اسکول اور مدرسے کی جنگ

ملال یہ ہے کہ ملالہ بیٹی نے یو این کے اجلاس میں جو پُرتاثیر تقریر کی اس میں امریکی ڈرون حملوں‘عافیہ صدیقی بہن پر عدالتی تشدد اور افغانستان پر امریکی یلغار کے حوالے سے اشارہ تک نہیں کیا۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور نئی زندگی پانے کے بعد اور بھی معصوم لگتے ہیں۔معصومیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر برائی کو برائی ہی سمجھا جائے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ طالبان تو ہر برائی کی علامت قرار دیئے جائیں اور امریکہ کو ہر اچھائی کا حوالہ ثابت کیا جائے۔ پاکستان کی بار بار کی اپیلوں کو جس طرح امریکہ نے رد کرتے ہوئے ڈرونز کے ذریعے معصوم ملالاؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس پرانہی کے قوم قبیلوں سے تعلق رکھنے والی لڑکی نے کوئی آہ و بکا کی نہ اس کا دل دُکھا اور نہ اس کی آنکھ روئی۔طالبان کے ہاتھوں شدید زخمی ہونے سے قبل بھی ملالہ نے ڈرونز حملوں کے خلاف کبھی کچھ لکھا نہ بولا۔ ان کے والد صاحب حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے شخص ہیں ۔انہوں نے عالمی طاقت کا ساتھ دیا اور اپنی بیٹی کی معصومیت کو بھی اس آگ میں جھونک دیا۔ ملالہ کو امریکی آشیرباد پر برطانیہ نے خوب اٹھایا اور اسے عالمی سطح پر بچیوں کی تعلیم کے لئے تگ و دو کرنے والی ’’ہستی‘‘ بنا کر پیش کردیا گیا۔

امریکی یلغار کیخلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف اس سے زیادہ کارگر حملہ نہیں ہوسکتا۔ اسے حکمت عملی کہتے ہیں اور اس حکمت عملی سے طالبان آج بھی کوسوں دور ہیں۔ وہ صرف مرنا اور مارنا جانتے ہیں۔زندگی بخش کر کیاکیا حاصل ہوسکتا ہے اس فلسفے سے طالبانی نظریات تہی دامن ہیں۔

’’علم ہر مومن (مرد و عورت) پر فرض ہے‘‘۔یہ ایک متفقہ علیہ حدیث ہے۔حال ہی میں ترکی کے علماء نے اس حدیث کی تشریح بھی کردی ہے اور قرار دیا ہے کہ علم سے مراد دینی اور دنیاوی دونوں علوم ہیں کیونکہ اسلام دنیا اور دین میں تفریق نہیں کرتا۔جنگ بدر میں قیدیوں کی رہائی کے لئے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی تھی کہ جو قیدی مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں گے انہیں رہا کردیا جائے گا۔

مشرک اور دشمن قیدیوں نے مسلمانوں کو دین تھوڑا ہی سکھانا پڑھانا تھا بلکہ اس وقت کا دنیاوی علم ہی پڑھانا اور اسی کے بارے میں لکھنا سکھانا تھا۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ’’علم‘‘ کو مخصوص معنوں تک محدود نہیں کیاجاسکتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘۔ مکی یا مدنی دور سے لے کر آج تک چین کبھی بھی کوئی اسلامی مملکت نہیں رہا کہ مسلمانوں کو علم کے حصول کے لئے چین کا حوالہ دیا جاتا۔ چین میں علم حاصل کرنے کا مقصد دنیاوی تعلیم ہی تھا۔

ایک طالبان رہنما کا کھلا خط پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ طالبانی سوچ’’ علم‘‘ کے حوالے سے وہیں اٹکی ہوئی ہے جہاں سے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان چپقلش شروع ہوئی تھی۔1857ء میں یہی بعث جاری تھی۔طالبان لیڈر نے ملالہ کو مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دے کر مدرسے اور سکول کی جنگ کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان رہنماؤں نے سرکاری سکولوں کانصاب نہیں پڑھا۔ اگر کوئی بچی اچھے نمبروں سے میٹرک یا ایف اے پاس کرلے تووہ اچھی خاصی حافظہ اور معلمہ بن جاتی ہے۔آیات و حدیث کا ایک ذخیرہ اسے ازبر ہوجاتا ہے اور دین اسلام کے ارکان اور ان کی تشریح سے بھی وہ بخوبی واقف ہوجاتی ہے۔قرآنی احکامات سمجھ جاتی ہے بلکہ والدین کو سمجھا سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے مدرسے اپنے ہاں سائنس‘میتھ‘ بائیو‘کمپیوٹر‘سائنس اور اعلیٰ تیکنیکی ڈگریوں تک کی تعلیم کے راستے ہموار کرتے لیکن اہل سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ انہوں نے اپنے ہاں مدرسے سے کہیں بہتر دین کا ادراک پیدا کرنے والے نصاب شامل کرلئے۔ اس لئے ملالہ کو مدرسے کی تعلیم کی شائد ضرورت نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مدرسوں میں سکولوں ‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سائنسی اور تیکنیکی تعلیم کو رائج کیا جائے۔خط لکھنے والے طالبان رہنما خود بھی انگریزی بولتے اور بلاگنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ یہ کام کریں تو اچھا ہے اور اگر کوئی اور یہی کام کرے تو برا ہے۔اصل مسئلہ مدرسے یا سکول کا نہیں اصل معاملہ سوچ کا ہے۔سوچ نہ بندوقوں سے بدلی جاسکتی ہے نہ ڈرونز سے۔ سوچ تو سوچ ہی سے تبدیل ہوتی ہے۔علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے ابتدائی طلبہ دیوبند مدرسہ میں جا کر پڑھایا کرتے تھے۔پھر یہ سلسلہ رک گیا اور ہمارے معاشرے میں تعلیم کے دو متضاد دھارے بن گئے۔پاکستان بنا تو ان دھاروں کو آپس میں ملانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مدرسہ تو اپنی محدود سوچ سے باہر نہ آسکا البتہ سرکاری سکول اسلامیات سے روشناس ہوتے چلے گئے۔بچوں کے لئے ہمارے سرکاری سکولوں میں پڑھایا جانے والے نصاب دین اور دنیا کے خوبصورت توازن سے مزین ہے۔کاش کہ اب مدرسہ اور سکول کی یہ جنگ ختم ہوجائے اور نہ کسی ملالہ کو گولی مارنی پڑے اور نہ کوئی معصوم ملالہ غاصب قوتوں کہ آلہ کار بنے۔
Dr Murtaza Mughal
About the Author: Dr Murtaza Mughal Read More Articles by Dr Murtaza Mughal: 20 Articles with 13249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.