دوحیرت انگیزخبریں...؟ ایک مضحکہ خیزاور دوسری فکرانگیزخبر....

ابھی صبح کے دس بجے کاوقت ہے ،یہ میراکالم لکھنے کا وقت ہے ،آج میری میز پر حسبِ معمول اخبارات بکھرے ہوئے ہیں، مگر دل ہے کہ لکھنے کی جانب مائل ہی نہیں ہورہاہے، کہ میں کچھ لکھوں ، حالانکہ اخبارات کی بے شمار ایسی( نیشنل اور انٹرنیشنل )خبریں ہیں جو چیخ چیخ کر مجھے اپنی جانب متوجہ کررہی ہیں، اور مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ ہمیں دیکھو، پڑھو، اور اپنے دل اور دماغ میں اُبلتے لاوے، قرطاس پر بہادو، مگرمیں کیا کروں کہ آج دل لکھنے کومان ہی نہیں رہاہے ، میں اِس کیفیت سے دوچار ہونے کے بعد اپنے کمرے سے باہر نکل کر بالکونی میں آگیاہوں، اوراپنی بے چینی کی وجہ جاننے کی کوشش کررہاہوں ، بالآخر کچھ ہی دیر بعد اِس کی وجہ سمجھ آگئی اور میں واپس اپنی میز کے ساتھ پڑی کُرسی پرآگیا ،اوربیٹھ کر سوچنے لگاکہ یہ میرے مُلک اور شہر کراچی میں بسنے والے ہر پاکستانی کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ جوں جوں ماہ رمضان المبارک کے روزے آگے کی جانب بڑھتے جارہے ہیں ، کراچی میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں بھی اضافہ ہوتاجارہاہے، ایسے میں گرمی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے مجھ جیسے لاکھوں نارمل اور بیمارافرادایسے بھی ہوں گے ، جن کے دماغ کراچی کی گرمی اورلوڈشیڈنگ سے اُبل رہے ہوں گے اور دل عالمِ اضطراب میں مبتلاہوکرپسلی کی ہڈیوں سے ٹکرارہاہوگا،اور کلیجہ منہ کو آرہاہوگا،مگرحکمران ہیں کہ وہ کراچی کے عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلوانے کے بجائے،اِس پر اپنے اپنے لحاظ سے سیاست کررہے ہیں، اور نمبراسکورنگ سے اپنا اپنا سیاسی قداُونچاکرنے اور چمکانے میں لگے پڑے ہیں، تودوسری طرف عوام ہیں کہ وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں مبتلاہیں آج اِن کی حیثیت زندہ درگورہونے سے بھی بدترہے۔

اَب قارئین حضرات...! آپ ایک لمحے کے لئے ذراسوچیں کہ اِس صورتِ حال میں مجھ جیسے روزلکھنے والے کاکیا حال ہوگا، جو لکھے بغیررہ نہیں سکتاہے، اِس کے لئے اِس کیفیتِ بیقراری میں لکھنا کتنامشکل ہوگا، جب دل اضطرابی کیفیت سے دوچار ہواور دماغ گرمی کی وجہ سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم کرچکاہوتو کوئی کیسے لکھ سکتاہے، مگریہ میراقلم ہے کہ جو مجھ سے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہاہے، کہ آج مجھے ہرحال میں لکھناہے، چاہئے کچھ بھی ہوجائے، دل او ر دماغ کی پریشانی میں اِسے اِس کی فطرت سے محروم نہ کیا جائے ، اور آج نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اِس کی خاطر اپنا کالم ضرورلکھنا ہوگا۔

بہرحال...!آج جیت میرے قلم کی ہوئی اور میں نے اِس کے سامنے ہھتیارڈال دیئے،اگرچہ میں نے لکھنے کے لئے کوئی بھاری بھرکم خبروں کا انتخاب تو نہ کیا، مگر دوحیرت انگیزاورمضحکہ خیز خبریں ایسی نکالیں، جو لکھنے میں بھی ذراہلکی ہیں، مگر کہنے ، سوچنے ، اور غوروفکر کرنے کے بعد بہت سے بنددریچوں کو کھولنے کے لئے کافی ہیں۔

دوارب کے لگ بھگ آبادی رکھنے والے مُلک بھارت سے آنے والی ایک حیرت انگیز مگر انتہائی مضحکہ خیز خبر تو یہ ہے کہ ’’بھارت میں غریبوں کی تعدادکمی کے بعدصرف 22فیصد رہ گئی ہے ،بھارتی سرکاری ذرائع نے اِن اعدادوشمارکوجاری کرتے ہوئے کہاہے کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران بھارت میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ننگے بھوک افرادکی تعدادکل آبادی کے 37فیصد سے کم ہوکر22فیصدہوگئی ہے، جس کا سہرابھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سرجاتاہے، جنہوں نے بھارت سے غریبوں کے بجائے غربت کے خاتمے پر توجہ دی اور ایسے دیرپااقدامات اور منصوبے متعارف کرائے کہ بھارت میں غریبوں کی تعدادمیں نمایاں کمی واقع ہوئی اور وہ کم ہوتے ہوتے 22فیصدتک آگئی،اوراِسی خبر میں ہے کہ تاہم خود بیشتر بھارتی ناقدین نے بھارتی سرکاری ذرائع سے جاری ہونے والے اِن اعدادوشمار کو گمراہ کُن اور بھارت کی مظلوم اور غربت کی چکی میں پسی عوام کے لئے بھی انتہائی مضحکہ خیز قراردیتے ہوئے اِسے کھلم کھلاطور پر مستردکردیاہے۔

