برطانیہ میں جعلی یونیورسٹیوں کا جال

ہم میں سے اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ گورے بہت ایماندار اور دیانتدار لوگ ہیں اور وہ جان بوجھ کر کسی کے ساتھ فراڈ یا بد دیانتی ہرگز نہیں کرتے اور میرا خیال بھی میرے ساتھ پیش آنے والے اس حادثہ سے قبل یہی کچھ تھا۔ میرا یہاں اس واقعہ کے بیان کا مقصد سوائے اپنے دیس کے اُن ہزاروں لوگوں کی آگاہی، بہتری اور پیش بندی ہے جو اپنی جمع پونجی لگاکر اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے گوروں کے دیس کے لئے روانہ کرتے ہیں- اور انہیں یہ خبرتک نہیں کہ آگے ان کے جگر گوشوں کے ساتھ کیا کیا سلوک ہونا ہے۔ میں بھی ایک باپ ہوں اور اپنی جاب کے آخری سالوں کو چھُو رہا ہوں اور سال دو سال میں میرا ریٹئرمنٹ قریب ہے۔ میرا بھی خواب تھا کہ میرا بچہ بھی فارن پڑھنے جائے- انٹر کے بعد دوستوںکی بُری صحبت سے تھوڑا ڈی ریل ہوگیا تھا- آخر کاردوستوں یاروں اور جان پہچانوں کے مشورے کے بعد ایک کنسلٹنٹ سے رابطہ کیا گیا جس نے ہمیں اپنا دفتر وزٹ کرنے کا مشورہ دیا اور ہم ایک دن ان کے دفتر پہنچ گئےدفتر پہنچ کر جب ہم نے ان کے دفتر کا جائزہ لیا تو وہ تمام آفتیں اور سہولتیں اس دفتر میں موجود تھیں جو کسی بھی مُرغے کو پھنسانے کے لئے کافی ہوتا ہے- بہت ہی خوبصورت دفتر میں ٹائی سوٹ میں ملبوس شخص سے ویسے بھی لوگ بہت امپریس ہوجاتا ہے- میں نے بھی دو چار مختصر سوالات کئے اور اُس نے مجھے اپنے جوابات سے مطمئن کر دیا اور یہیں سے کاغذی کاروائی کا آغاز کردیا گیا مجھ سے انھوں نے کوئی ایڈوانس فیس وصول نہیں کی- جب فیس کا پوچھا توکہا کہ جب آپ کے بچے کا کام بن جائے اور ویزا آجائے تودے دینا-

اس دوران میں نے اپنی تسلی اور اطمنان کے لئے مطلوبہ کالج کے بارے میں تحقیقات شروع کیں اور اپنے کسی جاننے والے کے ذریعے مطلوبہ کالج جس کا نام اسٹمپفورڈ کالج تھا کا دورہ بھی کرایا اور جب اس نے او کے کیا تو میں نے کاروائی مزید آگے بڑھادی- مزید تسلی کے لئے ویب سائٹ اور اپرول لسٹ بھی چیک کی سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا-

اپنے حد تک مطمئن ہونے کے بعد اور چند ذہین اور باعلم ساتھیوں سے مشورے کے بعد دفتری کاروائی شروع کردی گئی لندن کی اس یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لئے فارم بیج دیا گیا اس دوران بزریعہ نیٹ اور فون میرے بچے کا انٹرویو اور ٹیسٹ لیا گیا جو بقول کنسلٹنٹ کے بہت کامیاب رہا۔ اور ٹھیک ایک مہینے بعد یونیورسٹی کی طرف سے اکسپٹنس کی خوشخبری اور دو ہزار پونڈ کی ایڈوانس ادائیگی کا لیٹر آگیا توکنسلٹنٹ کا فون آگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کے بچے کی لندن یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوگئی ہے آپ فوراً مطلوبہ رقم کا بندوبست کریں اور یونیورسٹی کے نام پے آرڈر بناکرمقررہ ٹائم کے اندر بھجوا دیں - یا پے آرڈر میرے حوالے کریں تاکہ میں بھجوا دوں-

میں پہلے ہی اس کے بہتر سلوک سے بہت امپریس ھوگیا تھا مطلوبہ رقم کا پے آرڈر بناکر بچے کے ہاتھ کنسلٹنٹ کے دفتر بھیج دیا - مزید ایک مہینے کے انتظار کے بعد ایک دن پھر کنسلٹنٹ کا فون آگیا اس دوران میں نے بھی درجنوں فوں کئے- بہرحال اس نے پھر ویزا لگنے کی مبارک باد دی اور باقی کاروائی جلد مکمل کرنے کو کہا-

