑے بحران سے بچالے ،یہ امکان ذرابعیدمعلوم ہوتاہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دوبارہ انتخابات ہوں۔ اگروہ آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ ہوتے جس کی توقع فوج کے اقتدار میں بہت کم ہوتی ہے اوراخوان مزیدقوت کے ساتھ دوبارہ انتخاب جیت کراقتدارمیں آئیں یااقتدارمیں نہ بھی آئیں تب بھی ان کی قابل لحاظ سیاسی قوت باقی رہے ۔اخوان نے اور صدرمرسی نے اب تک جس پامردی ،دوراندیشی اوراستقلال کا ثبوت دیاہے اس کے مدنظران کی سرخ روئی کی امیدکی جانی چاہیے۔
Ghitreef Shahbaz
About the Author: Ghitreef Shahbaz Read More Articles by Ghitreef Shahbaz: 2 Articles with 1085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.