امید کرنا اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔مگر

ہم انسان کی ابتدا سےمتعلق بہت سی کہانیاں سنتے ہیں ، ہم اشرف المخلوق قرار دیتے ہیں تومغربی بہت سی اقوام کے نزدیک انسان بندر کی اولاد ہے جبکہ ہندووں میں کچھ کے نزدیک انسان برہما بگوان کے جسم کے مختلف حصوں سے پیدا ہوئے تو بعص کے مطابق بگوان نے یہ دنیا ایک بڑا سا انڈا دے کر بنائی ،ہمیں جو بات سن کر ہنسی آتی ہے وہ کسی کے نزدیک عقیدہ ہے،یہ سب باتیں اپنی جگہ اب انسان دنیا میں ہر خطہ میں موجود ہیں اور اپنے اپنے طور طریقوں پر مبنی زندگی گزار رہے ہیں ،کسی کو کسی کا مذاق اڑانے کی بجا ئے اپنے حالات کو دیکھنا اور انہیں سدھارنا زیادہ اہم لگنا چاہئے۔انسانوں کے عقیدہ خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات جو سب میں مشترک ہے ان کا رونا ہنسنا ،تکلیف کا احساس ،محبت کی تلاش ہےاور سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میں امید کا عنصر باقی رہتا ہے۔ ہرکوئی اپنے عقیدے کے مطابق جزا اور خیر کی امید رکھتا ہے ،یہ امید ہی ہے جو جینے کا سہارا بنتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کو کامل امید تھی کہ اسلام پھیلے گا اور کفار مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوں گے ،گویا ایسا ہی ہوا ،حضرت عمر جو اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے ،اسلام کے سب سے بڑے محافظوں میں شمار ہونے لگے، آپ نے جب اپنی بیٹی کو زندہ دفن کیا تھا تو وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ریش مبارک سے کھیل رہی تھی وقت گزرنے پر جب آپ میں اسلام تبدیلی لایا تو آپ اپنےکیے پر رویا کرتے تھے۔کھجور کے بت توڑ توڑکر کھانے والے حضرت عمر سے نبی کریمﷺ کو امید تھی کہ اسلام کے لیے طاقت بنں گے۔ایسا ہی ہوا آج لاکھوں نہیں کڑوروں لوگ اسلام کی طاقت ہیں جن کے آباواجداد اسلام کے بدترین دشمن تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی امید کو اپنے عمل کی قوت عطا کی آپ کی رحم دلی حسن ،سلوک صلہ رحمی ،امن پسندی نے دشمنوں کو بھی آپ کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔

جب سے پاکستان بنا تب سے یہی سنتے آئے ہیں ،بہت مشکل ہے پاکستان میں جینا ، یہاں کچھ نہیں ، رشوت کا راج ہے، کوئی قانون نہیں جناب سب اپنی کرتے ہیں ،غریب کی کوئی زندگی نہیں ،وغیرہ وغیرہ۔کبھی یہاں دھماکے ہوتے ہیں تو کبھی فسادات ، کبھی غیر مسلم کمیونٹی پر حملہ کیا جاتا ہے ،تو کبھی ، شیعہ، سنی اپنی اپنی تحریک سے ایک دوسرے کو نیچا دیکھاتے ہیں۔انسان کی ابتدا سے متعلق باتوں کی طرح مذاہب و عقائد میں اختلافات نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بد ظن کر دیا ہے،انسان کو اس کے نام ،قوم ، شکل ،زبان نے الگ کر کے رکھ دیا ہے ،لیکن کچھ ہے جو انسانوں کو جوڑتا ہے وہ ہے ان کا وجود اور اس کے وجود میں سوچوں کی تبدیلیاں جو آج ہے وہ کل نہیں ہو گا اور جو کل تھا وہ آج ویسا نہیں جیسا کل تھا ، امید یہی کی جاتی ہے کہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی۔یہی امید زندگی ہے۔

جو لوگ اچھی امید رکھتے ہیں وہ مشکلات اور برائوں میں بھی اچھائیوں کا پہلو دیکھ لیتے ہیں ہندوستان میں بیربل کی کہانی بچوں کو اچھی امید رکھنے کے لیے یوں سنائی جاتی ہے کہ بادشاہ اکبر اور بیر بل ساتھ میں شکار کے لیے جانے لگے تو اکبر بادشاہ تلوار کی دھار دیکھ رہا تھا کہ اس کا انگوٹھا کٹ گیا،بادشاہ اکبر نے بیر بل سے کہا میرا انگوٹھا کٹ گیا،بیر بل نے کہاکہ کوئی بات نہیں جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے ۔بادشاہ نے اپنےسپائیوں کو حکم دیا کہ بیر بل کو صبح تک مارو اور صبح اسے پھانسی دے دینا۔غصہ میں یہ حکم دے کر بادشاہ شکار کے لیے چلا گیا۔

