اچھے کردار کی خصوصیات

 انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ اگر کسی کی جائیداد تباہ ہو جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، اگر صحت جاتی رہے تو نقصان قابلِ برداشت ہوتا ہے، لیکن اگر وہ کردار کھو بیٹھے تو وہ مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے- یہ حقیقت اتنی بنیادی ہے کہ آج تک کسی ملک، مذہب، قوم، گروہ یا فرقہ نے اس کی تردید نہیں کی، بلکہ ہر ایک نے اچھے کردار کو سراہا ہے-

کیونکہ عہدِ جوانی سرکشی و بغاوت کا زمانہ ہوتا ہے اس لیے کردار کی بنیاد رکھنے کا بہترین اور قدرتی وقت بچپن ہوتا ہے- بچپن میں انسان کا دماغ صاف تختی کی طرح ہوتا ہے، آپ جو چاہیں اس پر لکھ سکتے ہیں- بچپن میں حاصل کی ہوئی باتیں زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں، انسان زندگی کی خواہ کسی منزل میں ہو اور کسی قسم کی زندگی بسر کر رہا ہو، اس کے کردار کی بنیادی باتیں وہی رہیں گی جو اس نے بچپن میں سیکھی ہوتی ہیں- اور یہی بات ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کی تھیوری کا بنیادی حصہ ہے-

اچھے کردار کی اولین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی ہر بات، ہر فعل، ہر ایکشن، ہر ردِعمل اور ہر فکر میں ‘اعتدال‘ کا پہلو نمایاں ہوتا ہے- وہ کسی بات میں بھی افراط و تفریط کی طرف نہیں جھکتا- وہ ہر کام میں ترازو کا سا توازن اور انصاف پیشِ نظر رکھتا ہے- نیز اس کے چہرے مہرے، ڈیل ڈول اور حرکات و سکنات میں سنجیدگی ہوتی ہے جس سے خود بخود اس کی ذات میں وقار و کشش پیدا ہو جاتی ہے- اس کی زندگی کا اصول سادگی، غیرمادیت پسندی اور بلند عزائم ہوتا ہے- اس میں نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کی قوت غیر معمولی ہوتی ہے اور اپنی اس قوتِ ممیزہ کے ساتھ وہ درست راہ کو ڈھونڈتا، پکڑتا اور اپناتا ہے اور گمراہ راستے سے دور رہتا ہے-

زندگی چونکہ بیک وقت پھولوں کی سیج اور کانٹوں کا تاج ہے اور یہی وجہ ہے کہ زندگی میں انسان کو مختلف النوع حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ایسے میں اچھے کردار کی نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ کسی اچھے یا برے واقعہ سے اپنے احساسات و جذبات کو متاثر نہیں ہونے دیتا- اسے نہ کوئی خوشی اپنے لالچ کے دام میں پھنسا سکتی ہے اور نہ غم، مایوسی یا اداسی کے گڑھے میں پھینک سکتا ہے- وہ حالات سے برسرِ پیکار رہتا ہے- درپیش حالات کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالنے میں کوشاں نظر آتا ہے اور ان حالات کے سامنے سرِتسلیم خم نہیں کرتا- اس کی زندگی کا مقصد اسے ہر لحظہ انسانیت کے مخالف قوتوں سے مقابلہ کرنے کی طرف مائل رکھتا ہے- اس کی شخصیت دوسروں کے لیے روشنی کے مینار کی طرح رہنما اور ممدومعاون ثابت ہوتی ہے، اسکی مقناطیسی قوت دوسروں کو ازخود اپنی طرف کھینچتی ہے- اس کے سامنے جو اپنا اعلٰی مقصد ہوتا ہے، وہ اس کی تکمیل کی خاطر تن من دھن سب کچھ قربان کر دیتا ہے- کوئی لالچ یا دھمکی یا دھمکی آمیز تبصرہ بھی اس کے پائے استقلال میں لخزش نہیں پیدا کر سکتا-

