سٹی ٹریفک پولیس لاہور: کتنے پانی میں؟

فون کی بیل بجی، میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا دوست بولا، یار جلدی سے میرے پاس آؤ- میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگا خیریت ہے بھی اور نہیں بھی، میرے پاس آؤ گے تو ساری بات بتاؤں گا- میں ایک گھنٹہ بعد اپنے دوست کے ہوسٹل کے کمرہ میں پہنچا اور دیکھا کہ میرا دوست بہت نروس تھا، عجیب سے بےچینی، بےبسی اور پُرمژدگی اس کے چہرے سے صاف نظر آ رہی تھی، میں تاڑ گیا کہ میرے دوست نے کسی بات کو دل پر لگا لیا ہے- میرا یہ دوست علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس تھرڈ ائیر کا سٹوڈنٹ ہے، بہت ذہین اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور ہوسٹل میں رہائش رکھتا ہے- میں نے اسکے لٹکے ہوئے چہرے کی وجہ دریافت کی، اسی کی زبانی سنیے:

‘میں صبح کے وقت اپنی گاڑی میں جا رہا تھا اور اچھرہ چوک پر ٹریفک سگنل پر رکا- علامہ سرفراز نعیمی کی شہادت کے سوگ میں لاہور میں سرکاری چھٹی تھی اور سڑکوں پر ٹریفک برائے نام تھی- میں نے گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کی اور وہاں پر سائے میں کھڑے ریاض نامی ٹریفک وارڈن کے پاس گیا جو کہ بسوں، کاروں، مزدا٬ ویگنوں اور موٹر سائیکل سواروں اور خواتین کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا بالکل جیسے کسی گرلز کالج کے سامنے لفنگے ٹائپ لڑکے کھڑے ہو کر ‘نظارہ‘ کرتے ہیں- میں نے اس سے کہا کہ آج سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی کم ہے لیکن ٹریفک کے سگنلز کا وقت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے سگنلز پر رکی ہوئی گاڑیوں میں سوار افراد گرمی کی وجہ سے نڈھال ہیں، اور خوامخواہ ان کا وقت ضائع ہو رہا ہے لہٰذا برائے مہربانی آپ ٹریفک سگنل بند کرکے ٹریفک کو خود کنٹرول کریں- یہ سننا تھا کہ ٹریفک وارڈن غصہ میں آ گیا اور مجھے کہنے لگا کہ تم کون ہوتے ہو مجھ کو نصیحتیں کرنے والے، تمہاری کیا اوقات ہے جو مجھے ٹریفک قانون بارے بتا رہے ہو، اسی پر بس نہیں کی بلکہ مزدورں کے ہجوم میں اس نے مجھے زدوکوب کیا اور لوگوں کے سامنے گالیاں دیں- اس نے اپنی چالان بک نکالی اور مجھے کہنے لگا اپنی گاڑی کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس دکھاؤ- میں نے کاغذات دکھائے جو کہ مکمل اور درست تھے پھر بھی اس نے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے میری گاڑی کا چالان کردیا- مجھے ڈپریشن یہ ہے کہ بھرے چوک میں ٹریفک وارڈن نے جو میری بے عزتی کی ہے، جو میری عزت نفس کو مجروح کیا ہے، یہ بات میری برداشت سے باہر ہے، اسی بات نے میری نیند حرام کر رکھی ہے‘-

راقم الحروف نے اپنے دوست کو تسلی دی اور اس کی ڈھارس بندھائی اور یہ سوچتا ہوا واپس چلا آیا کہ یہ کیسی ٹریفک پولیس ہے جو کسی کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنا پسند نہیں کرتی، اپنی ‘سیلف‘ کی برقراری کے لیے شہریوں کی ‘سیلف‘ کا سرعام جنازہ نکال دیتی ہے- کسی کو سرعام سزا دینا، زدوکوب کرنا، ماردھاڑ کرنا، گالی دینا، بدتمیزی سے پیش آنا اور گھسیٹنا سراسر ‘نفسیاتی ٹارچر‘ کے ذمرہ میں آتا ہے جس سے جسمانی تکلیف کی بجائے زیادہ ‘روحانی تکلیف‘ ہوتی ہے جو کہ شخصیت کی تباہی کے مترادف ہے اور جو نہ ہی قانون میں جائز ہے اور نہ ہی انسانیت کا مذہب اخلاقیات اسکی اجازت دیتا ہے- یہ تو صرف ایک واقعہ ہے ابھی معلوم نہیں اس طرح کے کتنے واقعات شہریوں کے ساتھ روزانہ پیش آتے ہیں جو منظرعام نہیں آتے- بغور جائزہ لیا جائے تو عزت نفس کی مجروحی ہی انسان کو جرائم پر، منفی خیالات پر اکساتی ہے- وجہ یہ کہ بقول ماہرین نفسیات عزت نفس ختم ہو جائے تو انسان کے لیئے جرم و گناہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے-