جنگل میں بادشاہ کو جنگلی لوگ مل گئے جو بادشاہ کو اپنے دیوتا کو بھینٹ دینے لگے جب وہ بادشاہ کو کاٹنے لگے تو دیکھا کہ بادشاہ کا انگوٹھاکٹا ہوا ہے۔انہوں نے اسے ناپاک قرار دے کر زندہ چھوڑ دیا ۔بادشاہ کو اب بیربل کی بات یاد آئی تو وہ غمگین واپس لوٹا لیکن دیکھا کہ ابھی بیربل کو پھانسی نہیں لگی تھی ،بادشاہ نے بیر بل کے پاؤں پکڑ لیے اور اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ سنایا۔بادشاہ نے بیر بل سے معافی مانگی کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت بُرا کیا لیکن بیر بل نے کہا کہ کوئی بات نہیں جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے ۔بادشاہ نے کہا کہ بیر بل تم پاگل ہو کہ اتنی مار کھانے کو اچھا کہہ رہے ہو۔بیر بل نے کہا کہ اگر آپ مجھے ساتھ لے جاتے تو وہ جنگلی مجھے بھینٹ چڑھا دیتے۔آپ کی سزا کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔اس قسم کی کہانیوں سے بچوں کو مثبت امید رکھنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ غلط کام کر کے اچھی امید کرنے سے کیا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے ۔ بغیر عمل کے امید خواہ مثبت ہی ہو اس خالی کنواں کی طرح ہے ، جو پیاسے کے لیے دور سے تو جنت کا نظارہ ہے مگر حقیقت میں ایک خالی گھڑے کے سوا کچھ نہیں۔

امیدیں بہت اچھی ہوتی ہیں اگر مثبت اور عمل کے ساتھ کی جائیں ۔اگر ہم یہ امید کریں کہ نواز شریف کی حکومت میں بجلی ایک سال کے بعد کبھی نہیں جائے گی ، ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔غربت ختم ہو جائے گی تو امیدیں تو اچھی ہیں لیکن ایک سال میں ایسی امیدوں کے پورے ہونے کی امید کرنا ایسے ہی ہے جیسے ایک سال کے بچے سے امید کی جائے کہ وہ کے ۔ٹو کی چوٹی سر کرئے۔ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا یہ جملہ محض خود کو دھوکا دینا ہے۔

حقیقت پر مبنی امیدیں کوشش کے ساتھ پوری کی جاسکتی ہیں۔ عمل انسان کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے،شیخ سعدی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنے چھوٹے قد کے دبلے پتلے بیٹے کو بطور سپہ سلار بھجنے کے بارے حقارت کی نظر سے دیکھا کہ یہ کمزور لاغر نظر آتا ہے ،کیوں نہ کسی موٹے لمبے بیٹے کو منتخب کیا جائے ،چھوٹے قد کا لڑکا باپ کی نظر کو سمجھ گیا اور اس نے باپ سے کہا ،ابا حضور اگرچہ ہاتھی بڑا ہوتا ہے لیکن لوگ قربانی بکرے کی کرتے ہیں ،کوہ طور اگرچہ چھوٹا پہاڑ ہے لیکن تکریم میں بڑھا ہوا ہے، لوگ جنگ میں پتلے جست گھوڑے کا انتخاب کرتے ہیں نہ کہ پلی ہوئی گائے کو میدان جنگ میں لے کر جاتے ہیں۔بادشاہ کو لڑ کے کی باتوں سے امید بندھی اور اس نے اسے سپہ سلار بنا کر بھیجا اور بعد ازاں وہ جنگ جیت کر واپس آیا۔امیدیں حالات کے پیش نظر باندھی جاتی ہیں ،رب بھی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے لیے ویسا ہو جاتا ہوں جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ گویا اپنے متعلق امیدیں مثبت کرنا اور ان کی تکمیل کے لیے کوشش کرنا زندگی کی ترقی کی ضمانت ہیں۔

ہم بطور قوم اگر اچھی امیدیں رکھ کر عمل کریں تو ہر مشکل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ امیدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت سے اور صبر سے کام لیا جائے ،کوئی بیچ ایک دن میں درخت نہیں بنتا۔ہمیں ہر صورت اس کی پرورش کے لیے وقت دینا ہوتا ہے۔ امید کرنا اچھا ہے مگر بیچ کو ہاتھ میں رکھ کر یہ سوچنا کہ وہ خود سے درخت بن جائے گا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔
kanwal naveed
About the Author: kanwal naveed Read More Articles by kanwal naveed: 7 Articles with 4565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.