پاکستان کی مشکلات اور نئے صدر کا انتخاب !

پاکستان قومی انتخابات کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اختیارات کی پر امن و جمہوری تفویض کے پل صراط سے گزرنے کے بعد اب صدارتی انتخابات کی جانب گامزن ہے الیکشن کمیشن نے 6 اگست کو صدارتی انتخابات کیلئے پولنگ کا شیڈول جاری کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی امیدواروں کیلئے آئین کے آرٹیکل62اور 63 کی اہلیت بھی لازم قرار دے دی ہے جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے ساتھ حکمران صدارتی انتخابات میں بھی تاخیر کیلئے کوشاں ہوچکے ہیں اور الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھنے لگا ہے ۔

صدر پاکستان آصف علی زرداری ملک سے باہر جاچکے ہیں اور ان کی وطن واپس نہ آنے کی افواہوں سے پیدا ہونے والے تاثر کو زائل کرنے کیلئے صدارتی ترجمان روزانہ صدر کی واپسی کے یقین دہانی بیانات دیکر اپنا منصبی فریضہ ادا کررہے ہیں مگر افواہوں درست ثابت ہوںگی یا صدارتی ترجمان کے بیانات یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ آصف زرداری نے دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کی جو یقین دہانی کرائی تھی وہ اس پر قائم دکھائی دے رہے ہیں جس کے باعث پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کیلئے سینیٹر رضا ربانی کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا گیا ہے ‘ مسلم لیگ ق کی جانب سے صدارتی امیدوار کیلئے سینیٹر سعید مندو خیل کا نام سامنے آیا ہے ‘ تحریک انصاف کا قرعہ فال جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے نام نکلا ہے جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز نے سندھ سے جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزماں صدیقی، سابق گورنر سندھ ممنون حسین اور غوث علی شاہ ‘ خیبر پختونخواہ سے سرتاج عزیز، اقبال ظفر جھگڑا ، سردار مہتاب عباسی کے ناموں پرغور کے بعد صدارتی امیدوار کے لئے ممنون حسین ، سرتاج عزیز اور سعید الزماں صدیقی کے نام شارٹ لسٹ کرلئے ہیں ۔

ایک جانب حکومت صدارتی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرانے کیلئے وزیراعظم میاں نوازشریف کی رمضان کے آخر میں عمرے کی ادائیگی کو جواز بناکر صدارتی انتخابات انتیس یا تیس جولائی کو کرانے کی تجویز کیلئے الیکشن کمیشن سے رابطہ کررہی ہے تو دوسری جانب سیاسی جوڑ توڑ بھی عروج پر پہنچ چکا ہے .وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے رابطہ کرکے متفقہ صدارتی امیدوار کیلئے پیپلز پارٹی کی حمایت طلب کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کے مشترکہ صدارتی امیدوار کیلئے تحریک انصاف سے رابطہ کیا مگر تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی پیشکش ٹھکراکر جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے ۔اس طرح مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق)نے اپنے اپنے علیحدہ علیحدہ صدارتی امیدوار سامنے لاکر اس با ت کا عندیہ دے دیا ہے کہ عوامی ترجمانی اور قومی مفادات کی نگہبانی کی دعویدار سیاسی جماعتیںکسی ایک متفقہ قومی ایجنڈے پر متفق ہونے کی بجائے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں اور پاکستانی سیاست آج بھی متفقہ یا قومی ایجنڈے سے محروم ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے سامنے لائے جانے والے صدارتی امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی اہلیت اور قومی ضرورت پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے کیونکہ 706کے الیکٹورل کالج میں ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کو مجوعی طور پر عددی برتری حاصل ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنا صدر لانے میں کامیاب ہو جائے گی ۔

