جج صاحبان اور ٹیچرز

 کچھ عرصہ قبل جیو ٹی وی پرچلنے والے ہمارے مُلک کے مشہور و معروف گُلوکار جناب شہزاد رائے صاحب کے پروگرام’’چل پڑھا‘‘کے نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس صاحب کے حُکم پرجج صاحبان نے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا رُخ کِیا ،اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں بھی صرف پرائمری اور ہائی اسکول پہ چھاپے مارنا شروع کِئے،پیچھے سے ملی ہوئی انسٹرکشنز کے حوالے سے تو جج صاحبان ہی بتا پائیں گے کہ اُنہیں کیا کیا انسٹرکشنز دی گئیں تھی، لیکن جج صاحبان نے اسکولوں کی بلڈنگس پر کرتے دھرتے لوگوں کے قبضے چُھڑوانے ، ایس ایم سی کے پیسوں کی چانچ پڑتال کرنے (جو کے سال ڈیڑھ سال میں بہ مُشکل بیس سے بائیس ہزار ملتے ہیں)،اورٹیچرز کی حاضری چیک کرنے سے لیکر ٹیچرز کی موٹر سائیکلز وغیرہ کواسکول میں ہی چالان کرنے،اوراُنہیں ڈرانے دھمکانے تک کی ڈیوٹی سر انجام دی۔

جج صاحبان کی تو جیسے اﷲ نے سُنی،ایسا لگ رہا تھا کہ جج صاحبان کوئی برسوں سے کورٹ کی حدود سے باہر نکلنے کو ترس رہے تھے۔ جج صاحبان لگ بھگ صُبح آٹھ بجے فیلڈ میں نکلتے اور شام سات آٹھ بجے تک فیلڈ میں پائے جاتے۔قانون کے رکھوالوں نے قانون توڑنے کی حد کر رکھی تھی،کسی بھی اسکول کے اسٹاف کو یہ کنفرم خبر نہ دی جاتی کے آج جج صاحب کہاں کا دورہ کریں گے،لیکن حُکم صادر کر دیا گیا کے کوئی بھی اسکول ٹیچرشام پانچ بجے سے پہلے اسکول سے باہر نہ جائے،حُکم جج صاحبان کا تھا، تو جناب جج صاحبان کے سامنے ہمارے مُعاشرے میں ایک معمولی ٹیچر کیا حیثیت رکھتا ہے؟حالانکہ اُنہیں اِس مقام پر پُہچانے والے بھی یہی معمولی ٹیچرز ہی ہیں،لیکن طاقت آنے کے بعد یہ باتیں کون سوچتا ہے؟

خیرسلسلہ یونہی چلتا رہا،اسکول ٹائم صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دوپہردو بجے تک ہونے کے باوجودبھی ٹیچرزپانچ بجے بلکہ چھ بجے تک بھی اسکولوں میں بیٹھے رہتے،اور پھر اُسکے بعد بھی ڈرتے ڈرتے گھر جاتے کہ کہیں پیچھے سے جج صاحب آکر اُنہیں سسپینڈ نہ کردے۔کچھ ٹیچرز کی ڈیوٹی اپنے ہی شہر میں تھی توکچھ کی شہر سے باہر ،کچھ ٹیچرز کے پاس اپنی سواری تھی تو کچھ کے پاس نہیں،شہر سے باہر ڈیوٹی کرنے والے ٹیچر کے لیئے دونوں کنڈیشنز میں مُشکل کا سامنا تھا،اگر کسی کے پاس اپنی سواری تھی تو وہ چھ بجے کے بعدسارا راستہ ڈرتے ڈرتے گھر پُہنچتا کے کہیں راستے میں کوئی واردات نہ ہو جائے ، موٹر سائیکل وغیرہ چھین نہ لی جائے،اور جن کے پاس اپنی سواری نہیں تھی تو اُن کے لیئے یہ مسئلہ بھی عام دِکھنے میں آیا کے چھ بجے کے بعدگھر پُہنچنے کیلئے اُنہیں سواری مُیسّر نہیں تھی۔ میرے خیال میں وہ دن ٹیچرز کیلئے اُنکی ساری عُمر کی نوکری میں سب سے مُشکل ترین دن تھے،اُنکی کی کسی جائز وجہ کوبھی نہیں سُنا جا رہا تھا،جج صاحبان کا جب جو دل کرتا وہ کررہے تھے،ظاہر ہے ۔۔۔، جج صاحبان جو ٹھہرے،اور جج صاحبان کو کون بول سکتا تھا، وہ تو اُس وقت بادشاہ تھے،جج صاحبان نے اپنی طاقت دِکھانے کی حد کر رکھی تھی،لگ بھگ موبائل کورٹ لگائی ہوئی تھی،اسکول میں کھڑی ٹیچرز کی موٹر سائیکلزکو چالان کرنا،اوراُنہیں اسکول کی باؤنڈری سے باہر کھڑی کروانے کا حُکم دے دینا،بلاجواز ٹیچرز سے بد اخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آنا،اسکول کے سینیئرترین ٹیچرز کو اتفاق سے جج صاحبان کے کسی سوال کا صحیح جواب نہ دینے پریا ایس ایم سی (اسکول مینجمنٹ کمیٹی)کے حساب میں دو چار ہزار روپے کے اتفاقی فرق آجانے پرموبائل میں بِٹھاکرپورے علائقے کا چکر لگوانا، اور اُسی علائقے میں اُنہیں بے عزت کرنا کہ جہاں اُن ٹیچرز نے زندگی بھر اپنی خدمات پیش کی ہوں،اورجہاں اُن ٹیچرز کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ سب اُ ن دنوں میں جج صاحبان کا معمول بن گیا تھا۔

