ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھکو

صبح سے گھر سے نکلنے کی تیسری کوشش میں ناکامی کے بعد میں نے گھر کے باہر موجود دریائے راوی کی موجوں سے ہار مان کر کل چھٹی منا لی تھی ،زوردار بارش کے بعد پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال اورموٹر سائیکل کے سائیلنسر میں گھسنے والے پانی نے باہر جانے کے میرے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے روک دیا اور موٹر سایئکل کی کک مار مار کر مزیدہلکان ہونے کی ہمت بھی بالکل نہیں تھی، چونکہ قلم کے مزدوروں کی جیب کا حجم اسقدر نہیں ہوتا کہ وہ مری یا اس جیسے کسی اور تفریحی مقام کو نکل جائیں سو تیز بارش کے بعدوجود میں آنے والے اس دریا کے نظارے نے میری اس محرومی کو ختم کر کے میرے لئے اچھی خاصی تفریح کا سامان پیدا کر دیا تھا اور گھر میں مقید ہو کر میں نے اس پانی میں کئی خیالی کشتیاں اتاریں اور ہر کشتی ایک نئے خیال کی آمد کے ساتھ فنا ہو کے رہ جاتی دن بھر یہ سلسلہ جاری رہا میں دروازے تک جاتا اور اس نظارے پر واسا والوں کو ڈھیر ساری دعائیں اور داد دے کرواپس کمرے میں آجاتا شام تک میری دنیا یہاں تک ہی محدود رہی اور مجھے قطعی احساس نہ ہوا کہ شہر میں اس جیسے بے شماردریااور ندیاں بہنے لگی ہیں اور مجھ جیسے کئی دوسرے سفید پوش بھائی جو تفریحی مقامات کی کہانیاں صرف امراء کی زبانی سن کر ہی محظوظ ہوتے رہتے ہیں ان سب پر آج واسا نے احسان کر دیا ہے شام کوکچھ انتہائی ضروری کام جن کی انجام دہی کے بغیر رات کی نیند میں خلل کا اندیشہ تھا کرنے کی غرض سے موٹر سائیکل کو آنکھیں بند کرکے دریا میں اتارا اپنی سڑک سے باہر آیا تو اگلی سڑک کا منظر بھی کچھ مختلف نہ تھا اسکے ساتھ والی اورپھر نہ جانے کون کون سی سڑک تھی جو منیر نیازی کے شعر کا عملی نمونہ بن کر میرے سامنے نہیں آئی اور مجھے لگ بھگ ہر سڑک پر دریا نہیں بلکہ ایک بہت بڑے دریا کا سامنا تھا جلد ہی مجھ پر یہ راز کھلتا چلا گیا کہ یہاں تو راوی کے علاوہ چناب،جہلم، ستلج اور دریائے سندھ بھی پورے جوش کیساتھ بہہ رہے ہیں اور واسا کا محکمہ کسی خاص وجہ سے پانی پانی ہو یا نہ ہو لیکن پورا شہر ضرور پانی پانی ہو چکا ہے میں اب پانی میں گھومنے کے اس موقع کو کھونا نہیں چاہتا تھا طبیعت میں تجسس کی خامی کی وجہ سے بھی میں مجبور تھا کہ اس پانی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں اسکی گہرائیاں اور وسعتیں جانچنے کی سعی کروں انجینئر ہو تا تو یہاں بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیتالیکن میرے نصیب میں اتنا ہی لکھا تھا کہ جا بجا آنے والے کھڈوں اور کھلے گٹروں سے بچنے بچانے کے کھیل کا لطف ہی لیتا رہوں اس دوران کئی بار میرے وجود کو اچانک اوربھرپورجھٹکے بھی لگے اور میں ایکدم اپنی تخیلاتی پرواز سے دھڑام کر کے نیچے آرہا مگر میں نے ان جھٹکوں کو اپنے لئے ورزش سے زیادہ کچھ اور تسلیم نہیں کیا تھوڑی ہی دیر میں پتلون کے پائینچے خوب گیلے ہوگئے اور میرے جوتے پانی جیسی نعمت کوبھی بوجھ سمجھنے لگے تو میرے اس مطالعاتی دورے کا لطف کم ہونے لگ گیااور میں واپس گھر آگیااب میں پھر سے اپنے گھٹن زدہ کمرے میں بندہوں شام کے پر لطف نظارے ابھی تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوئے لیکن اب کچھ ناپسندیدہ خیالات اور وسوسوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لینا شروع کر دیا ہے مثال کے طور پر مجھے اس خیال نے پریشان کیا ہو اہے کہ اگر اندھیرے میں کسی کھلے گٹر میں گر کر مجھے کچھ ہو جاتا توکیا ہوتا حالانکہ اس طرح کا خیال کسی عقل والے کو نہیں آسکتا واسا والوں کو تو بالکل بھی نہیں بھلا ایک شہری کا گٹر کے اندر کیا کام اور میں اکیلا ہی کیا شہرکا شہر ہی آج تواس تفریحی سفر پر نکلا ہو گا یوں بھی سیروتفریح میں اگر تھوڑا بہت خطرہ نہ ہو تو لطف کیسا مگر میں شایدایک خشک انسان کا روپ دھار چکا ہوں اور مجھے تفریح راس ہی نہیں میری احسان فراموشی کی حد ہے کہ میں سرکار کے فرض شناس افسروں کی محنت سے جمع کئے ہوئے پانی پر بھی پانی پھیرنے کی کو شش کر رہا ہوں اس طرح کے خیالات کسی ترقی پسند انسان کے نہیں ہو سکتے ایک ایسے وقت میں جب ملک کے دریا ؤں کا پانی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے نکاسی ء آب کے محکمے کے انتہائی قابل اور محنتی افسروں کی بدولت شہروں کے عین وسعت میں دریاؤں کی سہولتوں کی فراہمی کسی عظیم کارنامے سے کم نہیں اور اس پرشہریوں کی خوشی کا عالم کیا ہو گا اس کا تصور بھی محال ہے شہری چاہیں تو نہائیں اور چاہیں تو اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کریں اس پانی میں گٹروں کے پانی کی خوشبورنگ اور ذائقہ بھی سونے پر سہاگے کی طرح ہے عام شہریوں کو ویسے پہلے بھی صاف پانی پینے کی کب عادت ہے شہروں میں دریا بننے سے کشتیوں کا کاروبار بھی خوب چمک سکتا ہے اور بے روزگار نوجوانوں کو ملاح کی نوکریاں ملنے کے امکانات بھی روشن ہیں پانی کی گلیوں اور سڑکوں پر بلا تعطل فراہمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بطخیں پال کر ان بطخوں سے ترسیلات و باربرداری کاکام بھی لیا جاسکتا ہے اور ان کے انڈے بھی الگ کام آئیں گے مگر یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی مری بزد ل و ناشکری طبیعت کو عیش و عشرت والی ایسی زندگی قبول نہیں سومیرے جیسے انسان کو تو کسی صحرا میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ آنا چاہئے پانی دیکھنے کو بھی نہیں ملے گا توخود ہی عقل ٹھکانے آجائے گی۔
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 68222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.