اسلحے کی دوڑ یا امن اور ترقی

 جمشید خٹک

دُنیا میں ایک طرف اسلحے کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں۔دوسری طرف بھوک وافلاس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک طر ف جنگ کے سائے منڈلارہے ہیں۔دوسری طرف امن کی باتیں ہورہی ہیں۔انسانی ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے ۔کہ آج کا انسان بھوک و افلاس مٹانے کی بجائے جنگ کی تباہ کاریوں کو دعوت دیتا ہے ۔غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کے باوجود غریب ممالک غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ترقی کے ثمرات غربت کے مارے غریب ممالک کے عوام کو نہیں پہنچتے ۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دُنیا کے ٹاپ دس ممالک امریکہ ، چین ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، جاپان ، بھارت ، سعودی عربیہ ، جرمنی اور برازیل کا کل ڈیفنس بجٹ سال 2012 میں 1.29 کھرب ڈالر رہا ۔ جبکہ پوری دُنیا میں ڈیفنس پر خرچ ہونے والی رقم کا 74 فیصد بنتا ہے ۔ڈیفنس پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلا نمبر امریکہ کا ہے ۔ ڈیفنس پر دُنیا کے کل اخراجات کا 41 فی صد بنتا ہے ۔بھارت کے ڈیفنس پر اخراجات 48.9 ارب ڈالر ہیں ۔جو کہ دُنیا کے ڈیفنس پر اُٹھنے والے کل اخراجات کا 2.8 فی صد بنتا ہے ۔سعودی عربیہ کا ڈیفنس پر اُٹھنے والے اخراجات سعودی عربیہ کے کل اخراجات کا 8.7 فی صد بنتا ہے ۔جو سب سے زیادہ ہے ۔

امریکہ نے سال 2012 میں کل 8760 ملین ڈالر کا اسلحہ بر آمد کیا ۔جبکہ روس نے 8003 ملین ڈالر ، جرمنی نے 193 ملین ڈالر ، فرانس نے 1139 ملین ڈالر ، چین نے 1783 ملین ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا ۔دیگر اسلحہ بر آمد کر نے والے ممالک میں برطانیہ ، اٹلی ، اسرائیل ، سویڈن ،سپین ، کینڈااور ساؤتھ کوریا شامل ہیں ۔برطانیہ نے چار برسوں میں سعودی عربیہ کو 4 ارب پاؤنڈز کا اسلحہ فروخت کیا ۔دُنیا میں اسلحہ کی خریداری کے لحاظ سے بھارت پہلے نمبر پر ہے ۔سال 2010 میں بھارت نے 3337 ملین ڈالر کا اسلحہ در آمد کیا ۔جبکہ پاکستان نے 787 ملین ڈالر اسلحہ درآمد کیا ۔دیگر اسلحہ در آمد کرنے والے ممالک میں آسٹریلیا ، جنوبی کوریا ، امریکہ ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عربیہ ، الجیریا اور سنگاپور شامل ہیں ۔

اسلحہ بر آمد کرنے والے ممالک میں دُنیا میں امریکہ سر فہرست ہے ۔امریکہ اسلحے کا سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک ہے ۔جو بھی اسلحہ بناتا ہے ۔وہ دوسرے ممالک میں استعمال کے لئے فراہم کرتا ہے ۔یا خود دوسرے ممالک میں استعمال کرتا ہے ۔ 1979 سے لیکر افغان سر زمین پر مختلف اوقات میں کسی نہ کسی شکل میں جو بھی اسلحہ استعمال ہوا۔چاہے وہ مغرب سے ہو یا شمال مغرب ۔ یہ جنگ کیلئے اور خون ریزی کیلئے استعمال ہوا۔اور آج تک استعمال ہورہا ہے ۔اس جنگ کے نتیجے میں خون ریزی کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل بھی اور پیداواری ذرائع بھی نیست و نابود ہوئے ۔تجزیہ نگار یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں ۔کہ دو سپر پاورز (امریکہ ، سوویت یونین ) کے افواج اس غریب خطے میں کیوں نبردآزما ہیں ۔جبکہ یورپ کے ایک ہی منقسم ملک میں ( مشرقی اور مغربی جرمنی ) میں موجود ہونے کے باوجود پرامن اور بقائے باہمی کے اُصولوں کے پابند رہے ۔یورپ کو امن کا گہوارہ بنائے رکھا ۔کیونکہ یورپ کی قومی قیادتیں جانتی تھیں ۔جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کا تجربہ حاصل کر چکے تھے ۔دوسری طرف آبنائے بیرنگ کے آرپار دونوں سپر پاورز جغرافیائی طور پر انتہائی قریب تھے۔ مگر موجود ہ زمانے کے جنگی تباہیوں سے بچنے کی خاطر جنگ سے گریز کرتے رہے ۔

