معیشت کو درپیش چیلنجز

ہیلی کالج آف کامرس لاہور

جب کبھی کسی ملک کو ادائیگیوں کے توازن میں مالی بحران یا کسی دوسرے مسائل کی زد میں مالی مشکلات کا سامنا ہو تو عالمی مالیاتی ادارے (IMF)سے رجوع کرتا ہے تاکہ ادائیگیوں کے توازن لانے کے لئے اس کی مدد کی جا سکے ۔عالمی مالیاتی ادارہ اس ملک کی مالی امداد کرنے کے بعد اس کو ہدایت کر تا ہے کہ وہ اپنی طلب اور رسد (Demand & Supply) میں توازن پیدا کر ے اور ساتھ ہی مالی اور زر کی پالیسی (Tight Monetary & Fiscal Policy)سخت کرے ۔

سابق حکومت کی بد انتظامی اور نا اہلی کے باعث نہ صرف ملکی معیشت تباہ ہوئی اور اداروں کو نقصان پہنچا بلکہ ملک قرضوں میں ڈوب گیا ،جسے ہر ایک پاکستانی اضافی ٹیکسوں کی شکل میں ادا کر تا رہے گا ۔بد قسمتی سے آج ہر پاکستانی پیدائشی طور پر 83000روپے کا قرض دار ہے ۔پاکستا ن کی 60سالہ تاریخ میں جتنا قرضہ جمع ہو ا تھا سابقہ حکومت نے اس سے زیادہ قرضہ پانچ سال کے دوران لیا ۔
World Economic Surveyکے سروے کے مطابق پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائز تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور پاکستا ن مالی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔

رواں بر س28جون تک پاکستان کے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو قرضوں کے عوض جو قرضے کی قسط بمع سود 264ارب روپے دیئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت بھاری بھرکم ٹیکس عائد کر رہی ہے اور سبسڈی نہ ہونے کے برابر ہے یہ انعامات اس حکومت کو پچھلی حکومت سے ورثے میں ملے ۔ان مفا د پر ست حکمرانوں کا کیا جانا ہے ،مہنگائی کی چکی میں تو غریب عوام نے ہی پسنا ہے چاہے جتنے بھی قرضے لے لئے جائیں ۔اور ان کی ادائیگی بھی غریب عوام کا خون نچوڑ کر ہونی ہے ۔گردشی قرضے (Circular Debts)بھی گردشوں کے بھنور میں ہیں اور تقریباًیہ قرضے 1000بلین ڈالر ہیں ۔اندرونی قرضے جو سابقہ حکومت سٹیٹ بنک آف پاکستان سے لیتی رہی جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو ئی اور شرمناک سطح پر پہنچ گئے جو کہ اب صرف 3.4بلین ڈالر رہ گئے ہیں ۔اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے ہر قدرتی نعمت سے نوازا ہے لیکن اس کو مخلص قیادت سے محروم رکھا ہے ۔وطن عزیز کو قدرت خداوندی نے ساری نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے ۔کوئلہ ،گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں ۔قابل لو گ ہمارے پاس ہیں جو اس ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں بس فقدان ہے تو صرف مخلص قیادت کا ۔اب عوام کو توقعات نئی بننے والی حکومت سے در پیش ہیں کہ وہ ان معاشی مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کریں گے اور پاکستان کو اس بھنور سے نکا ل باہر کریں گے ۔

ہمیں یونا ن اور مصر کی مثالوں سے سبق سیکھنا چاہئے ۔یونا ن بھی قرضوں کے بد ترین بحران سے گزرا لیکن اس بحران پر قابو پالیا گیا ۔آپ ملا ئیشیا کی مثال لے لیں جنھوں نے اپنے آپ کو (Now Or Never)کے سلوگن پر کھڑا کیا اور آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں تیز ی دوڑ رہا ہے ۔

ملائشیا بجٹ کا 25سے 30فیصد حصہ صرف تعلیم پر خرچ کر رہا ہے اور آج اسلامی ممالک کی کل اعلیٰ ٹیکنالوجی برآمدات کا 86%سے زائد حصہ اکیلا ملا ئشیا بر آمد کر تا ہے ۔اسی طرح آپ ترکی کی مثال لے لیں دنیا کی 15ویں بڑی معیشت ہے جو کہ GDPکے لحاط سے دنیا کا 14واں ملک ہے ۔

