رمضان آگیا

کچھ سال پہلے کی بات ہے، ایک جاننے والے سے پوچھا، رمضان کیسے گزررہا ہے؟ بولے، ایک دم اے ون، سحری کرکے سوتا ہوں تو دوپہر ڈھائی، تین بجے آنکھ کھلتی ہے۔ ذرا فریش ہوکر ٹی وی کے سامنے آبیٹھتا ہوں، ایک آدھ انڈین فلم دیکھ پاتا ہوں کہ مساجد سے افطاری کے سائرن بجنے لگتے ہیں۔ افطار اور کھانے سے فارغ ہوکر دوستوں سے گپ شپ کے لیے باہر چلا جاتا ہوں اور سحری کے لیے ہی گھر واپس لوٹتا ہوں۔ یار! اس بار تو بڑا مزا آرہا ہے، روزے کا پتا ہی نہیں چلتا، کب شروع ہوا اور کب ختم۔

یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے، ہمارے آس پاس اس طرح کے ’’روزے دار‘‘ اور بھی بہت مل جائیں گے۔ اﷲ معاف کرے، رمضان جتنا عالی شان مہمان ہے ہم اس کی اتنی ہی بے قدری کرتے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو سرے سے روزہ رکھتے ہی نہیں اور جو رکھتے ہیں ان کا حال بھی ان صاحب جیسا ہے جن کا اوپر ذکر ہوا۔ نماز کا اہتمام، نہ تراویح کا شوق، قرآن پاک کھولتے تک نہیں، زبان پہلے کی طرح بے لگام، ساری چور بازاریاں جاری، حسب معمول ٹی وی سے بھی لطف اندوز ہوا جارہا ہے اور پھر بھی روزہ ہے!

ہماری مسجد کے امام صاحب قرآن وحدیث کی روشنی میں بتا رہے تھے کہ روزے کا مقصد تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ پورے مہینے آدمی گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، راتوں کو اٹھ کر اﷲ کے سامنے گڑگڑاتا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، اپنی زبان کو ذکر واذکار سے تر رکھتا ہے، گویا یہ تربیت کا مہینہ ہے، جس طرح کسی گاڑی میں کوئی خرابی ہوجائے تو اسے مرمت کے لیے چند روز ورکشاپ میں کھڑا کردیتے ہیں، اس طرح اس مہینے میں مسلمانوں کی مرمت ہوتی ہے، ان کے دل میں گناہوں کی وجہ سے جو ڈنٹ پڑجاتے ہیں، انہیں درست کیا جاتا ہے۔ اگر اس مہینے میں کوئی شخص اعمال صالحہ کی طرف مائل نہ ہو تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے۔

رمضان سے دو دن پہلے محلے کے لڑکوں کو بجلی کے کھمبوں پر بلب لگاتے ہوئے دیکھا تو دل باغ باغ ہوگیا، ان کے لیے دل سے دعا نکلی، سوچا جو لوگ نوجوان نسل کو کوستے رہتے ہیں، انہیں لاکر دکھاؤں کہ دیکھو! یہ ہے ہماری نوجوان نسل، جو روزہ داروں کی سہولت کے لیے گلیوں میں قمقمے روشن کررہی ہے۔ ایک بچے کو شاباش دیتے ہوئے کہامنے! تم لوگوں نے تو بڑا چھا کام کیا ہے، وہ بولا جی انکل! ہم نے محلے والوں کے لیے پورے رمضان نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انتظام کیا ہے، کتنا مزا آئے گا ناں؟ یہ سنتے ہی ہم تو لاحول پڑھتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے۔ یہ ماجرا صرف ہمارے محلے کا نہیں ہے، جدھر دیکھو، رات رات بھر کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ جو راتیں مصلے پر گزرنی چاہیے تھیں وہ وکٹ پر گزر رہی ہیں۔ اب رات کو کرکٹ کھیلنا رمضان کا نیا فیشن بن چکا ہے۔

نوجوان اس لہو ولعب کے ذریعے اپنی راتیں تو ’’سیاہ‘‘ کرہی رہے ہیں، محلے والوں کے لیے بھی یہ کرکٹ مصیبت بن چکی ہے۔ نوجوانوں کی ہلڑبازی اور خرمستیوں نے گھروں کو بھی کرکٹ کا میدان بنادیا ہے۔ ان نوجوانوں کو کوئی کچھ بول بھی نہیں پاتا، کیونکہ جتنے یہ ’’مہذب‘‘ ہیں اس کا سبھی کو علم ہے۔ یہاں کراچی میں ایک اور ڈر ہے، ایک بڑے میاں کو کہا لڑکوں کو ذرا ڈانٹ دیں تاکہ گلی میں نہ کھیلا کریں، بولے! ڈانٹ تو دوں لیکن اگر لونڈے تنظیمی نکل آئے تو……!