جبکہ دوسری طرف دُنیا کی 7 ارب کی آبادی میں 1.4 ارب لوگ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں ۔یہ 1.4 ارب لوگ صرف ایک ڈالر کی روزانہ آمدنی سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں ۔ 22000 بچے روزانہ بھوک اور افلاس کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔امریکہ اور یورپی یونین کی آبادی سے زیادہ لوگ تقریباً 870 ملین کے پاس خوراک نہیں ہے ۔کل دُنیا کے 2/3 حصہ بھوک افلاس کی زندگی گزارنے والے صرف 7 ممالک میں رہتے ہیں ۔جن میں بنگلہ دیش ، چین ، کانگو ، ایتھوپیا ، بھارت ، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں ۔کئی ممالک جنگ وجدل کے باعث قدرتی وسائل کے باوجود انتہائی غربت کا شکا رہیں۔جن میں کانگو ، لائبیریا ، زمبابوے ، برونڈی ، ایرٹیریا ، سنٹرل افریقین ریپبلک ، نائیجیر،سری الیون ، ملاوی ، ٹوگو ، مڈاغسکر ، افغانستان اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں ۔جن کا قومی آمدنی بالترتیب اس طرح ہے ۔ فی کس آمدنی 348 ڈالر، 456 ڈالر، 487 ڈالر ، 615 ڈالر ، 375 ڈالر ، 768 ڈالر ، 771 ڈالر ، 849 ڈالر ، 860 ڈالر ، 899 ڈالر ، 934 ڈالر اور 956 ڈالر ہے ۔جبکہ امریکہ نے 2001 سے لیکر 2013 تک تقریباً 641 ارب ڈالر ڈیفنس پرخرچ کئے ہیں ۔جبکہ پوری دُنیا میں سال 2011 تک فوجی اخراجات کی مد میں 1.63 کھرب ڈالر خر چ کیے گئے ہیں ۔

دُنیا کے ممالک کے قول وفعل میں بڑا تضاد ہے ۔ایک طرف وہ سیکورٹی اور امن کی خاطر فوجی اخراجات میں اضافہ کررہے ہیں ۔ بین الاقوامی یا علاقائی گرفت کو مضبوط کرنے کیلئے اسلحے کی دوڑ اور فوجی اخراجات میں اضافہ تو جاری ہے ۔لیکن اُسی مناسبت سے غربت کو ختم کرنے کیلئے کوششیں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دُنیا میں امن قائم کرنے کا ادارہ اقوام متحدہ کا فنڈ دُنیا کے فوجی اخراجات پر خرچ کی جانیوالی رقم کا تقریباً 1.8 فی صد ہے ۔

اسلحے کی گھن گرج جاری ہے ۔غربت میں اضافہ ہورہا ہے ۔خوراک میں کمی واقع ہورہی ہے ۔اقوام متحدہ نے سال 2013 کیلئے خوراک کی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔خدشات یہ ظاہر کیے جارہے ہیں ۔کہ تمام دُنیا میں خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوگا۔اُنہوں نے دُنیا کو بتا دیا ہے ۔کہ خوراک کی راشننگ اور متبادل ذرائع سے 2013 میں اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے غربت میں ا ضافہ ہوگا۔محدود وسائل رکھنے والے ممالک کے عوام کو خوراک مہیا کرنے میں ناکام رہینگے ۔خوراک کا سٹاک جو آج سے 10 سال پہلے 104 دنوں کیلئے رکھا جاتا تھا۔اب یہ سکڑ کر 74 دن تک آپہنچا ہے ۔جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے ۔

خوش قسمتی سے پاکستان خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہے ۔بلکہ چاول کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے ۔صرف چاول کے برآمد سے سالانہ تقریباً 2 ارب ڈالر زرمبادلہ کماتا ہے ۔پاکستان کے مشہور فصلوں میں چاول، گندم ، گنا ، کپاس ، پیاز ، پھلوں میں کینو ، آم ، کھجور اور دوسرے کئی نقد آور اجناس شامل ہیں۔جبکہ دُنیا کے کئی غریب ممالک اس وقت خوراک کی کمی کے شکار ہیں۔دُنیا میں اس وقت تقریباً 2 ارب لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔روس ، یوکرائن اور قازقستان میں خشک سالی کی وجہ سے پیداوار میں بہت حد تک کمی آئی ہے ۔ آسٹریلیامیں بھی ناموافق موسم کا سامنا ہے ۔بھارت میں بھی بارشوں میں نمایاں کمی آئی ہے ۔امریکہ میں سال 2011 میں جوار کی پیداوار میں کمی آئی ۔ 2012 میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ورلڈ فوڈ انڈیکس 2011 کے مقابلے میں اپریل 2013 کو 2155 تک آگے چلا گیا ۔غلے کی قیمتوں کا انڈیکس 2010 میں 182 سے بڑ ھکر 2013 میں 234.6 تک پہنچ گیا ہے ۔

بد قسمت وہ اقوام ہیں ۔ جن کی زمین پر جنگ لڑی جاتی ہے ۔شکست کی صورت میں جنگ کی تباہ کاریاں اُس قوم کا مقدر بن جاتی ہیں ۔جنگ بذت خود موت کی علامت ہے ۔تباہی ہے ۔ چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو۔جنگ سے گریز امن اور ترقی کا ضامن ہے ۔ترقی یافتہ انسانی حقوق کا واویلہ مچانے والے واقعی اپنے دعوؤؤں میں سچے ہیں ۔تو خدا را غریب ممالک پر نہ اسلحہ بیچیں اور نہ اُن ممالک میں استعمال کریں ۔تب اُن کی قو ل وفعل میں یگانگت پر یقین کیا جا سکتا ہے ۔تشدد کے ردعمل میں تشدد تشدد ہی کو جنم دیتا ہے۔بلکہ جوابی
تشدد ابتدائی تشدد سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 2 Articles with 5902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.