جبکہ اِدھر ہمارے پاکستانی حکمران اور دانشمند بھی بھارت سے متعلق اِن خوش فہم اعدادوشمار پر انگنشت بدنداں ہیں کہ ایسے کیسے ہوسکتاہے ...؟ کہ بھارت جیسے کنجوس حکمرانوں نے ایساکیا کردیاہے کہ بھارت سے غربت ختم ہوکر صرف22فیصدتک رہ گئی ہے، کیا بھارتی حکمران ہندوبنیوں نے اپنے خزانے کا منہ اپنے مُلک کے غریبوں کے لئے کھول دیاہے ...؟تاکہ اِن کے مُلک کے ترسے لوکے برسوں سے خطِ غربت سے بھی نیچے (فٹ باتھوں، ریلوے اسٹیشنوں، میدانوں، خشک ندی نالوں میں جسم فروشی کرکے تھک ہارکرسونے اور) زندگیاں گزارنے والے بھی عیاشیاں کرسکیں اور اِس طرح بھارتی حکمران دنیاکو یہ تباسکیں کہ بھارت کوئی ایساویسا ملک نہیں ہے، اِس کے یہاں بھی امیروں کی تعداد دنیا کے دیگر امیرممالک کی طرح ہے ، اگر کہیں غریب ہیں بھی تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، ایسے میں مجھے تو یہ لگ رہاہے کہ جیسے بھارتی سرکاری ذرائع نے اپنے یہاں غربت سے متعلق جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں اِس کے پیچھے بھی بھارتی ہندؤبنیئے حکمرانوں کی کوئی سازش ہے،جو آنے والے دنوں میں ضرور بے نقاب ہوجائے گی۔

اُدھر دوسری حیرت انگیز خبر ہمارے درینہ دوست ملک چین ( بیجنگ) سے آئی ہے،خبرکے مطابق چین میں ایک سے زائد بچے پیداکرنے کے خواہشمند چینی باشندے نے وہ کردیاجس کا چینی کبھی گمان بھی نہیں کرسکتے تھے، خبر ہے کہ چین میں ایک مشتعل شخص نے ایک بچہ پالیسی دفتر کے اُن دوافسران کو قتل کردیاجنہوں نے اِسے اِس کی خواہش سے منع کیاتھا، تفصیلات کے مطابق گزشتہ دِنوں ایک چاقوبردارچینی شخص دفتر میں داخل ہوااور اِس نے دوافسران کوقتل اور دیگرچارکوزخمی کردیا، چینی میڈیا کے مطابق متعلقہ دفتر کے افسران نے مذکورہ شخص کو اِس کے چوتھے بچے کے لئے رہائشی اجازت نامہ دینے سے انکار کردیاتھا‘‘۔

اگرچہ چین سے آنے والی خبر میں سو فیصدصداقت کا گمان ضرورہوتاہے کہ ایک بچہ پالیسی دفتر کے مقتول افسران نے اپنے قانون کے مطابق قتل کو چوتھے بچے کے لئے رہائشی اجازت نامہ دینے سے انکارکردیاہوگا‘‘ اوراِس پر قاتل مشتعل بھی ہوگیاہوگا، اور اِس نے وہ عمل بھی کر دیاہوگا، جووجہ خبربنا، مگر اِسی کے ساتھ ہی اِس خبر نے ہم جیسے( چین کے دوست ملک کے) لوگوں کو یہ سبق ضروردے دیاہے، کہ ہر حال میں قانون کی بالادستی قائم کی جانی چاہئے ، چاہئے جان ہی کیوں نہ چلی جائے، اَب اِسی کو ہی دیکھ لیں کہ اگر قاتل قانون توڑناچاہتاتو خاموشی سے (ہم پاکستانیوں کی طرح )توڑسکتاتھا، وہ بھی سوچتاکہ اتنابڑاچین ہے، کون پوچھنے آئے گا، میرایک بچہ ہو، یا دوہوں ،یا تین ہوں ، یاچار ہوں ، گھرمیراہے ، میں اِس میں اپنی خواہش کے مطابق جتنے بھی بچے رکھوں، مگر اُس نے ایسانہیں کیا، اُس نے اپنے مُلک کے قانون کے مطابق چوتھے بچے کے لئے رہائشی اجازت نامے کے لئے درخواست دائر کی جو کہ مستردکردی گئی، جس پر وہ مشتعل ہوااور اُس نے چاقو سے متعلقہ دفتر کے دوافسران کو قتل اور چار کو زخمی کردیا،میں اِس خبر کو حیرت انگیز تو کہوں گامگر مضحکہ خیز نہیں کہہ سکتاکیوں کہ اِس خبر میں ہمارے لئے ایک بہت بڑاسبق ہے، اور سبق مضحکہ خیزی سے حاصل نہیں ہوتابلکہ سنجیدگی اور تدبر سے حاصل ہوتاہے، چین سے آنے والی اِس افسوسناک مگر حیرت انگیز خبر میں ہم قانون شکن لوگوں اور اِسی طرح ہمارے تھانوں میں اور سڑکوں پر ٹریفک کی خلاف وزری پر چالان کاٹنے والے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں دس، بیس ، پچاس ، سو، پانچ سو، ہزاراور اِس سے بھی اُوپر ہزاروں ،لاکھوں اور کروڑوں میں قانون فروخت کرنے والوں کے منہ پر بھی ایک زوردار طمانچہ ہے،اگر ہم سمجھیں تو......!!اور نہ سمجھیں تویہ ہماری بے غیرتی اور بے حسی ہوگی۔
محمد سمعید اعظم
About the Author: محمد سمعید اعظم Read More Articles by محمد سمعید اعظم : 20 Articles with 12891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.