کمزروی /مجبوری یا ہم اِس کی ضرورت ہیں...؟غلطی کہاں ہوئی ہے..؟

لیجئے جناب...!آج آئی ایم ایف کے قرضے اُتار نے کے لئے آئی ایم ایف ہی سے قرض اُتارومُلک سنوار کے نام پر پی ایم ایل ن کی ہماری پچاس دن کی نومولود حکومت نے بھی وہی کچھ کردیاہے جس کی یہ ہمیشہ سے مخالف رہی ہے،یعنی یہ کہ جب یہ زرداری حکومت میں اپوزیش میں تھی تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والوں سے قرضے لینے کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ قرار دیتی تھی اور کہتی پھرتی تھی کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم چنددنوں ہی میں مُلک کو اِس کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر اِسے اِس کے پیروں پر کھڑاکردیں گے ہم مُلک کی تقدیر قرضوں سے نہیں اپنے دستیاب وسائل کے استعمال سے بد ل دیں گے ،اِس حکومت نے اور ایسے بہت سے دعوے کئے تھے جنہیں سب جانتے ہیں ، جی یہی نواز شریف اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن تھی جو زرداری حکومت کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پر ہر بار ایسے تنقید کا نشانہ بناتے رہی ہے، جیسے زرداری حکومت کا اِن اداروں سے قرضہ لینا کوئی مجبوری نہیں تھی،اوریہ سوال اُٹھاتی تھی کہ جب قرضوں کی ضرورت نہیں ہے توکیوں زرداری حکومت اِن اداروں سے قرضہ لینے کو اپنی بقا اور مُلکی سالمیت کی ضامن گردانتی ہے.. ؟مگر اَب اِس حکومت کو کیا ہوگیاہے...؟ کہ آج نوازشریف کی نئی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینااپنی عافیت جانی اور پھر وہی کچھ خود بھی کرڈالا ہے جس کی یہ سب سے بڑی مخالف ہواکرتی تھی۔

جبکہ یہاں یہ امر قابلِ غورضرور ہے کہ آج ہمارے حکمران بڑے خوش ہیں کہ اِنہوں نے اُدھار مانگنے والی اپنی ضد اوراُصولوں پر سودے بازی نہیں کی ہے، اور اِنہوں نے قرض مانگنے پر کسی کے سامنے اپنا اور قوم کاسر نہ جھکا کر مُلک کے وقار اور قوم کی عزت کی دھجیاں نہیں بکھیرنے دیں اورآئی ایم ایف کی کسی دھونس اور دھمکی میں آئے بغیراِس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چند کٹھن مگرزہر یلے گھونٹ پینے جیسے نکا ت ’’سرکاری اداروں کی نجکاری ، یکساں ٹیکس نظام کا نفاذ، سبسڈیز کا بتدریج خاتمہ، ٹیکس مراعات کے ایس آر او ختم کرنا،اور بہت سے ایسے اقدامات و اعلانات کے ساتھ ساتھ اور ایک کامیاب مذاکرات کے بعد( بقول وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مُلک و قوم کے بہتر مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے) اِس (آئی ایم ایف)سے 5.3ارب ڈالر کا قرضہ منظورکرالیا ہے، اوریوں اِنہوں نے آئی ایم ایف کو مجبورکردیاہے کہ یہ ہماری خواہشات ومرضی اورشرائط کے مطابق ہمیں قرضہ دے ،آج ہمارے حکمران جن کا پیٹ اِس قرضے سے بھی نہیں بھرے گا،یعنی اَب ہمارے اِن نئے حکمرانوں کا اِن اداروں سے قرض لینے کا جو سلسلہ شروع ہوگیاہے، وہ شاید اُس وقت تک جاری رہے جب تک یہ حکومت دو، چار ، سال جاری رہے گی اور یوں ہمارے یہ حکمران آئندہ بھی قرض اُتارو مُلک سنوارو کے نام پر قرضے پے قرضہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے لیتے رہیں گے اور سُکھ کا سانس بھرنے لگیں گے حکمرانوں کو تو سُکھ کا سانس نصیب ہوجائے گا مگر یہ بھی امکان ہے کہ عوام کا سانس رک جائے گااور عوام مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر زندہ درگورہوتے جائیں گے۔