ترقی یافتہ ممالک میں کچھ چیزیں نما یاں اور مشترک ہیں وہ یہ کہ ایک تو یہ لوگ تعلیم کو سب سے اولین ترجیح دیتے ہیں دوسرا صحت ،نظم وضبط ،قابل اور اہل لو گوں کو آگے لانا ،میرٹ کا بول بالا ،انصاف اور فیئر پلے یہ چیزیں قومو ں کو آگے لاتی ہیں ترقی کی دوڑ میں اور ذہنی غلامی سے آزاد کرواتی ہیں جبکہ یہ سب چیزیں پاکستان میں بر عکس ہیں یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ہما رے پاس وژن ہی نہیں ہے ۔ بس ہر ایک اسی سوچ کا حامل ہے کہ نظام چل رہا ہے چلنے دو ،گزارہ ہور ہا ہے ہونے دو ۔کسی نے آج تک گزارے سے با ہر نکل کرسو چا ہی نہیں تو وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اسے خود اسے اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو ۔ہم سب قسمت کو دوش دینے میں لگے رہتے ہیں ۔المختصر یہ کہ بس چلنے دو جو چل رہا ہے کچھ جدت نہیں چاہیئے ۔ہم اپنے موضوع کی طر ف آتے ہیں کہ اس حکومت کو انتہائی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ۔جن میں قرضوں کا بہت بڑا کشکول ،دہشتگردی ،کرپشن ،ٹیکسوں کی چوری ،بجلی چوری ،گیس کا بحران اور توانائی کا بحران شامل ہیں ،مہنگائی بڑھنے کی اصل وجہ بھی یہی مسائل ہیں ۔پاکستان کی آبادی 18کروڑ سے زائد ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس 18کروڑ کی آبادی میں سے صرف 15لاکھ لو گ ٹیکس کے سالانہ گو شوارے جمع کر واتے ہیں صرف قیادت ہی نہیں بلکہ رعایا کی بھی انفرادی طور پر ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دیں ۔

میں پاکستان میں لا ء اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہو ئی صورتحال جس نے ہماری معیشت کو تگنی کا نا چ نچا رکھا ہے کے حوالے سے ازبک معاشرے کی مثال دینا چاہوں گا ۔ازبکستان وسطی ایشیائی ریاست ہے جو کہ ہماری آزادی کے بہت بعد یکم دسمبر 1991میں آزاد ہوئی ۔ان کا شرح خواندگی 99.3%ہے ۔لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے ان کا کما ل یہ ہے کہ پورے ملک میں قانون کی پابندی اور بالا دستی ہے ۔حکومت قانون کی کوئی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتی پورا ملک اسلحہ سے پاک ہے آپ کو کسی گلی ،سڑک اور عما رت کے سامنے گارڈ نظر نہیں آئے گا اور پو رے ملک میں چاقو اور ڈنڈا تک دکھائی نہیں دیتا ،آپ سڑکوں میں پو لیس کی گاڑیاں نہیں دیکھتے ۔ازبکستان میں پچھلے 10برسوں میں کوئی گاڑی تک چوری نہیں ہوئی ۔ازبکستان ایک غریب ملک ہے لیکن نہایت ہی تہذیب یافتہ ہے ۔ملک کی تمام مساجد پر حکومت کا کنٹرول ہے لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن اپنی آزادی کا دائرہ دوسروں کے عقائد تک نہیں پھیلا سکتے آپ تبلیغ کسی بھی عقیدے کی نہیں کر سکتے آپ کسی بھی مذہب یا عقیدے پر اختلا فی بات اور کوئی کتاب وغیرہ نہیں لکھ سکتے ۔مسا جد میں اما م کا تعین حکومت کرتی اور امام مکمل دینی سکالر اورتعلیم یافتہ ہو تا ہے جو میرٹ کی ہر سطح کو چھوتا ہے لہٰذ ا کو ئی عالم ازبکستان میں اختلا فی بات نہیں کرتا آج ہماری معا شرے میں بگاڑ کیوں ہے ؟کیوں ہمیں دہشتگردوں کا ملک تصور کیا جا تاہے؟ کیوں ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ؟دو سرے معاشروں کی نسبت اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہو ئی ہے اور اسلام کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں ۔اسلام کے نام پر اپنی دکا نیں اور کاروبار چلا رہے ہیں مذہب کے نام پر قتل وغارت پروان چڑھ رہی ہے ۔خدا کے لئے بس کروان مہذ ب معاشروں سے سیکھو ورنہ یونہی مایوسی کے اندھیروں میں خاک ہو جائو گے ۔

Abdul Aziz Anjum
About the Author: Abdul Aziz Anjum Read More Articles by Abdul Aziz Anjum: 14 Articles with 16664 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.