فضائل و مسائل رمضان المبارک

یا ایھا الذین اٰمنو اکتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون0’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دئیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرہ پارہ 2آیت 183)

تشریح و توضیح:الصیام’’صوم‘‘کی جمع ہے جسے ہماری زبان میں روزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

لغوی اور شرعی معنی:صوم ’’روزہ‘‘کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے رک جانا کسی چیز کو بالکل ترک کردینا
،اصطلاح شریعت میں صوم ’’روزہ‘‘ کہتے ہیں۔مکلف آدمی کا عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے اپنے آپ کو حقیقہً یا حکماً باز رکھنا۔کتب علیکم الصیام ’’تم پر روزے فرض کر دئیے گئے ہیں ‘‘ ۔امام علاؤ الدین علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ روزے ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد، بعد از تحویل قبلہ دس شعبان المعظم کو فرض ہوئے ۔ عبادات میں سہل ترین عبادت نماز تھی اس لئے سب سے پہلے نماز فرض کی گئی ۔پھر اس سے مشکل چیز زکوٰۃ فرض ہوئی ۔پھر اس کے بعد روزے فرض ہوئے ۔چونکہ روزہ ایک بہت مشکل عبادت تھی طبیعتوں پر سخت گراں تھی اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے فرمایا:کما کتب علی الذین من قبلکم:’’جیسا کہ روزے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘

اے مومنو! اگر چہ یہ عبادت مشکل ہے لیکن یہ نہ سمجھنا کہ صرف تم ہی اس عبادت کے مکلف کئے گئے ہو ۔صرف تمہیں ہی اسکا پابند کیا گیا ہے ۔ایسی بات نہیں تم سے پہلے جتنی بھی امتیں ہو گزری ہیں جنہوں نے مجھے’’الہ‘‘مانا اور میرے نبیوں کی نبوت پر ایمان لائے ،ہر ایک پر یہ عبادت فرض رہی ہے ۔ لہٰذا تم بھی اسے بخوشی قبول کرلو۔سابقہ آسمانی کتابوں میں روزے کا ذکر کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہے توریت شریف میں روزہ داروں کی تعریف کی گئی ہے۔ اسی طرح انجیل کے مختلف نسخوں میں روزہ کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔

فضائل رمضان:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب رمضان شریف داخل ہو تا ہے تو آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیاجاتا ہے ۔نیزآپ ہی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :روزہ کے سوا ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہوتا ہے اور روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا۔‘‘روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص روزہ سے ہوتو وہ نہ جماع کی باتیں کرے نہ شورو شغف کرے اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بد بو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ محبوب ہے روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت وہ اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔(بخاری 259/1)

حضرت سہل رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام باب ریان ہے تو قیامت کے دن روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوں گے انکے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ کہا جائے گا کہاں ہیں روزہ دار؟ پھر روزہ دار کھڑے ہوجائیں گے انکے علاوہ اور کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ان کے گزرجانے کے بعد دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔(بخاری 254/1)

حضرت سلیمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی مسلمان رمضان المبارک میں ایک نفلی نیکی کریگا تو اسے فرض کا ثواب ملے گا اور ایک فرض ادا کریگا تو اسے ستر فرائض کی ادائیگی کا ثواب ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا جنت ہے اور یہ مہینہ غم خواری اور غرباء پروری کا ہے ۔اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔جو اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائیگا تو اسکے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا جائے گا اور اسے روزہ جتنا ثواب ملے گا۔نیز جو روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائیگا اسے اﷲ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے پلائے گا جنت میں داخل ہونے تک کبھی پیاسانہ ہو گا۔‘‘

نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وھو اشھر اوّلہ رحمۃ واو سطہ مغفرۃ واٰخرہ عتق من النار:’’یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔‘‘آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:’’جو اس مہینہ میں اپنے ملازم اور خادم سے کام میں تخفیف کرے گا اسے بھی اﷲ تعالیٰ بخش دے گا اور آگ سے آزاد کر دے گا۔

