فضائلِ صدقہ وخیرات

جنابِ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
۱: ۔سخاوت اﷲ پاک کی بہت بڑی عادت ہے، یعنی اﷲ تعالی بہت بڑے سخی ہیں ۔
۲: ۔تحقیق بندہ صدقہ کرتاہے روٹی کا ٹکڑا، (پھر ) وہ بڑھتاہے اﷲ کے نزدیک یہاں تک کہ ہوجاتاہے احد پہاڑ کی طرح، یعنی اﷲ تعالی اسکا ثواب بڑھاتے ہیں اور اس قدر ثواب بڑھ جاتاہے ،جیسے احد کے برابر او ر اس کاثواب اس کو ملتارہتاہے۔
۳: ۔دوزخ سے بچو اگر چہ ایک چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی دے کر ،یعنی اگر چہ تھوڑی ہی چیز ہو، اسکو خیرات کرو ، یہ خیال نہ کرو کہ تھوڑی چیز کیا خیرات کریں ،۔ارے ،یہ بھی ذریعہ بنجائے گی دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا ۔
۴: ۔روزی طلب کرو اﷲ سے صدقہ کے ذریعہ ۔ یعنی خیرات کرو ،اس کی برکت سے روزی میں ترقی ہوگی ۔
۵: ۔احسان کے کام بری ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ خیرات دینا اﷲ تعالی کے غصّہ کو بجھا تاہے ۔اور اہل قرابت سے حسنِ سلوک کرنا عمر بڑھاتا ہے، اگر نیک کام کرتے دیکھ کر دوسرے کو رغبت ہو،تو ایسے موقع پر اس کام کا ظاہر طور پر کرنا بہترہے اور جب یہ امید نہ ہو،تو خفیہ کرنا افضل ہے، بشرطیکہ کوئی اور بھی خاص وجہ خفیہ یا ظاہر کرنے کی نہ ہو ۔
۶:۔سائل کا حق ہے اس پر جس سے وہ سوال کرے ،اگر چہ وہ سائل گھوڑے پر سوار آئے یعنی اگر گھوڑے کا سوار سوال کرے اسکو بھی دینا چاہیئے اس لئے کہ ایسا شخص بظاہر کسی مجبوری سے سوال کریگا ،یہ خیال نہ کرے کہ اس کے پاس تو گھوڑاہے ،سو یہ کیسے محتاج ہوسکتاہے، پھر ہم اس کو کیوں دیں، ہاں اگر کسی قوی قرینہ سے معلوم ہوجائے کہ یہ شخص حقیقت میں محتاج نہیں ہے ،بلکہ اس نے کھانے کمانے کا یہی پیشہ اختیار کرلیاہے ،بھیک مانگتاہے ،تو ایسے شخص کو خیرات دینا حرام ہے اور اسکے لئے مانگنا بھی حرام ہے ۔
۷: ۔اﷲ تعالی کریم ہے اور کرم کو پسند کرتاہے اور دوست رکھتاہے عالی اخلاق کو، یعنی ہمّت نیک کاموں میں، جیسے خیرات کرنا ذلت سے بچنا دوسرے کی وجہ سے اپنی ذات پر تکلیف برداشت کرنا وغیرہ اور ناپسند کرتاہے حقیر اخلاق وعادتوں کو جیسے پست ہمتی دینی امور میں ۔
۸: ۔بیشک صدقہ بجھا تاہے اپنے اہل سے یعنی صدقہ کرنے والے سے گرمیٔ قبرکو اور ضرور سایہ حاصل کریگا مسلمان اپنے صدقہ کے سایہ میں قیامت کے روز، یعنی صدقہ کی برکت سے قبرکی گرمی دور ہوتی ہے اور قیامت کے دن سایہ میسّر ہوگا۔
۹:۔ تحقیق اﷲ تعالی کے خاص بندے ہیں، جنکو اس نے خاص کیاہے لوگوں کی حاجتوں کے پورا کرنے کے لئے ،اور محتاج ومضطر ہوتے ہیں ان کی طرف لوگ اپنی حاجتوں میں، یعنی لوگ مجبور ہو کر ان کے پاس جاتے ہیں اور حق جلّ شانہ نے ان حضرات کو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے منتخب فرمالیا ہے ،یہ لوگ حاجتوں کے پورا کرنے والے امن پانیوالے ہیں اﷲ کے عذاب سے ۔