پاکستان اس وقت جن حالات سے گزرہا ہے اس میں توانائی بحران کا حل اور معیشت کی بحالی سب سے زیادہ اولیت و اہمیت کی حامل ہے کیونکہ مہنگائی ‘ بیروزگاری اور غربت سمیت دیگر مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہے جبکہ توانائی بحران حل ہوجائے اور صنعت و ذراعت کے ساتھ کاروباروتجارت کا پہیہ پوری رفتار سے چلے جبکہ معاشی بدحالی جرائم و بدامنی کے ساتھ دہشتگردی کی وجوہات میں بھی شامل ہے اسلئے توقع ہے کہ اگر توانائی بحران کا خاتمہ ہوجائے اور معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے چلے تو بد امنی و دہشت گردی سے بھی نجات مل سکتی ہے ۔ اسلئے صدر پاکستان کے عہدے پر ایسے فرد کو متمکن ہونا چاہئے جو معاشی اسرارورموز سے واقف ہو اور معیشت کی بہتری کیلئے اٹھائے والے اقدامات میں وزیراعظم کی مکمل ومعاونت ومشاورت کے ساتھ بیرونی سرمائے کی منتقلی ‘ بیرونی قرضوں کے حصول اور ان قرضوں کے درست استعمال کے ذریعے اہداف کے حصول کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی اہلیت و صلاحیت کا حامل ہو اور یہ تمام صلاحیتیں آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے وابستہ رہنے والے سابق وزیر خزانہ اور موجودہ مشیربرائے امور خارجہ سرتاج عزیز میں موجود ہیں اور دنیا بھر کے مالیاتی اداروں میں اتنا اثرورسوخ اور شناسائی و پذیرائی کے حامل بھی ہیں کہ صدر پاکستان کی حیثیت سے وہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نجات دلانے میں حکومت کیلئے بہترین معاون کا کردار ادا کرسکتے ہیں ممنو ن حسین شریف النفس انسان ضرور ہیں مگر انتظامی امور میں اتنے کامیاب نہیں جن کی موجودہ دور میں ضرورت ہے یہی وجہ ہے سندھ میں ان کا دور گورنری کسی بھہت اچھی مثال یا کارکردگی سے مکمل طور پر محروم ہے جبکہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی عدالت و انصاف کا تجربہ تو ضرور رکھتے ہیں لیکن انتظامی و سیاسی معاملات سے بے بہرہ ہیں اسلئے انہیں عوامی فلاح کیلئے مشیر کا عہدہ تو دیا جاسکتا ہے مگر صدر پاکستان کے عہدے کے تقاضوں پر نہ تو ممنون حسین پورے اترتے ہیں اور نہ ہی جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی موزوں ہیں اسلئے میاں نوازشریف کے لئے ضروری ہے کہ وہ قومی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سرتاج عزیز کا نام صدر پاکستان کیلئے فائنل کریں تاکہ سرتاج عزیز اپنی صلاحیتوں سے صدر پاکستان کی حیثیت سے قوم کو معاشی بدحالی سے نجات دلانے میں حکومت کے معاون ثابت ہوسکیں جبکہ جسٹس (ر) سعیدالزماں صدیقی کو صدر بنانے کا مطلب رفیق تارڑجیسا دوسرا غیر سیاسی صدر تلاش کرنا ہوگا جو سیاست میں نومولود ہونے کے باعث صرف آمنا و صدقنا ہی کرسکے اور ممنون حسین کو صدر پاکستان کیلئے نامزد کرنے کا مقصد محض سندھ میں اپنی سیاسی پذیرائی کو مزید تقویت دیکر سندھ سے پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ کو مزید کم کرنے کی کوشش کرنا ہوگا اور ان دونوں ہی فیصلوں کا فائدہ یقینا میاں نوازشریف اور مسلملیگ (ن) کو ضرور ہوگا مگرقوم کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آئے گا اسلئے اگر میاں صاحب ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے خواہشمند ہیں تو سیاسی مفادات سے آگے نکل کر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور سرتاج عزیز کا نام صدر پاکستان کیلئے فائنل کریں !

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 131992 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More