کسمپرسی میں گھِرے یہ سرکاری ملازمین

پاکستان کے سرکاری ملازمین کا کچھ حصہ آج کل جن پریشانیوں سے دوچارہیں،جس طرح وہ مصیبت کی زندگی بسرکر رہے ہیں،وہ سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے،آخرکو یہ ملازمین اپنی زندگی کے نازک موڑسے گزر رہے ہیں۔ہرسرکاری ملازم پراضطراب ومایوسی کاعالم ہے،قسم قسم کی خبریں روز ان کے ہوش اُڑا نے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔کہیں دانستہ طور پرظلم وستم کی چکی میں پیس کراس کا امتحان لیاجاتاہے ،توکبھی اس کی تنخواہوں کو روک کر تواب عیدکے خوشیوں کوپھیکی کرنے کے لئے اضافی ادائیگیاں بھی نہیں کی جارہی ہیں۔ اور رونا وہی پراناہے کہ فنڈ نہیں مل رہاہے اس لئے ادائیگی نہیں کی جا سکتی یا پھریہ کہاجاتاہے کہ انتظار کریں فنڈ آتے ہی ادائیگی کر دی جائے گی۔ایسے کئی ادارے ہیں جہاں کئی کئی مہینوں سے ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔یا پھر آئندہ مہینوں میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔پاکستان اسٹیل ملز، بلدیہ عظمیٰ کراچی، شہر کے کئی سرکاری جامعات جن میں خاص طور پر جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی شدیدمالی بحران کا شکارہیں۔مگر ایچ ای سی مطلوبہ گرانٹ فراہم نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کے ملازمین کوشدید پریشانیوں کاسامناہے۔آج انیسواں روزہ گزررہاہے اور ملازمین لیو انکیشمنٹ سے بھی محروم ہیں۔ان ملازمین کو عیدکے موقع پرشدید مالی نقصان سے دو چارہوناپڑرہاہے۔لیکن ابھی تک حکومت کے کسی بھی اربابِ اختیار نے اس طرف توجہ دینابھی ضروری نہیں سمجھا۔بلکہ زخم پرمرہم کے بجائے مرچ اور نمک کاچھڑکاؤ کیاجا رہاہے۔ان ملازمین کومعاشی طورپرکمزور کیاجارہاہے جوپہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پِسے ہوئے ہیں۔انہیں ذہنی و دماغی طورپرٹینشن سے نوازا جارہاہے۔کیا ایسے ہی ادارے چلائے جاتے ہیں ۔بجٹ میں خرچ کے حساب سے گرانٹ دیناحکومت کی ذمہ داری بنتی ہے مگریہاں بھی کٹوتی کاکھیل کھیلاجارہاہے۔جس سے ادارے تو کمزور ہو ہی رہے ہیں ساتھ میں ملازمین دشمنی بھی کھل کرسامنے آ جاتاہے۔دراصل قصورہمارا ہی ہے کہ ہم سب نے ایسے افراد کواپنارہبربنالیاہے اور ایسے پیشواکا انتخاب کرلیاہے جو عصرِ حاضر کی سیاست کے ماہرتوضرور ہیں مگر ان کا عوامی سطح پر کوئی کام سے واسطہ نہیں ہے۔بلا مبالغہ یہ کہنادرست ہے کہ ان میں قائدانہ بصیرت نہیں اور صحیح معنوں میں عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ان کی دلچسپی نہیں ہے۔

آج اس قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نام نہاد لیڈران نے اجتماعیت کا شیرازہ بکھیرکررکھ دیاہے۔قوم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری پڑی ہے۔ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد اور شخصی شہرت کو اوّلیت کا درجہ دے رہاہے۔لیکن آج یہ عوام اور یہ سرکاری ملازمین ان تمام آزمائشوں کے باوجوداپنی زندگی اُسی کسمپرسی کے ساتھ گزارنے پرمجبورہے۔ وہ اپنی کشتیٔ حیات کوبس آگے ڈھکیل ہی رہاہے۔ایسے نازک حالات و دور میں ضرورت ہے ایسے افراد کی جو سیرت و کردار کے آئینہ دار ہوں،اخلاق و عادت کی بلندیوں پرفائز اور ایمان و یقین سے سرشار ہوں، ایثار و قربانی کے جذبے اور سپہ گری و سپہ سالاری سے متصف ہوں اور ایسے قائد کی جوہمارے تشخص کو دوبارہ بحال کر سکیں۔ہمارے مسائل حل کر ا سکیں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ان ملازمین کی داد رسی کریں جو خدا داد قابلیتوں و صلاحیتوں کو ترقی و عروج کی راہ پرلگاسکتے ہیں۔مگر اداروں میں افسران سے لے کر بڑے بڑے مگرمچھوں تک سب ہی ان نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین کو ڈسنے کے دَر پر ہیں۔ اورنا انصافیاں ہیں کہ جیسے ان کے مقدر میں لکھ دی گئیں ہیں۔آج قوم کا ہر فرد یہ سوچنے پرمجبورہے کہ:
بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پہ آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