۱۰ : ۔خرچ کر،اے بلال، اور مت اندیشہ کر عرش کے مالک سے کمی کا ،یعنی مناسب موقعوں پر خوب خرچ کرو ،تنگی کا اندیشہ حق تعالی سے نہ کرو ،اس جگہ عرش کی مالکیت اﷲ تعالی کی خاص طور پر فرمائی گئی ،اگرچہ وہ تمام چیزوں کا مالک ہے، سو یہ خصوصیت اسلئے فرما ئی گئی، کہ عرش نہایت عظیم الشان مخلوق ہے، پس اسکو ذکر میں خاص کیا اور بتلادیا کہ جس ذات کے قبضہ ٔ قدرت میں ایسی عظیم الشان چیزہے اور وہ ایسی بڑی چیز کا مالک ہے ،تو ا سے تنگی کا اندیشہ نہ ہوناچاہیئے ،کیا یہ گمان ہوسکتاہے کہ ایسا بادشاہ اپنے کسی بندے کو دو روٹی نہ دیگا، ہرگز یہ گمان نہیں ہوسکتا اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے ،کہ بیحد ہر شخص خرچ کرڈالے اور پھر پریشان ہو اور گھبرائے ، غرض یہ ہے کہ جو لوگ دل کے پختہ ہیں اور صبر کی ان میں پوری قوّت ہے، تو وہ جس قدر چاہیں ،نیک کاموں میں صرف کریں، کیونکہ وہ تکلیف سے پریشان نہیں ہوتے ،اچھی طرح سمجھتے ہیں ،کہ جو قسمت میں لکھا ہے، وہ تو ہم کو ضرور ملے گا، خیرات سے کمی نہ ہوگی ،بلکہ برکت ہوگی تو ایسی ہمّت کی حالت میں بشرطیکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو، ان کو اجازت ہے اور ان کیلئے یہی چیز ہے، کہ ہرطرح کے نیک کاموں میں خوب صرف کریں ۔ اور جن کا دل کمزور ہے، صبر کی انمیں قوّت کم ہے، آ ج خرچ کردینگے کل کو تنگی سے پریشان ہونگے ،دل ڈاواں ڈول ہوگا اور نیت خراب ہوگی ،تو ایسے لوگ فقط ضروری موقعوں پر ،جیسے زکوۃ وصدقہ فطر وغیرہ اور مروّت کے موقعوں پر صرف کریں، اس سے کمی نہ کریں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ اوّل جناب رسول مقبول ﷺ کے ایک بار حضور کی خدمت میں تمام مال چندۂ اسلامی میں پیش کردیا۔ حضور نے فرمایا کہ کچھ گھر بھی باقی رکھاہے یا نہیں ، عرض کیا گھر تو اﷲ ورسول کا نام چھوڑا آیاہوں ، اور بس آپﷺنے وہ تمام مال قبول کرلیا ، کیونکہ حضرت خلیفہ اول نہایت دل کے پختہ اور باہمّت اور اعلی درجہ کے خداتعالی کی راہ میں مال وجان نثار کرنیوالے تھے، ان سے یہ اندیشہ نہ تھا کہ پریشان ہونگے اور ایک دوسرے صحابی رضی اﷲ عنہ نے تھوڑا سا سونا اﷲ کی راہ میں پیش کیا، آپﷺنے قبول نہ فرمایا اس وجہ سے کہ وہ کمزور دل کے تھے ۔اور ا س قدر باہمّت نہ تھے، جیسے کہ حضر ت ابوبکر ؓ تھے )۔
۱۱: ۔ ایک سائل ایک عورت کے پاس اس حالت میں آیا کہ اس عورت کے منہ میں لقمہ تھا ،سو اس عور ت نے وہ لقمہ منہ سے نکالا او را س سا ئل کو دیدیا ،(اسکے پاس او رکچھ دینے کو نہ تھا، اسلئے ایسا کیا) پھر تھوڑی ہی مدت میں ایک لڑکا ،اس عورت کے پیدا ہوا ۔پھر جب وہ لڑکا کچھ بڑاہوا،تو ایک بھیڑیا آیا او ر اس کو اٹھالے گیا، پس نکلی وہ عورت دوڑتی ہوئی بھیڑئیے کے پیچھے، اورکہتی ہوئی میر ا بیٹا میرا بیٹا میرے بیٹے کو بھیڑیا لے گیا، جو مدد کرسکے اس کی مدد کرے ،سو حکم فرمایا اﷲ تعالی نے ایک فرشتے کو کہ بھیڑیئے کے پاس جا ؤ،لڑکے کو اسکے منہ سے چھڑالے ،فرمایا (حق عز شانہ نے فرشتے سے )اسکی ماں سے کہہ کہ اﷲ تجھ کو سلام فرماتاہے او ریہ بھی کہ یہ لقمہ بدلہ تمھارے اس لقمے کا ہے، دیکھو صدقہ کی یہ برکت ہوئی کہ لڑکا جان سے بچ گیا اور ثواب بھی ہو ا۔