میں دوسرے دن ہی دفتر پہنچ کر پہلی فرصت میں اس کی فیس ادا کی اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا اب میرے دل میں اس کا احترام اور بھروسہ اور بڑھ گیا - اب ویزا آنے کے بعد ایک لیٹر جو کہ یونیورسٹی کی جانب سے آنا تھا جو کہ روانگی کے لئے ضروری تھا کے انتظار میں کئی دن گزر گئے لیکن یونیورسٹی کی جانب سےمطلوبہ لیٹر دینے میں ہر روزلیت و لعل سے کام لیا جانے لگا جب معاملہ طول کھینچنے لگا تو میں نے اس بظاہرجنٹلمین سے اس طرح تنگ کرنے کی اصل وجہ معلوم کیں تو موصوف نے کہا کہ اصل میں یونیورسٹی والے پانچ سو پونڈ مزید مانگ رہا ہے تو میں نے کہا ایسا کچھ ڈیمانڈ پہلے نہیں کیا گیا اب فوراً ڈیمانڈ کی کیا وجہ ہے اگر کالج والوں کی ڈیمانڈ ہے تو میرا بچّہ وہاں جاکر جب کالج جوائن کرے گا تو اسی دن یہ رقم ادا کردے گا- اصل میں یہ سب ان کے آپس کی ملی بھگت تھی- مطلوبہ کالچ میں فون کیا توکالج والوں نے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور کہا آپ انہیں کے توسط سے اس مسئلہ کو حل کریں یہ ہماری زمہّ داری نہیں- بہرحال جب میں نے اپنے کنسلٹنٹ کو یہ کہا میں اپنے پورے خاندان سمیت تمہارے آفس میں دھرنا دوں گا جب تک تُو کالج سے مطلوبہ لیٹر نہیں منگواتا اور میں نے بھی یہی تہیہ کر لیا تھا میرابھی دماغ خراب ہونے لگا تھا اس کے سلوک سے- بہرحال اس نے جج کر لیا اور دوسرے دن ہی وہ لیٹر مجھے مل گیا-

اللہ اللہ کرکے میرا بچّہ یہاں سے لندن پڑھائی کے لئے روانہ ہوگیا ہم اپنے اللہ میاں سے اس کی خیریت سے پونچنے کی دعائیں مانگتے رہے- کچھ عزیزوں نے ائیرپورٹ سے اسے رسیو کیا ہم ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتے جنہوں نے ہمارے بچے کو پردیس میں سپورٹ کیا اللہ انھیں عمر بھر سکھی رکھے - دوسری صبح جب وہ اپنے کالج پہنچے تو وہاں کا حال بالکل الٹ تھا اسی ہفتہ کالج بند ہوچکا تھا اورحکومت برطانیہ نے بینڈ لگادی تھی- میرے بچے پرعلم حاصل کرنے کا بھوت اتر چکا تھا وہ اپناآپ ٹوٹ چکا تھا اسکا مستقبل تاریک کنویں میں دفن ہوچکاتھا اب اسے اپنے لٹنے کا شدید احساس ہورہاتھا- بظاہر صاف شفّاف لگنے والوں نے کتنی بے دردی سے میرے بچے کی تمام تر امیدوں پر پانی پھیردیا تھا۔ اسی دوران میڈیا پر بھی یہ خبریں عام تھیں کہ معلوم نہیں کتنے کالجز پر چھاپہ پڑا اور ہزاروں بچوں کیا مستقبل تاریک کردیا گیا - کیا وہاں کے حکمراں اتنے اندھے ہیں کہ اُن کی ناک کے نیچے علمی قزّاق کتنے لوگوں کا خواب اور سکوں چھین رہا ہے-کتنے انسانوں کے ارمانوں کا خون کررہا ہے- کتنے بچوں سے کتابیں چھین کر جبرومشقت کی چکّی میں پیسنے پر مجبور کیا جارہا ہے- دنیا کو انصاف کا سبق سکھانے والے پہلے خود تو اپنے ملک کے ان اندھیروں سے نبٹیں تاکہ میرے بچے جیسے ہزاروں لاکھوں بچوں کا مستقبل بربادی اور تباہی سے بچ جائیں-

میرے بچے پر کیا کیا بیتی یہ ایک الگ داستاں ہے- کن کن مشکلات میں گزاریں-- میرے بچے نے ویزا ختم ہونے سے پہلے اپنے وطن کی زمین چھوکر اس پر سجدہ کیا اور کہا کہ میں نے جسے جنّت سمجھا تھا اصل میں دوزخ تھا- جنّت اور دوزخ کا مفہوم ان دو سالوں میں میں اچھی طرح پہچان لیا تھا-

پروردگار ہمیں ان مافیاؤں سے بچائیں جنہوں نے ہر ملک میں اپنا ڈیرا جمایا ہوا ہے اور انکی ایک چین ہے جنہیں نہ تو کوئی حکومت روکتی ہے اور نہ ہی ان کے دلوں میں کسی کو اُجاڑنے اور لوٹنے کا خوف ہے- اپنی زندگی کا تجربہ بیان کرنے کا واحد مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ خدارا ان خوبصورت چہروں اور سجے سجائے دفتروں کے جھانسے میں کبھی نہ آئیں اور اپنے بچوں کو اپنے ہی دیس میں زیادہ زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلائیں- اور حکومت، ارباب اقتدار اور اہل فکرودانش سے بھی یہی دستہ بدستہ گزارش ہے کہ اپنے ہی دیس میں ایسے حالات پیدا کریں کہ کوئی بچہ اس طرح سے جانے کا ہی خیال دل و دماغ سے ہمیشہ کے لئے نکال دے-

MUHAMMAD HASSAN
About the Author: MUHAMMAD HASSAN Read More Articles by MUHAMMAD HASSAN: 14 Articles with 14324 views Love for all hatred for none.. View More