وزیر اعظم کا احسن اقدام

پاکستان میں میڈیا کی ازادی کے بعد اس ادارے کو قابو رکھنے کے لئے وقت کی حکومتوں نے ان کو اپنے حق میں کرنے کے لئے کئی طرح کے انعام و کرام دیے جاتے رہے ان اداروں میں کام کرنے والوں کو مختلف خفیہ قسم کی مرعات دی جاتی رہی ہیں جو کہ عوام سے ہمیشہ ہی پوشیدہ رہا کرتی تھی جس کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں ان کے متعلق مختلف شکوک جنم لیتے رہتے تھے اس بات کا اندازہ حالیہ سیکرٹ فنڈز کے مقدمے کے بعد عوام کوپتا چلا کہ کون کون لوگ کتنی کتنی رقم لیتے رہے ہیں اور اس میں یہ بھی پتا چلا کہ قلم کی حرمت کہا ں کہاں فار سیل کے بورڈ کے ساتھ دستیاب رہی اس میں تمام ہی سیاسی جماعتوں پر الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ صحافیوں کو خریدنے میں ملوث رہی ہیں مگر آج جو میرا موضوع ہے وہ ہے وزیر اعظم کی طرف سے ان کے بیرون ممالک کے دوروں کے دوران جانے والے نجی میڈیا کے ورکروں کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی رقم کا روکا جانا اس فیصلے کے کتنے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرئے گا اور اس بات کا بھی پتا چلے گا کہ آیا یہ فیصلہ میڈیا مالکان کو پسند آئے گا یا وہ اس کی مخالفت کریں گے کوئی بھی نئی حکومت نہیں چاہیے گی کہ ملک کے اتنے طاقتور ستون کے ساتھ اس کی ٹھن جائے اطلاعات کے مطابق صحافیوں کیلئے مفت کے بیرون ملک سرکاری دورے اب ختم ہوگئے ہیں کیونکہ وزیراعظم نے اعلان کیا گیا ہے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد جو وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کی کوریج کرنا چاہتے ہیں انہیں خوش آمدید کہا جائے گا لیکن انہیں اپنا خرچہ خود اْٹھانا ہوگاوزیراعظم آفس نے وزیر خارجہ اور وزارت اطلاعات کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ صرف سرکاری میڈیا کے افراد سرکاری خرچہ پر وزیراعظم کے بیرون ملک دورے پر ان کے ساتھ ہوں گے اگر نجی میڈیا وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کی کوریج میں دلچسپی رکھتی ہے تو حکومت انہیں سہولت فراہم کرے گی لیکن سرکاری خزانے سے ان پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جائے گا اگرچہ یہ غیر معمولی پالیسی فیصلہ متعلقہ وزارتوں کو جاری کیا گیا ہے تاہم وزیراعظم اس پالیسی کو اْلٹنے یا اس میں نرمی کیلئے میڈیا کے بااثر افراد کی جانب سے انتہائی زبردست دباؤ میں ہیں کیونکہ ان اداروں کے صحافیوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ماضی میں ہر بیرونی دورے میں اپنا نام شامل کرانے کیلئے کوششیں نہ کرتے رہے ہوں اور اس میں کامیاب بھی ہوتے رہے ہوں یہ بھی بدقسمتی ہے کہ صحافیوں کے علاوہ بعض میڈیامالکان امیر ترین ہونے کے باوجود بھی مفت کے سرکاری بیرونی دوروں کے مزے لوٹتے رہے مال مفت دل بے رحم کی طرح حکومتیں تواتر سے وزیراعظم اور صدر کے انتہائی بڑے سرکاری وفود پر اربوں روپے خرچ کرتی آئی ہیں اب حال ہی میں وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے منظر عام پر آنے سے یہ انکشاف ہوا کہ حکومت نجی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے بیرون ملک دوروں کے خرچے برداشت کرنے کیلئے اس خفیہ فنڈ کا استعمال کررہی تھی وزیراعظم آفس کے پریس ونگ کی جانب سے جاری پالیسی ہدایت کے مطابق ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ نجی میڈیا کے افراد کو سرکاری خرچے پر وزیراعظم کے ساتھ بیرون ملک دوروں پر لے جایا گیا جس پر نہ صرف میڈیا کے حلقوں میں گرما گرم بحث ہوئی بلکہ آزاد اور خودمختار میڈیا کے فروغ میں حکومتی کوششوں پر بھی تہمت لگائی گئی مذکورہ ہدایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور موجودہ حکومت کی کفایت شعاری مہم کے علاوہ شفافیت کے عمل کو فروغ دینے کیلئے پالیسی ہدایت میں کہا گیا ہے کہ اس امر کی خواہش کی گئی ہے کہ نجی میڈیا پرسنز کو بیرون ملک دوروں پر صرف اس صورت میں سہولتیں دی جائیں گی کہ وہ اپنا خرچہ خود اْٹھائیں گے بیرون ملک دوروں کے دوران اقدامات کی تشہیر کیلئے صرف سرکاری میڈیا کو استعمال کیا جائے گا وزارت اطلاعات سے کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے تمام میڈیا کے اداروں کو وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کے بارے میں پیشگی اطلاع دی جانی چاہئے تاکہ میڈیا ہاوسز ایسے دوروں کیلئے اپنے نمائندے مقرر کرسکیں وزارت امور خارجہ سے کہا گیا ہے کہ وہ وزارت اطلاعات کی مدد کرے اور اپنا خرچہ خود اْٹھانے والے صحافیوں کو مخصوص دوروں کے دوران ویزا کے حصول ، رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات اور مختلف مقامات کیلئے انٹری پاسز کے حصول میں سہولت فراہم کرے تاہم ااند ر کی باتیں کرنے والے بتا تے ہیں کہ وزیراعظم بعض بااثر صحافیوں کی جانب سے ملک کے اندر اور بیرون ملک پاکستانی مشنز دونوں میں اہم سرکاری عہدے حاصل کرنے کیلئے سخت دباؤ میں ہیں ابتدا میں میرٹ کو فروغ دینے اور اقربا پروری کو ختم کرنے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم نے پہلے ہی اپنے عزم سے انحراف شروع کردیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال کرکٹ بورڈ میں ایک ایسے شخص کی تعیناتی ہے جس کو کرکٹ کا کچھ خاص علم نہیں ہے تاہم اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا وہ بیرون ملک دوروں کے حوالے سے اپنی پالیسی پر قائم رہتے ہیں یا نہیں کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ ہی سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ملک کے اتنے بڑے طاقتور ستون کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ان کے لئے اندیکھی مراعات کے ساتھ ساتھ بطور نذرانہ ان کے لئے بیرون ملک اور اندرون ملک تفریحی دورے پیش کیے جاتے رہے ہیں اب ان دوروں کو سیاسی دورے کہا جائے یا تفریخی دورے اس کا اعلان تاریخ کا لکھاری ہی کرئے گا-

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207927 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More