عروج و زوال زندگی کاحصہ ہے اس لئے یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ دھرن تختہ خدا چاہے تو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔دیکھیں وقت سرپرآسمان کی طرح پھیلا ، موٹی موٹی آنکھیں ٹِکائے ،ہر گزرتے واقعات کو گھور رہا ہے اور من ہی من میں دھونس دے رہا ہے کہ کر لو جتنی من مانی کرنی ہے میں بتا ہی دوں گاتمہاری اوقات کیاہے۔یہ دھونس غلط بھی تونہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اچھے اچھوں کو ان کی اوقات بتائی ہے۔کیا نمرود، کیا فرعون سب کے سب وقت کے آگے بے بس رہے ہیں۔وقت کی کمان قدرت کے ہاتھ میں ہے۔سرکاری ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھاگیاہے کہ جیسے انہیں اپنی آنکھوں میں کسی خواب کو سجانے کا شوق ہی باقی نہ بچے۔ان کے کلیجے چھلنی کرنے کے لئے ان کا معاشی قتل کیاجارہاہے۔ان کے اجرت روک کر ان کی تنخواہیں روک کر، عید کے پُر مسرت موقعے پر ان کی اضافی ادائیگیاں روک کر، کس کس معاملے کا ذکر کیا جائے یہاں تو ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا دکھائی دیتاہے۔کوئی فریاد سننے والا نہیں، کوئی داد رسی کرنے والا نہیں،بس اﷲ کے آسرے یہ لوگ اور یہ عوام بیٹھی ہے کہ کبھی تو ان کی بھی سنی جائے گی۔یہ لوگ شایدبھول گئے ہیں کہ کمبخت سنگھاسن کی کرسی عجب سا مزاج رکھتی ہے اور ایک انصاف کی دیوی ہے،جو آنکھوں پر پٹی باندھے ہمہ وقت کرسی کے پائے سے لگی رہتی ہے۔سب کا احتساب اﷲ رب العزت ہی کرنے والا ہے۔وہ کہتے ہیں نا کہ: ’’جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے کا آستیں کا ‘‘

ہمارے ادارے ایسالگتاہے کہ تباہی کی طرف جا رہے ہیں مگر اب بھی کسی کے سرپرجوں نہیں رینگ رہاکہ ملکی اداروں کی سلامتی کے لئے کچھ کیاجائے۔انہیں تباہی و بربادی کی طرف جانے سے بچایاجائے۔بس ایک رُوٹین ہے جو چل رہاہے اور سب اچھاہے کا فارمولا بھی خوب چل رہاہے۔یعنی ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سرکار بدل گئی مگر حالات نہیں! ادارے ملازمین سے چلتے ہیں بلکہ ترقی کرتے ہیں مگر جب اداروں کے ملازمین کو انصاف مہیا نہیں کیاجاتاتو یہ لوگ دل برداشتہ ہوتے ہیں اور اپنی کسمپرسی کا روناروتے ہیں۔ اور یہ سہی بھی ہے کہ تنخواہ دار ملازمین کے لئے سب کچھ ان کی تنخواہ ہی ہوتی ہے۔اُسی تنخواہ کے ملنے سے ان کے اہلِ خانہ کی زندگیاں بھی جُڑی ہوتی ہیں۔ان کے بچوں کی خوشیاں بھی اُسی تنخواہ سے جُڑی ہوتی ہے۔کیا اب بھی معاملہ صاف نہیں ہواکہ اجرت وقت پرملنا ہی ان کی کفالت میں پلنے والوں کے لئے خوشی کا باعث ہونگے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنے میں بھی ان کی تنخواہ ہی شریکِ اوّل ہوتی ہیں۔تو ارباب کو یہ خیال کب آئے گا کہ اپنے ملک کے اداروں کو اور اداروں میں کام کرنے والوں کو ان کا جائزمقام دیاجاناکتنا ضروری ہے۔مگر ایک امیر کیا جانے تنخواہ دار ملازم کی بے کسی و بے بسی ۔اور جب انہیں اس بے کسی و بے بسی کے معنی کا ہی پتہ نہ ہو تواس کا حل وہ کیسے تلاش کر سکتاہے۔خدا ان ارباب کو سچ سننے اور سچ پڑھنے اور پھر پڑھ کر سب کے حقوق کو ادا کرنے کی ہمت و صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 340109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.