پرانا قرضہ اُتارنے کیلئے نیا قرضہ لینا پڑا

جمشید خٹک

زرمبادلہ میں شدید کمی کے باعث پاکستان کو ایک بار پھر IMF کی طر ف رجوع کرنا پڑا۔کافی گفت وشنید کے بعد پاکستان اور IMF کے مابین بیل آؤٹ پیکج کے تحت 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کا معاہدہ Extended Fund Facility (EFF) کے تحت کیا گیا ۔EFF کے تحت اُن ممالک کو قرضہ دیا جاتا ہے ۔جب اُن کو معاشی مشکلا ت کو حل کرنے کیلئے لمبے عرصے کیلئے مالیاتی مدد درکار ہو۔اس پروگرام کے تحت قرضے کی واپسی کیلئے چار سے دس سال تک کا عرصہ مقرر کیا جاتا ہے ۔جبکہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) مختصر مدت کیلئے قرضہ دیا جاتا ہے۔پاکستان کو موجودہ معاہدے کے تحت یہ قرضہ تین سال کے دوران تک ملے گا۔شرح سود 3 فی صد ہوگا۔پاکستان کی حکومت نے پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے 3.2 ارب ڈالر ایڈوانس کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہے ۔کہ پاکستان کو IMF کے پاس کچکول لے کر قرضے کیلئے جانا پڑا۔پہلی دفعہ 1958 میں IMF سے قرضہ لیا۔اُس کے بعد ہر دور میں یہ قرضے لئے گئے ۔ 2007-08 میں پاکستان کو بھی اربوں ڈالر قرضہ دیا گیا ۔جبکہ 2010 میں 11 ارب ڈالر کے قرضوں کی بات کی گئی جس میں 7 ارب ڈالر تو مل گئے لیکن باقی ماندہ رقم پاکستان نے مطلوبہ شرائط پورے نہیں کئے جس کی وجہ سے باقی رقم کی ادائیگی روک لی گئی ۔

موجودہ معاہدے میں IMF نے قرضے دینے کیلئے سخت شرائط عائد کئے ہیں۔جس میں ہر قسم کے سبسڈیز کا خاتمہ ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ ، کرنسی مارکیٹ میں سٹیٹ بینک کی عدم مداخلت ، پرائیوٹائزیشن کے عمل کو تیز کرنا،افراط زر کو کنٹرول کرنا، خسارے کے بجٹ کو ختم کرنا، ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔یہ وہ کڑوی گولیاں ہیں جو نہ ایک معیشت اُگل سکتا ہے نہ نگل سکتا ہے ۔لیکن پھر بھی معیشت کو عارضی طور پر سنبھالنے کیلئے IMF کے پاس جانا نا گزیر تھا۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔سرکاری خزانہ خالی ہے ۔ٹیکس عوام ادا نہیں کرتے ۔سرمایہ کاری ہو نہیں رہی ۔قومی پیداوار کم ترین سطح پر ہے ۔تیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔اگر IMF بھی ہمارے کچکول میں کچھ نہیں ڈالتا تو کیا ہوتا۔ہم بیرونی قرضے ادا کرنے سے قاصر رہتے ۔جب مقررہ وقت پر قرضے اد ا نہیں کئے جاتے تو اُس ملک کو ڈیفالٹر قرار دیا جاتا ہے ۔دیوالیہ قرار دینے کے بعد کوئی بھی ملک لیٹر آ ف کریڈٹ کو قبول نہیں کرتے ۔درآمدات میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔پاکستان کی کل درآمدات تقریباً 45 ارب ڈالر کے متاثر ہونے کا امکانات پیش ہو سکتے ہیں۔یہ قرضہ لینے کے بعد حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔کہ زیادہ سے زیادہ شرح نمو کو حاصل کرنے کیلئے سارے وسائل کو بروئے کار لایا جائے ۔ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ۔سب سے اہم کام سرکاری اخراجات میں کمی کرنا ہے ۔بجٹ 2013-14 میں مقرر کردہ تمام اہداف کو حاصل کیا جائے ۔لیکن ان سب کا دارومدار توانائی کے حصول پر ہے ۔اگر توانائی کی مد میں حالات کو سازگار بنا دیا گیا ۔تو صنعت کا پہیہ چل پڑیگا۔جس سے روزگار میں بہتری آئیگی اور معیشت رواں دواں رہے گی۔