روزوں کے فرض کرنے کی غرض و غایت:ہر عمل ہر محنت و مشقت اور ہر جدو جہد کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے کی جاتی ہے۔ مسلمانوں پر رمضان شریف کے روزے فرض کرنے کی غرض و غایت اور مقصدکو اﷲ تعالیٰ نے ’’لعلکم تتقون‘‘کے دولفظی جملے میں بیان فرما کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ یعنی لوگو! یوں نہ سمجھنا کہ رمضان شریف کے روزے تم پر بغیر کسی غرض و غایت کے فرض کئے گئے ۔نہ نہ ایسی بات نہیں۔ ان کی فرضیت کے پیچھے ایک عظیم مقصد کار فرمایا ہے ۔سنو!ان کی فرضیت کی غرض یہ ہے لعلکم تتقون۔تاکہ تم تقویٰ و پرہیز گاری جیسی صفت سے موصوف ہو جاؤ۔تم تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہو جاؤ۔ کسان کھیتوں میں ہل چلاتا ہے ۔بیج بوتا ہے ۔محنت و مشقت کرتا ہے ۔مقصد یہ ہوتا ہے غلہ حاصل ہو ۔ مقصد بھوسہ حاصل کرنا نہیں ۔دور سے کھیت دیکھ کر خوش ہو تا ہے کہ چلو ہم اپنے مقصد کے حصول کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔فصل اگانے کے بعد یہ راز کھلے کہ ساری فصل قحط سالی کی نذر ہو گئی اور ہمیں تو سوائے بھوسے کے کچھ نہ ملا۔ کیا کہو گے کسان نے اپنے مقصد کو پالیا ، کیا اس نے ساری محنت و مشقت بھوسے کیلئے کی تھی؟ بھوسہ تو ایک فالتو چیز تھی اصل مقصد تو غلہ کا حصول تھا۔ جب اصل مقصد ہی حاصل نہ ہوا تو سمجھو کہ وہ سراسر ناکام و نامراد رہا ۔ بلا تشبیہہ و مثال ’’لعلکم تتقون‘‘کاکلمہ بڑا قابلِ غور ہے مسلمانوں پر روزہ فرض کرنے کا مقصد وحید تقویٰ کی صفت حسنہ سے انہیں موصوف کرنا تھا ۔ بلکہ کہہ لیجئے کہ حقیقی معنی میں بندہ بنانا تھا تو اگر رمضان نے مسلمان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔رمضان کے آتے ہیں بے نمازی پکا نمازی بن گیا۔مجرم گناہوں سے باز آگیا ۔گناہگار تائب ہو کر حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا محافظ بن گیا ۔حدودِ اسلامیہ اور احکامات شرعیہ کا نگہبان بن گیا۔اسکے ہاتھ ظلم و تعدی سے باز آگئے اسکے قدم معصیت کی طرف اُٹھنے سے رُک گئے ، اسکی زبان جھوٹ بولنے ،غیبت کرنے، گالی گلوچ بکنے اور ناحق کہنے سے گونگی ہو گئی ،کان ناحق سننے سے بہرے ہو گئے ،آنکھیں ناجائز دیکھنے سے اندھی ہو گئیں ، اب ہاتھ اُٹھتا ہے تو کسی کی مدد کیلئے اُٹھتا ہے ،اب قدم اٹھنا ہے تو اطاعت خداوندی میں اُٹھنا ہے ، زبان حرکت میں آتی ہے تو اس سے موتی ہی جھڑتے ہیں ۔رمضان شریف گزرنے کے بعد بھی روزہ دار پر رمضان کا رنگ غالب رہے۔اسکی صحبت کا فیض جاری رہے ۔تو سمجھو کہ اس بندۂ مومن نے مقصد صیام کو پالیا اور گواہی دو کہ واقعی ’’لعلکم تتقون‘‘کی عملی تفسیر یہی ہے ۔ ایسے ہی روزے دار کے بارے میں رسول اکرم نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ:’’جس آدمی نے ایمان کی حالت میں رمضان شریف کے روزے رکھے اور خو د گناہوں سے بچتا رہا اسکے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے ۔(بخاری)لیکن یاد رہے روزہ خود حقیقی منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کا حقیقی ذریعہ ہے ۔یایوں کہہ لیجئے تقویٰ ایسی سواری ہے جو راہ ِ حق کے مسافر کو یقیناً وجزماً منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔مومن کی منزل جنت ہے وہاں پہنچنے کیلئے جو آدمی تقویٰ کی سواری پہ سوار ہو گیا اس کے اور جنت کے درمیان چند سانسوں کی مسافت ہے ۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کا قرآن یوں کہتا ہے ’’اعدت للمتقین‘‘اﷲ تعالیٰ نے وسیع و عریض جنت ان لوگوں کیلئے بنائی ہے جو تقویٰ کی صفت سے موصوف ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجئے! جو لوگ تقویٰ کی سواری پہ سوار ہو کر آئیں گے جنت کے درانہی کے لئے کھلیں گے اور جنت کے حقیقی وارث یہی لوگ ہوں گے۔

حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:فی الجنۃ ثمانیۃ ابواب منھا باب یسمی الریان لا یدخلہ الا الصائمون۔’’جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ ایسا ہے جسے ریان کہا جاتا ہے اس میں سے صرف روزہ دار ہی گزریں گے۔‘‘(متفق علیہ)

پتہ چلا جو لوگ رمضان شریف کا ادب و احترام کرتے ہیں حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے صیام و قیام کا حق ادا کرتے ہیں ’’لعلکم تتقون‘‘کے اُمید افزا پیام کے مطابق اﷲ تعالیٰ انہیں تقویٰ کی سند عطا کر کے جنت کا وارث بنا دیتا ہے ۔

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ روزہ رکھنے کے باوجود روزہ دار اﷲ کی نافرمانی سے باز نہ آیا اس کے دست وپاظلم و تعدی کی طرف بڑھنے اور معصیت کی طرف اُٹھنے سے نہ رُکے ،زبان پہ جھوٹ اور غیبت کا دور دورہ رہا، نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام نہ کیا یا کیا تو کیا لیکن رمضان گزرتے ہی مسجد کو الوداع کہہ دیا نمازیں رخصت ہو گئیں تو جان لوکہ یہ روزہ فقط نام کا ہوا کام کا نہ ہوا ،ایسا روزہ اس قحط زدہ فصل کی طرح ہے جس سے سوائے بھوسہ کے کچھ حاصل نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ انیدع طعامہ وشرابہ۔’’جس شخص نے (باوجود روزے کے)جھوٹ بولنا اور باطل کام کرنا نہ چھوڑا اﷲ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘(بخاری)

ضروری انتباہ:کسی مسلمان مکلف کا عبادت کی نیت سے منتہائے سحر سے منتہائے غروب آفتاب تک قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رہنا روزہ ہے یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ منتہائے سحر سے روزے کا آغاز ہو جاتا ہے ۔لہٰذا صبح صادق کا کوئی خفیف سے خفیف تر لمحہ بھی کھانے پینے میں بسر نہ ہو یہاں تک کہ اگر روزہ دار سحری کھاپی رہا تھا کہ انتہائے سحر کے آخری لمحات آ پہنچے لقمہ منہ میں ہو کہ صبح صادق کی ابتدا ہو جائے اگر چہ ابھی ایک دو سکینڈ ہی گزرے ہوں لازم ہے کہ وہ منہ والا لقمہ باہر نکال دے ورنہ روزہ شروع ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے گا۔ خیال رہے کہ حدیث پاک میں جو سحری کھانے پینے میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے اس سے ابتدائے صبح صادق سے پہلے کی تاخیر مراد ہے ۔اسی طرح افطاری میں جلدی کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد بھی یہ ہے کہ جب سورج غروب ہو نے میں سوفیصد یقین ہو جائے تو اس کے بعد افطاری میں جلدی کرو بعض لوگوں نے خصوصاً روزہ افطاری کے بارے جلدی افطار کرنے کی فضیلت والی حدیث یاد رکھی ہے اور افطاری میں اتنی جلدی مچا دیتے ہیں کہ سورج مکمل غروب ہی نہیں ہوتا کہ دن بھر کی محنت پہ پانی پھیر دیتے ہیں ۔حالانکہ روزہ کے وقت ابتداء اور وقت اختتام کے بارے میں واضح حکم موجود ہے ارشاد خداوندی ہے :کلوا واشربو ا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اٰتمو الصیام الی اللیل۔یعنی صبح صادق کے نمودار ہونے سے پہلے تک سحری کھانے میں تاخیر کرنادرست ہے ۔لیکن یہ جائز نہیں کہ صبح صادق کا کوئی خفیف تر حصہ سحری کھانے میں بسر ہو جائے ۔یوں تو روزہ ابتداء ہی میں فاسد ہو جائے گا۔ اسی طرح روزہ تب پورا ہوتا ہے جب دن کا یقینی اختتام ہو کر آغاز شب ہو جائے ۔اس سلسلہ میں مسلمان بھائیوں بزرگوں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ جہاں تم افطاری میں جلدی کرنے کی فضیلت والی حدیث یاد رکھتے ہو وہاں وعید والی حدیث بھی ضروریاد رکھو تا کہ ’’خیر الامور اوسطھا‘‘’’کہ ہر کام میں درمیانہ پن بہتر ہے‘‘پر عمل کا تعین ہو سکے۔

