تحریکِ طالبان ایک فتنہ

٢٣ جون ٢٠١٣، پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں ایک اور اضافہ تھا جب ٩ غیر ملکی مہمانوں سمیت ١١ سیاحوں کو قتل کر دیا گیا۔ حسبِ سابق ذمہ داری تحریکِ طالبان نے بڑے فخر کے ساتھ قبول کرلی اور ساتھ میں یہ خبر بھی دی کے غیر ملکیوں کو قتل کرنے کے لیے ایک علیحدہ گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ پاکستان سے محبت رکھنے والا شاید ہی کوئی پاکستانی ہو گا جس کا دل اس عظیم سانحہ پرنہ دکھا ہو۔ ١٠ سال سے جاری بدترین دہشت گردی، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ اور اب اس دلسوز واقعہ سے بیرونی دنیا میں پاکستانی کی بچی کھچی ساکھ بھی ختم ہو گئی اور ساتھ ہی سیاحت کی صنعت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

١٠ سال سے جاری اس دہشت گردی میں اب تک چالیس ہزار کے قریب بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ کھربوں روپے کی معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ آپ کسی بھی رنگ، نسل، علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ آپ کوئی بھی بولی بولتے ہوں، آپ کے عقائد قدیم ہوں یا جدید، آپ مسلمان ہو یا غیر مسلم حتیٰ کہ آپ خدا پر یقین بھی نہ رکھتے ہوں تو بھی ایک انسان ہونے کے ناطے سے آپ کسی بھی طرح اس ظلم اور بربریت کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔

خود کو مسلمان کہنے والے کے لیے تو قرآنِ پاک کی یہ آیت ہی کافی ہے : جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو کسی کی زندگی کا باعث بنے گا تو گویا وہ تمام انسانیت کی زندگی کا باعث بنا۔ (٥:٣٢)

اس آیتِ مبارکہ میں سب سے زیادہ غور کرنے کی بات ان لوگوں کے لیے ہے جو غیر مسلموں کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔

قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (٦:٥١)

یہ فرمان تو حالتِ امن کے لیے ہیں لیکن اگر کوئی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جہاد کر رہا ہے تو حالت جنگ کے لیے ہمارے نبی کا فرمان ہے : کسی بوڑھے شخص، کسی بچے یا عورت کو قتل نہ کرو، اور خانقاہوں میں راہبوں کو قتل نہ کرو، اور ان لوگوں کو قتل نہ کرہ جو اپنی عبادت کی جگہوں پر بیٹھے ہوں۔ اس کہ علاوہ درختوں اور فصلوں تک کو نقصان پہچانے سے منع فرمایا گیا ہے۔

یہ کون لوگ ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور ھزاروں مسلمانوں کو قتل کر چکے ہیں اور لاکھوں گھر اجاڑ چکے ہیں۔ یہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔

کوئی مسلمان جس میں رتی برابر بھی ایمان ہو اس کا دل دہلانے کے لیے یہ حدیث کافی ہے جس کا مفہوم ہے کہ جس مسلمان نے کسی غیر مسلم پر نا حق ظلم کیا میں محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت والے دن اس مظلوم کی طرف سے مدعی بنوں گا۔

دینِ اسلام کو آغاز سے ہی بہت سے فتنوں کو سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسہ اب تک جاری ہے لیکن فتح ہیمشہ حق کی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹا سا گروہ کروڑں مسلمانوں کو اپنی بنائی ہوئی شریعت کے طابع نہیں کر سکتا ضرورت صرف متحد ہونے کی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس دہشتگری کے مسئلہ پر بھی تقسیم ہیں۔ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت ایسی ہے جو اس ظلم کو جائز قرار دیتے ہیں یا ان فتنہ پرور لوگوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

ہماری ناکامی کی وجہ یہ ہے کے ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ہمارے سیکورٹی اداروں میں بھی موجود ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں سے مذاکرات کا تعلق ہے تو جو گروہ کسی بے گناہ کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اس سے کیا مذاکرات کریں گے؟ اگر وقتی طور پر مذاکرات کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور دہشگردی کا سلسہ رک جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد اگر ان لوگوں کو ہماری کوئی بات نا پسند آگئی تو پھر آپ کیا کریں گے؟ یہ لوگ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو کر پھر دہشتگردی کا آغاز کر دیں گے۔ مذاکرات صرف اس گروہ سے ہونے چاہیے جو بے گناہ انسانوں کے قتل میں ملوث نہ ہوں۔ قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اور ساری قوم کو متحد کر کے پوری ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان عناصر کا قلعہ قمع کردینا چاہیے۔ اپنی بات کا اختتام میں اس حدیثِ پاک کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: اے کعبہ تو کتنا پاکیزہ ہے، تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے، اور تو کتنا زیادہ قابلِ احترام ہے۔ لیکن مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے۔ اللہ نے تجھے قابلِ احترام بنایا ہے اسی طرح مومن کے مال، خون اور عزت کو بھی قابلِ احترام بنایا ہے اور اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ ہم مومن کے بارے میں ذرا بھی بد گمانی کریں۔
Muhammad Tahseen
About the Author: Muhammad Tahseen Read More Articles by Muhammad Tahseen: 11 Articles with 11326 views Muhammad Tahseen (MBA, HRM).. View More