۱۲ :۔ نیکی کی جگہ بتلانے والا مثل نیکی کرنے والے کے ثواب میں ہے، ،یعنی جو شخص خود کوئی حسن سلوک نہ کرے ،مگر اہل ضرورت کو ایسی جگہ کا پتہ بتلادے، یا اسکی سفارش کردے، جہاں اسکا کام ہوجائے، تو اس بتلانے والے کو مثل اس نیکی کرنے والے کے ثواب ملے گا، جو خود اپنی ذات سے کسی کی مددکرے ۔
۱۳:۔ تین آدمی تھے جن میں سے ایک کے پاس دس دینار تھے، سو صدقہ کردیا اس نے ان میں سے ایک دینار ۔اور دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے ۔ سو صدقہ کردیا اس نے اسمیں سے ایک اوقیہ ، تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے، سو صدقہ کردیئے اس نے ان میں سے دس اوقیہ ،تو یہ سب لوگ ثواب میں برابر ہیں، اسلئے کہ ہر ایک نے دسواں حصّہ اپنے مال کا خیرات کیاہے، یعنی اگرچہ بظاہر خیرات ان میں سے بعضوں نے زیادہ کی ہے اور بعض نے کم ،مگر حق تعالی تو نیت پر ثواب دیتے ہیں ۔چونکہ ہر ایک نے اپنے مال کے اعتبار سے دسواں حصہ خیرات کیا، اسلئے سب کو برابر ثواب ملے گا ۔
۱۴: ۔بڑھ گیا ایک درہم ایک لاکھ درہم سے ، ایک شخص ہے کہ اسکے پاس دودرہم ہیں، ان میں سے ایک درہم اس نے خیرات کردیا ۔ اور دوسرا شخص ہے کہ اسکے پاس بہت سا مال ہے، پس اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کردئے، یعنی دونوں کے ثواب میں یہ فرق ہوا ، پہلا شخص باوجود تھوڑا خیرات کرنے کے ثواب میں بڑھ گیا ،کیونکہ اپنا آدھا مال اس نے خیرات کردیا ۔ اور دوسرے نے اگر چہ ایک لاکھ صدقہ کئے، لیکن چونکہ یہ اسکے مال ِکثیر کے مقابلہ میں آدھے سے کم تھا، اسلئے اس کو پہلے شخص سے کم ثواب ملا ۔حق تعالی کی کیسی رحمت ہے، اس کی قدر کرو جناب رسول مقبول ﷺ نے کبھی سائل سے انکار نہیں فرمایا ۔اگر ہوا دید یا ،ورنہ وعدہ فرما لیا کہ جب حق تعالی دیگا اس وقت تم کو دینگے اور تاحیات آپ ﷺنے اور آپ ﷺکے اہل ِبیت نے دوروز برابر بھی شکم سیر ہوکر جو کی روٹی بھی نہیں کھائی ۔ کیسی بے رحمی کی بات ہے کہ باوجود گنجائش کے اپنے بھائی مسلمانوں کی مدد نہ کرے اور خود چین کرے ۔
۱۵: ۔ اﷲ کا ہدیہ مومن کے لئے سائل ہے اس کے دروازے پر ،ظاہرہے کہ ہدیہ اچھی طرح قبول کرنا چاہئے ،خصوصاً اﷲ تعالی کا ہدیہ پس سائل کی خوب خدمت کرنی چاہئے ۔
۱۶: صدقہ کرو اور اپنے مریضوں کی دوا کرو صدقہ کے ذریعہ، اس لئے کہ صدقہ دفع کرتاہے مرضوں کو اور بیماریوں کو اور وہ زیادتی کرتاہے تمہاری عمروں اور نیکیوں میں ۔
۱۷: ۔اﷲ عزّوجل کاکوئی ولی نہیں پیدا کیاگیا ،مگر سخاوت اور اچھی عادت پر، یعنی اﷲ کے دوستوں میں سخاوت اور اچھی عادت ضرور ہوتی ہے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 821529 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More