IMF نے سال 2012 میں پاکستان کو خبردار کیا تھا۔کہ پاکستانی معیشت مزید بوجھ اُٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔اس لئے معیشت کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔لیکن ان وارننگز کے باوجود اخراجات میں کمی نہیں کی گئی اور قرضوں کا سلسلہ جاری رہا۔جس سے قرضوں کی بوجھ 13.62 کھر ب روپے تک پہنچ گیا ۔جبکہ 1999 میں یہ قرضہ صرف 3 کھرب روپے تھا۔گذشتہ پانچ سالوں میں 2008 میں 6.5 کھرب روپے سے بڑھ کر 7.5 کھرب روپے تک پ پہنچ گیا ۔قرضوں میں یہ بے تحاشہ اضافہ کمزور معیشت کی نشانی ہے ۔یہ کمزور معیشت ملک کے تمام اکنامک انڈیکیٹر ز سے ظاہر ہوتی ہیں۔اکنامک سروے کے مطابق توانائی کی بحران نے معیشت کو ہلا کر کے رکھ دیا ہے ۔اس کے باوجود کہ حکومت نے پچھلے سالوں میں بجلی کی مد میں 1.4 کھرب روپے کی سبسڈی کی ادائیگیاں کی ہیں ۔لیکن نہ تو لوڈشیڈنگ میں کمی آئی نہ بجلی کے پیداوار میں اضافے کو ممکن بنایا گیا ۔بلکہ اُلٹا 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ جمع ہوگیا ۔جس کو حل کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے 320 ارب روپے کی پہلی قسط کی ادائیگی کردی ۔لیکن اس ادائیگی کے باوجود بجلی کی بحران میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے ۔وزیر خزانہ نے یہ عزم کیا ہے ۔کہ اگست تک سارے گردشی قرضے ختم ہوجا ئینگے ۔کیا گردشی قرضے کے خاتمے کے بعد بجلی کا پورا نظام صحیح ہو جائیگا اور مزید گردشی قرضہ میں اضافہ نہیں ہوگا۔اس کی ضمانت کون دیگااور کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائیگا۔گردشی قرضہ تو اُتار دیا جائیگا۔لیکن اس گردشی قرضے کو دوبارہ کیسے روکا جائے گا۔لائن لاسزز کو کیسے کنٹرول کیا جائیگا۔اس سلسلے میں کوئی جامع منصوبہ بندی اور جنگی بنیادوں پر اس قسم کے اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔

پچھلے سال بیرونی زرمبادلہ کی ترسیل صرف 800 ملین ڈالر تک رہی ۔جبکہ ٹارگٹ 1.8 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔یہ ایک ارب ڈالر کی کمی ایک خطیر رقم ہے ۔موجودہ مالی خسارہ 2.9 ارب ڈالر رہا ۔جبکہ یہ خسارے کے ٹارگٹ 2 ارب ڈالر رکھا گیا تھا۔یہ کمی معیشت پر ایک مسلسل دباؤہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں گرتی جارہی ہے ۔جب زرمبادلہ کے ذخائر سوکھ رہے ہوں تو روپیہ ڈالر کے پیچھے پیچھے بھاگتا ہے ۔سرمایہ کار ، کارخانہ دار ، بیرونی ممالک کا سیر کرنے والے لوگ زیادہ سے زیادہ روپے کے عوض ڈالر خریدتے رہتے ہیں۔کرنسی مارکیٹ میں روپے کی قیمت کم سے کم اور ڈالر کی قدر بڑھتی جاتی ہے ۔ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ۔سٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر تک کے ذخائر رہ گئے ہیں ۔جو ملک کی درآمدات کے لئے صرف چند ہفتوں کیلئے بھی نا کافی ہونگے ۔جب کہ ڈالر 100 روپے سے تجاوز کرگیا ہے ۔روپے کی قیمت گٹھنے سے معیشت کو کئی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔روپوں میں بیرونی قرضہ جات کی رقم دوگنا ہو جاتی ہے ۔مہنگائی کا جن بوتل سے نکل آتا ہے ۔پور ے ملک میں مہنگائی کی لہر پھیل جاتی ہے ۔

IMF کی طرف سے یہ پیکج آکسیجن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔تھوڑے سے عرصے کیلئے معاشی صحت کو سہارا دے سکتا ہے ۔لیکن لمبے عرصے کیلئے یہ دوا کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ۔عارضی طور پر ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے یہ Dicadoron کا انجکشن بھی ضروری ہے ۔لیکن یہ اس مرض کا پائیدارحل نہیں ہے ۔IMF سے قرضہ لینے پر اعتراضات کے باوجود غریب ،پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک یہ انجکشن لینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔بیمار معیشت کو سہارا دینے کیلئے زکوٰۃ ، خیرات اور قرضے کا عمل جاری رہتا ہے ۔پاکستان بھی دوسرے غریب ممالک کی طرح بہ امر مجبوری یہ کچکول لئے پھرتا ہے ۔ہر در پر یہ صدا لگاتا ہے ۔
؂ جو دے اُس کا بھی بھلا
جو نہ دے اُس کابھی بھلا
اُدھر سے جواب آتا ہے ۔کہ قرضہ مل جائیگا۔لیکن یہ گانا گانا پڑیگا۔
؂ جس کا کھانا اُس کا گانا
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.