ایک اچھے کردار کا مالک خواہ کسی مذہب، قوم، ملک یا قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو، وہ ہر مذہب، ہر قوم، ہر قبیلے اور ہر گروہ سے پیار کرتا ہے اور اسکا بہی خواہ ہوتا ہے- وہ ہر انسان کو صرف انسان سمجھتا ہے، وہ کسی انسان سے مذہب، قوم یا ملک کے نام سے دشمنی یا عداوت نہیں رکھتا- ہاں اگر کوئی اس سے ایسا کرے تو وہ بھی اس کا جواب اسی شکل میں دیتا ہے کہ ‘لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے‘-

مذہبی، سیاسی، اور نظریاتی اختلافات تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، مگر ایک اچھے کردار کا مالک فرد انہیں وجہ مخاصمت نہیں بننے دیتا، وہ ہر اختلاف میں فہم و تفہیم سے کام لیتا ہے، اپنی رائے کو دوسروں پر ٹھونسنے کے بجائے وہ اسکی صحت کا ثبوت عملی زندگی سے مہیا کرکے پیش کرتا ہے، وہ اپنی اخلاقی جرآت کی بناء پر دوسروں کی صحیح بات کو تسلیم کر لیتا ہے اور جسے وہ درست نہیں سمجھتا اسے کُھلے الفاظ میں ببانگِ دہل رد کر دیتا ہے نہ کہ نام بدل کر یا پیٹھ پیچھے رد کرے جیسا کہ آرٹیکلز پر آنے والے اکثر تبصروں میں نظر آتا ہے-

خوداعتمادی اچھے کردار کا ایک عظیم ستون ہے- خوداعتمادی دراصل انصاف پسند طبیعت کا ثمر ہوتا ہے، لہٰذا اپنوں، غیروں اور خود اپنی ذات سے ہمیں انصاف کرنا چاہیے- خوداعتمادی ایک ایسا جذبہ ہے جس کی بناء پر انسان کا سَر خدا کی ذات کے سوا کسی دوسرے کے سامنے نہیں جُھکتا- اس ہتھیار کے سامنے ہر باطل قوت زمیں بوس ہو جاتی ہے، یہ جذبہ انسان کی بے پناہ قوتِ ایماں کا صحیح مظہر ہے- ایسا آدمی اپنے مادر وطن سے ضرور پیار کرتا ہے، مگر دوسروں کے ملکوں کو نہ ہڑپ کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے اور نہ انہیں نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے- دوسری طرف اگر دوسرے ممالک یا ان کے ایجنٹ مادر وطن کو ‘تورا بورا‘ بنوانے میں دانستہ یا نا دانستہ ‘استعمار‘ کا ساتھ دیں تو پھر ایسا شخص ‘مہابھارت‘ کھڑا کر دیتا ہے کہ سب سے پہلے ‘مادر وطن‘- ظاہر ہے مادر وطن ہے تو ہم ہیں، اگر وطن ہی ‘دشمن‘ کے قبضہ میں چلا جائے تو ہم کیسے سر اٹھا کر جی سکتے ہیں کہ ہم نے مادر وطن کو بچانے کے لیے فکری جہاد بھی نہیں کیا اور نہ ہاتھ پاؤں مارے-

حاصل بحث یہ کہ ایک اچھے کردار کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو ماحول کی روشنی میں اور ماحول کو اپنے موجودہ داخلی و خارجی و سیاسی و معاشی و ثقافتی و بین الاقوامی حالات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسکا فلسفہ زندگی ‘زندگی کا مقصد مزید زندگی ہے‘ ہر وقت اس کے سامنے رہتا ہے- اور یہی ایک صحتمند شخصیت کی نشانی ہوتی ہے کہ مختلف مواقع پر موزوں کردار ادا کیا جائے- جبکہ غیر صحتمند شخصیت کا مالک شخص اپنے کردار کو موقع کی ضروریات کے مطابق نہیں ڈھال پاتا- ایک شخص جتنے زیادہ کردار سیکھتا ہے اور انہیں موقع محل کے مطابق بروئے عمل لاتا ہے، وہ شخص زندگی کے مسائل سے اسی قدر موثر طریقے سے نِپٹ سکتا ہے-

اے رہرو فرزانہ، رَستے میں اگر تیرے
گُلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو 
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 65302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Acha kirdar ki Khususiyat - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Acha kirdar ki Khususiyat and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Acha kirdar ki Khususiyat.