آج ہمارے حکمرانوں نے جن مُلکی حالات اور واقعات کے پیشِ نظرآئی ایم ایف سے قرضے اُتارنے کے لئے قرض تو لے لیا ہے، مگراَب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اِن حالات میں 3فیصدشرح سود کے حساب سے لیاگیایہ قرضہ کیسے اداکرتے ہیں..؟ جبکہ ایک طرف مُلکی معیشت دگرگوں صورتِ حال سے دوچار ہے، مُلک میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے غیرتسلی بخش سطح تک پہنچ چکی ہے اوربم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور بدامنی کی وجہ سے سار امُلک غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے،ایسے میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت مُلک میں امن وامان کے قیام کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے اور ایسے حالات پیداکرے کہ مُلک میں زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان پروان چڑھے اور اندرونی ملک سے سرمایہ او ر صنعتیں بیرونِ ممالک منتقل نہ ہونے پائیں، تو ممکن ہے کہ اِس سے مُلکی معیشت اور سرمایہ کاری پر مثبت اثرات مرتب ہوں اور حکومت آئی ایم ایف سے 5.3ارب ڈالر کا لیا گیا قرض 3فیصدشرح سُود کے حساب سے اداکرسکے ورنہ اِس کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا۔

ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہمارامُلک پاکستان جو زراعت کے لحاظ سے دنیا کا ایک آئیڈل مُلک ہے، یعنی پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گندم پیداکرنے والا پانچواں بڑامُلک ہے، پیاز اور گوشت کے لحاظ سے دنیا کاچوتھامُلک ہے، دالوں کی پیداوار کے میدان میں اِس کا دنیامیں تیسرانمبرآتاہے، اور ایک اندازے کے مطابق آم اور مصالحے جات ، خوبانی اور کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے میرے پاکستان کا دنیا میں بتدریج پانچواں اور چھٹانمبرآتاہے، اور اِس کے میدانی و ریگستانی اور پہاڑی علاقوں میں چھپی نایاب اور قیمتی معدنیات جیسے قدرتی وسائل میں بھی اِس کا اپنا ایک منفرد مقام ہے، اِن ساری خوبیوں اور بے شمار خصوصیات کے باوجود بھی وہ کیا وجوہات ہیں ..؟کہ ہم اپنے وسائل سے اپنی ضروتوں کو پورانہیں کرپارہے ہیں، آج جنہیں پوراکرنے کے لئے پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف اور دیگر)اداروں سے قرض لیناپڑتاہے، اور پھر اِن قرضوں کو اُتار کے لئے اِن ہی سے قرض لیناپڑجاتاہے، ایساکیوں ہے...؟یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں پیداہوگیاہے۔اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقینا شروع دنوں میں ہم سے میرامطلب یہ ہے کہ شاید ہمارے اکابرین سے کہیں نہ کہیں کوئی ایسی سنگین غلطی ضرورہوگئی ہے کہ آج جس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتناپڑرہاہے،جبکہ اِس حوالے سے آج خاص و عام میں ایک خام خیال یہ پایاجاتاہے کہ ہم امریکی اور اِس کے بنائے ہوئے سود کی مدمیں قرضوں کا کاروبارکرنے والے مالیاتی اداروں کی چنگل میں تو اُس ہی وقت پھنس چکے تھے جب ہمارے پہلے وزیراعظم نوابزدہ لیاقت علی خان نے روس کے دورے کی دعوت کو ٹھراکر امریکا کا دورہ کرناپسندکیااور امریکا چلے گئے،تب ہی سے ہم امریکاکے اتنے قریب ہوئے کہ آج ایسالگتا ہے کہ جیسے ہماری خودانحصاری او رمعیشت کاسارا دارومدار ہی امریکا اور آئی ایم ایف جیسے دیگر مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہے، یہ ہماری مجبوری اور ہم اِن کی ضرروت بن گئے ہیں،آج اِنہیں ہم سے جیساکام لیناہوتاہے،یہ اربوں ڈالرز کے قرضوں کے عوض ہم سے وہ تمام کام لے لیتے ہیں ، اور ہم ْقرضوں کی لالچ میں وہ سب کچھ کرنے پر مجبورہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم نے انکارکیا تو یہ ہمیں قرضے لینے کی سفارش کریں گے اور نہ قرضے دیں گے ، مگر ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطی اور غلطیوں کا ازالہ کریں اور آج ہم نے قرضے اُتارنے کے نام پر آئی ایم ایف سے جو 5.3ارب ڈالر کا قرضہ3فیصدشرح سُودپر لے لیاہے،اِسے اداکرکے آئی ایم ایف سے جلداپنی جان چھڑائیں اور اپنے مُلک کو حقیقی معنوں میں ایساکردیں کہ یہ اپنے کمزورمگراپنے اصل پیروں پر کھڑاہوجائے،اورہم پھرکبھی کسی کے آگے کشکول یا پیالیہ اُٹھاکربھیک نہ مانگیں۔(ختم شُد)
محمدسمعیداعظم
About the Author: محمدسمعیداعظم Read More Articles by محمدسمعیداعظم: 20 Articles with 12876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.