حدیث فضیلت:سنن ابی داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یہ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘

حدیث وعید:صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں:’’کہ میں سو رہا تھا دو شخص (فرشتے انسانی شکل میں) حاضر ہوئے میرے بازو پکڑ کر ایک پہاڑ کے پاس لے گئے اور مجھ سے کہا پہاڑ پر چڑھئے میں نے کہا پہاڑ مشکل ہے میں نہیں چڑھ سکتا، انہوں نے کہا ہم آسان کر دیتے ہیں بہر حال میں پہاڑ پر چڑھ گیا ۔ پھر مجھے آگے لے گئے میں نے ایک قوم کو دیکھا کہ دل لوگ اُلٹے لٹکا ئے گئے ہیں اور ان کی باچھیں چیری جا رہی ہیں جن سے خو ن بہہ رہا ہے ۔حضور ﷺ فرماتے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو(افطاری میں جلدی کیا کرتے تھے اور)وقت سے پہلے روزہ افطار کر دیا کرتے تھے۔

غیر ضروری تاخیر کرنے والے لوگ جو ستارے خوب روشن ہو جانے پر روزہ افطار کرتے ہیں انہیں حدیث اول بالخصوص یاد رکھنی چاہئے اور جو لوگ افطاری میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ غروب آفتاب میں صرف شک ہوتا ہے یقین نہیں ہوتا افطار کر دیتے ہیں ۔انہیں بالخصوص حدیث دوم پہ نگاہ رکھنی چاہئے ۔ بلکہ سب سے بہتر یہ ہے کہ دونوں حدیث پر عمل ہو وہ یوں کہ جب غروب آفتاب میں سو فیصد یقین ہو جائے پھر افطار کرنے میں جلدی کرو۔

روزے کے متعلق چند ضروری مسائل: کھانے پینے ہم بستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔بشرطیکہ روزہ ہونا یاد ہو ۔خواب میں احتلام ہوجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔بغیر قصد کے قے ہو، اگر چہ بہت زیادہ روزہ نہ ٹوٹے گا ۔البتہ جان بوجھ کر منہ بھر قے کی تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔البتہ بلغم کی قے سے روزہ نہ ٹوٹے گا۔ مکھی حلق میں چلی گئی بلکہ حلق سے اُتر گئے تو روزہ نہ ٹوٹا ۔ہاں مکھی منہ میں پہنچی پھر اپنے ارادہ سے نگل گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔رات کو احتلام ہوایا بیوی سے ہم بستری کی غسل کا موقع نہ ملا تو اسی حالت میں وضو وغیرہ کر کے روزہ رکھ لے ۔بعد ازاں غسل کر لے اگر سارا دن غسل نہ کیا روزہ تو ہو جائے گا البتہ جنبی رہنے اور نمازیں ترک کرنے کا گناہ کبیرہ ضرور لازم آئے گا۔ دورانِ روزہ عورت کو حیض آگیا تو روزہ جاتا رہا ۔ اس کے لئے مستحب ہے کہ بقیہ دن افطار تک کچھ نہ کھائے پیئے ۔اگر کھانا پینا ہی ہو تو چھپ کر کھا پی لے ۔ایام حیض کے روزوں کی قضا لازم ہے ۔ البتہ نمازیں معاف ہیں ۔فقطواللّٰہ تعالیٰ اعلم ورسولہ الاکرم صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ واصحابہٖ وسلم۔

Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 198 Articles with 615003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.