خِلافِ معمول دو بجے کے بجائے چھ بجے تک ڈیوٹی کرتے رہنے سے لیکرکسی ٹیچر کی بے عزتی ہوجانے تک سے جج صاحبان کو کیا فرق پڑنا تھا․․․․․؟وہ تو اپنا کام جائز اور ناجائز طریقے سے سر انجام دے رہے تھے۔

میں اِس معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا،جس نے جو بھی کِیااور جیسا بھی کِیاچاہے وہ جج صاحبان ہوں یا ٹیچرز،وہ اپنا اپنا حساب دُنیا اور آخرت میں خُد دیں گے۔

لیکن چلوایک لمحے کو ہم مان لیتے ہیں کہ ٹیچرزپڑھاتے نہیں ہیں یا ٹھیک سے ڈیوٹی نہیں کرتے، چلو ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کے ٹیچرز سال ڈیڑھ سال میں ایس ایم سی(اسکول مینجمنٹ کمیٹی)کی آنے والی رقم ،میں پھر عرض کرتا ہوں کہ جوکہ مُشکل سے بیس سے بائیس ہزار ہوتی ہے ،کی کرپشن کرتے ہیں۔لیکن میرا ایک سوال ہے۔۔۔۔۔
کیا پولیس نے سارے مُجرم پکڑ لیئے ہیں ؟
کیاواپڈا والوں نے پورے مُلک میں بجلی پُہنچا دی ہے، اور لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے؟
کیا ریوینیوڈپارٹمنٹ نے پورے مُلک کے پلاٹوں کے سب معاملات ٹھیک کر دیئے ہیں؟
کیااریگیشن ڈپارٹمنٹ والوں نے سارے مُلک کا نہری نظام ٹھیک کردیا ہے اور کیا ہر جگہ ٹھیک طریقے سے پانی پُہنچا دیا ہے؟
کیا اینٹی کرپشن والوں نے کرپشن کو مُلک سے باہر نِکال پھینکا ہے؟
اور کیا خُد اِن جج صاحبان نے عدالتوں میں بیٹھ کر سب کو انصاف دے دیا ہے؟

میرے خیا ل میں جتنی کرپشن اُوپر درج کیئے ہوئے ڈپارٹمنٹس اور ایسے کئی ڈپارٹمنٹس کہ جن کا نام میں نے درج نہیں کیاہے ،کے ایمپلائزمیں ہے۔۔۔،ٹیچر کم سے کم اُتنا کرپٹ نہیں ہے۔

اور میراخیال ہے کہ جن اربابِ اِختیار نے ٹیچرز کی انکوائری کرنے کا حُکم جاری کِیا تھا،اُنہیں اب ہمارے اُن ڈپارٹمنٹس اوراُن ڈپارٹمنٹس کے ایمپلائیز کی انکوائری کرنے کا حُکم بھی جاری کرنا چاہیئے ،جن کا ذکر میں اُوپر کرچُکا ہوں،تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

Nadeem Gullani
About the Author: Nadeem Gullani Read More Articles by Nadeem Gullani: 13 Articles with 8625 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.