نا انصافی پر قائم معاشرے قائم نہیں رہ پاتے

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کفر پر قائم معاشرے تو قائم رہ سکتے ہیں مگر ظلم و نا انصافی پر قائم معاشرے نا تو قائم رہ سکتے ہیں اور نا پنپ سکتے ہیں اور نا ترقی کرسکتے ہیں۔

ہم ہر وقت دوسروں کو گالیاں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں کہ فلاں نے وہ کیا اور فلاں نے یہ کیا اور جب برا وقت اپنے اعمال کے نتیجے اور خدائی غضب کی صورت میں نازل ہوتا ہے تو اللہ سے کتنا مانگتے ہیں اور اپنے دشمنوں اور خصوصاً اس دشمن “امریکہ“ سے کتنا مانگتے ہیں جس کو ہم اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

اور قومی بے شرمی کا کیا حال سنائیں جب امریکی عہدے دار نے ببانگ دہل ایک بیان دیا کہ پاکستان پر اس مصیبت (سوات اور مالاکنڈ سے نقل مکانی کے سبب) کی گھڑی میں امریکی امداد کے علاوہ دوسرے ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کی امداد کہاں ہے (برادر اسلامی ممالک)۔ خدا کی قسم جتنی امداد، خیرات، بھیک ہم نے کافروں سے وصول کی ہے اس کا حساب لیں ہمارے ملک کے بے غیرت حکمران اور بے غیرت سیاستدان جو ہر وقت امریکہ کو تو برا بھلا کہتے ہیں اور ان کو اپنا ہیرو مانتے ہیں جو لوگوں کے گلے کاٹتے اور مردوں کو مخالفت کی بنا پر مرجانے کے باوجود ان کی قبروں سے ان کی لاشوں کو نکالتے اور چوراہوں پر لٹکاتے ہیں اور جو ظلم و ستم طالبان یعنی طالبان نے برپا کیا ہے وہ ناصرف قابل مذمت بلکہ قابل نفرین ہے اور وہ ظالمان طالبان کسی بھی طرح مسلمان ہونا تو کجا انسان کے درجے پر بھی فائز نہیں کیے جاسکتے۔ جو ہیں تو ایسے کہ شریعت نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں اور اپنے چہروں کو پردہ دار بیبیوں کی طرح نقاب سے چھپاتے ہیں تاکہ پتہ نہ چل سکے کہ ملکی و غیرملکی عناصر ان میں کون کون سے شامل ہیں۔

ظلم و بربریت کی انتہا ہے کہ ایک طرف تو ملک کے اس حصے میں ایسی خونریزی اور جنگ و جدل برپا ہے اور دوسری طرف ان طالبان ظالمان کے حمایتی نئے سرے سے ان کی حمایت کے لیے پوائنٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ جو طالبان ظالمان کی مذمت میں اور ان کی مخالفت میں بات کرے وہ تو علامہ سرفراز احمد نعیمی اور انکے رفقا کی طرح شہید کر دیا جائے اور جو ظالمان طالبان کی حمایت جاری رکھے وہ جہاں اور جس طرح گھومے پھر اس کا کوئی بال بھی بیکا کرنے والا نا ہو۔

ہمارے بے شرم سیاستدان خصوصا طالبان کے ظلم و ستم کی حمایت کرنے والے کس طرح یہ سوچ لیتے ہیں کہ وہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اراکین یعنی فوجیوں وغیرہ سے زیادہ محب وطن ہیں۔

کیا کچھ کرکٹرز اور دوسرے چالباز اور طالبانی سوچ رکھنے والے سیاستدان کو یہ بات کیا سمجھ میں نہیں آتی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کے ان جوانوں میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں (یعنی صوبہ سرحد) جہاں یہ آگ اور خون کا میدان گرم ہے۔ کیا وہ فوجی سب کے سب بے حس اور قومی غیرت سے عاری ہیں جو اپنے ہی لوگوں پر یہ کر رہے ہیں۔ نہیں بھائیوں وہ ہمارے دلیر اور جانباز فوجی یہ بات اچھی طرح جان گئے ہیں کہ طالبان ظالمان دراصل ایک شیطانی اور حیوانوں کا گروہ ہے اور ملک کو ان سے پاک کرنا نہایت ضروری ہے۔

مذہب کے نام پر سیاسی دکان چلانے والوں جب مشرف یا کوئی بھی فوجی سپہ سالار (جیسے ہمارے کیانی صاحب) نے جہاں جہاں فوج کشی کی تو کیا فوج میں تمہاری طرح کے بے حس اور مفاد پرست سیاسی بے غیرتی کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو کسی فرد واحد کی فوج کشی کے حکم پر بلاں چوں چراں کیے عمل کر گزرتے ہونگے اور اپنی قوم پر لشکر کشی کرتے ہونگے نہیں ظالموں نہیں بلکہ ان کو حقیقت سمجھا دی جاتی اور باور کرادی جاتی ہے جس کے بعد فوجی اعلیٰ کمان فیصلہ کرتی ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا بہتر ہے۔ اور رہے مذہبی سیاسی دکاندار تو وہ جب قیمت مل جاتی ہے تو نا صرف اس وقت چپ ہو جاتے ہیں اور جب قیمت نہیں مل پاتی تو شور کرتے ہیں۔

افواج پاکستان ہم آپکے ساتھ ہیں ہر طرح سے اور آپ پر ہمیں بھروسہ ہے کاش آپ شہروں میں طالبان ظالمان کے حمایتیوں کا جو ظلم و جدل کے حامی ہیں ان پر بھی کسی قسم کا آپریشن راہ راست شروع کر سکیں اور ہمیں منافقوں کے جماعتیوں سے پاک صاف کر سکیں۔

پاکستان زندہ باد افواج پاکستان پائندہ باد
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 499381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.