ٹریفک وارڈنز سے قبل پولیس کانسٹیبلز ٹریفک پولیس کے فرائض سر انجام دیتے رہے تھے اور جن کے خلاف شہریوں کی طرف سے بہت سی شکایات ملتی رہیں اور ٹریفک بھی اکثر اوقات جام رہتی تھی- شکایات میں زیادہ تر رشوت اور بد تمیزی کی شکایات کی گئیں اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کو مدِنظر رکھ کر لاہور شہر میں ٹریفک وارڈنز کا نیا نظام نافذ کیا گیا-

سٹی ٹریفک پولیس لاہور کو پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ق لیگ نے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں متعارف کروایا اور تین ہزار سے زائد ‘ٹریفک وارڈنز‘ بھرتی کیے گئے- ان ٹریفک وارڈنز کی بھرتی کے لیے کم از کم تعلیم بی-اے کی شرط عائد کی گئی اور ان کی تنخواہیں اتنی مختص کی گئیں کہ ‘رشوت‘ کلچر کا خاتمہ کرنے میں مدد ملنے لگی- تربیت و ٹریننگ کے دوران بھی ٹریفک وارڈنز کو شہریوں سے محبت، خلوص، اور عاجزی سے پیش کرنے کی تلقین و تربیت دی گئی اور خصوصی لیکچرز کا بھی انتظام کیا گیا، عوام میں ٹریفک شعور بیدار کرنے کے لیے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز قائم کیا گیا اور ہر موقع پر حُسن اخلاق کو فوقیت دی گئی-

سٹی ٹریفک پولیس کا موازنہ سابقہ ٹریفک پولیس سے کیا جائے تو بحثیت مجموعی اچھا تاثر ہی برآمد ہوتا ہے- عوام کی مشکلات و شکایات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور ساتھ ہی ٹریفک کے اژدہام کو بھی سٹی ٹریفک پولیس بہ احسن رواں دواں رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہے- یہاں پر اس کارکردگی کی وجوہات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ آخر ٹریفک وارڈنز سسٹم سابقہ ٹریفک سسٹم سے کیونکر بہتر واقع ہوا ہے؟ اس ضمن میں سب سے پہلی بات ٹریفک وارڈنز کی اچھی تنخواہیں ہیں جو کہ سابقہ ٹریفک اہلکاروں کو نہیں ملتی تھیں- دوسری وجہ تین ہزار ٹریفک وارڈنز کی کھیپ بھی ایک بنیادی وجہ ہے جس سے سٹاف کی کمی کی شکایت دور ہو جاتی ہے جو کہ سابقہ ٹریفک سسٹم میں نہیں تھی- تیسری وجہ بی اے تعلیم کی شرط قرار دی جا سکتی ہے جس کے نتیجہ میں فرض شناس، خوش اخلاق و خوش گفتار ٹریفک وارڈنز دستیاب ہوئے- اور یہ بات پہلے ٹریفک نظام میں نہیں تھی- چوتھی وجہ اچھی ٹریننگ و تربیت ہے- اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی اچھی تنخواہیں، زیادہ سٹاف، سہولیات اور بہترین ٹریننگ و تربیت سابقہ ٹریفک پولیس سسٹم کو مہیا کی جاتی تو کیا اس کا ‘امیج‘ بہتر نہ ہو جاتا؟ لازمی طور پر ایسا ہی ہوتا- وجہ یہ کہ قریباً ہر سماجی برائی کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی اور ٹریننگ و تربیت میں خامی ہی ہوتی ہے، اگر یہ تمام سہولیات جو رواں ٹریفک وارڈنز سسٹم کو درپیش ہیں، سابقہ ٹریفک نظام میں بھی مہیا کی جاتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ بقول شاعر:
‘تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘

سٹی ٹریفک پولیس لاہور میں رشوت کی شکایت بظاہر تو شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے- لیکن یہاں پر ایک بات ضرور غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹریفک وارڈنز کو ہر چالان میں سے دس فیصد یا اس سے کچھ کم یا زیادہ ‘کمیشن‘ بھی دی جاتی ہے اور جس کا بظاہر مقصد یہی ہے کہ ‘رشوت‘ کو ختم کیا جائے- لیکن یہ ‘کمیشن‘ کیا ہے؟ یہ ‘کمیشن‘ ٹریفک وارڈنز کو زیادہ سے زیادہ چالان کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ‘کمیشن‘ اکٹھا کر سکیں- یہ کمیشن اصل میں ‘رشوت‘ ہی کی ایک ‘مہذب شکل‘ ہے، بالکل جیسے ‘سود‘ کا نام ‘مارک اپ‘ رکھ کر اس کو ‘حلال‘ کرنے کی کوشش کی گئی ہے- ٹریفک پولیس میں ‘کمیشن سسٹم‘ دراصل ایسا ہی ہے کہ جیسے ہانڈی میں بہت سے مصالحے ڈال کر حرام گوشت کو حلال کیا جائے- ناجائز چالان اسی ‘کمیشن‘ کی بدولت کیے جاتے ہیں- لہٰذا چونکہ چالان کرنے میں ‘کمیشن‘ دینا دراصل ٹریفک وارڈنز کو زیادہ سے زیادہ جائز یا ناجائز چالان کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لہٰذا ہماری نظر میں اس کمیشن سسٹم کو بند کرنا چاہیے-

یہ بھی شنید ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس کو سڑکوں کی معمولی مرمت کے لیے، گڑھے بھرنے کے لیے بھی فنڈز دیئے جاتے ہیں- لیکن لاہور کی سڑکوں پر اگر ایک اُچٹتی سی نظر ہی ڈالی جائے تو بہت سے گڑھے نظر آتے ہیں جن کی اکثریت تو سڑک کے عین وسط میں ہوتی ہے، کینال ویو کئی جگہوں سے بیٹھ چکی ہے جسکے نیتجے میں سڑکوں پر گڑھے نظر آتے ہیں- سٹی ٹریفک پولیس ان کو بھرنے کے لیے ملنے والے فنڈز کو بروئے عمل لاتی تو یہ گڑھے غائب ہو چکے ہوتے لیکن یہ مہینوں سے ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور کئی حادثات کا مؤجب بن چکے ہیں، کئی گاڑیوں کی عمر کم کر چکے ہیں- یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سڑکوں پر معمولی تعمیر و مرمت کے فنڈز کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟

اس وقت سٹی ٹریفک پولیس لاہور ایک ایسا پُھول ہے جو زمین پر گِرا ہوا ہے نہ کہ ڈال پر لگا ہوا پھول اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زمیں پر گِرے ہوئے پھول اور ڈال پر لگے ہوئے پُھول میں بہت فرق ہوتا ہے-اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹی ٹریفک پولیس لاہور کا سٹاف اپنے فرائض تنددہی، نیک نیتی، جانفشانی اور دیانتداری سے سر انجام دینے کے لیئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے اور بحثیت مجموعی شہریوں کی نگاہ میں بھی ٹریفک وارڈنز کسی ‘فرشتہ‘ سے کم نہیں ہیں- لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بالا سطور میں مذکورہ ٹریفک وارڈن جیسی کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر کے ان کو محکمہ سے پاک کیا جائے، ایسے ٹریفک وارڈنز کے خلاف جو شہریوں کی نگاہ میں سٹی ٹریفک نظام کا محنت سے قائم کیے گئے ایک ‘اچھے امیج‘ کو خراب و داغدار کر رہے ہیں، کے خلاف اس طرح تادیبی کاروائی کی جائے کہ دوسرے عبرت پکڑیں- ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے- چالان کرنے میں ٹریفک وارڈنز کو دیا جانے والا ‘کمیشن سسٹم‘ بند کیا جائے، چیک اینڈ بیلنس کو سختی سے بروئے عمل لایا جائے، سرپرائز وزٹس کا شیڈول مرتب کیا جائے اور آفیسرز موقع پر جا کر حالات کی نزاکت کو جج کریں، ٹریفک وارڈنز کے اخلاق کو بہتر بنانے کے لیئے وقتاً فوقتاً لیکچرز کا بندوبست کیا جائے اور فنڈز کا درست اور بروقت استعمال یقینی بنایا جائے- تو ہی سٹی ٹریفک پولیس لاہور ایک کامیاب ٹریفک پولیس گردانی جائے گی- بصورت دیگر عوام، سٹی ٹریفک پولیس لاہور کے بارے میں جلد یا بدیر یہ کہنے پر مجبور ہوں گے بقول شاعر:

‘نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس‘
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 65317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.