ایک اور داستان غم بھی پڑھتے جائیے! پہلے رمضان بڑی سادگی کے ساتھ آتا تھا، اب یہ بے چارہ میڈیا کے ہاتھوں چڑھ گیا ہے۔ سحر اور افطار کی نشریات کے نام پر وہ دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے کہ الامان والحفیظ…… جس چینل کو دیکھو، کوئی نہ کوئی دکان کھولے نظر آئے گا۔ ایک صاحب نے تو رمضان نشریات کو باقاعدہ سرکس کا روپ دیا ہوا ہے۔ ان کی آنیاں جانیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ فلمی اداکارائیں، گویے اور کھلاڑی چینلوں پر روزے کا فلسفہ بیان کررہے ہیں۔ تماشا تو یہ بھی ہے کہ علماء کی بجائے الونما لوگ عوام کو فقہی مسائل بتا رہے ہیں۔کیا فتنہ کسی اور چیز کا نام ہے؟

میڈیا نے رمضان کے ساتھ ایک اور ظلم بھی کیا ہے، اس ماہ کے ساتھ تقدس، عبادات کا شوق، تقویٰ اور پرہیز گاری کے جذبات جڑے ہوئے ہیں لیکن میڈیا نے رمضان کو صرف کھانے پینے سے جوڑ دیا ہے۔ ایسا تاثر قائم کردیا گیا ہے کہ گویا رمضان کھانے، بہت کھانے کا مہینہ ہے اور بس!…… اسی وجہ سے ان دنوں ٹی وی چینلوں کے کوکنگ پروگراموں کی ریٹنگ بہت زیادہ ہے۔ سحر وافطار کے لیے نئی نئی ڈشیں بنانے کے لیے چینلوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سنا ہے آج کل اچھا کک معروف اینکروں کے برابر تنخواہ وصول کررہا ہے۔ میڈیا کی اس کھاؤپیو مہم کا اثر ہم پر بھی پڑا ہے، اسی لیے ہمارے گھروں میں سارا دن سحری اور افطاری کی ڈشوں کے پلان بنتے رہتے ہیں۔ بابا کھانے سے کون منع کرتا ہے، کھاؤ اور خوب کھاؤ، بس ذرا یہ دھیان رہے رمضان کامقصد سالانہ راشن بندی ہے اور نہ یہ زبان کے چٹخارے کا موسم ہے۔ سچ پوچھیے تو رمضان میں ہمارے طورطریقے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ’’یہ امت ڈش جات میں کھوگئی‘‘ کھانے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ اس ذہنیت پر اعتراض ہے جو سارا دن صرف ڈشوں کے بارے میں ہی سوچتی رہے۔ لوگ اچھا کھاتے اور اچھی عبادت کرتے ہیں اور ہم صرف کھاتے ہیں۔

حضرت بایزید بسطامی رحمہ اﷲ ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں، وہ جس روز زیادہ کھالیتے عبادت بھی خوب کرتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے ’’اے نفس! گدھے کو زیادہ کھلایا جاتا ہے تو اس سے کام بھی ڈٹ کر لیا جاتا ہے، میں بھی تم کو تھکادوں گا‘‘۔ حضرت شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا رحمہ اﷲ کم کھاتے لیکن اچھا کھاتے تھے۔ ہمارا حال یہ ہے ہم زیادہ کھاتے ہیں اور اوٹ پٹانگ کھاتے ہیں۔ دو نمبر گھی میں تلے ہوئے پکوڑے اور سموسے کھاکر تراویح میں کھٹی ڈکاریں اور پیٹ میں گدگدی ہی ہوگی۔ ویسے ہم لوگ بھی کیا کریں، جس معاشرے میں خربوزے بھی سیکرین کی انجکشن لگاکر بیچے جاتے ہوں وہاں ایک نمبر چیز کیا ملے گی۔

ایک قاری نے بہت خوبصورت ایس ایم ایس بھیجا ہے، آپ سے شیئر کرتا ہوں ’’زندگی کو رمضان جیسا بنالو تو موت عید جیسی ہوگی۔‘‘
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102428 views i am a working journalist ,.. View More