فرقہ وارانہ دہشت گردی میں"بلیک واٹر" کا کردار

امریکی حکام نے جب پاکستان میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔سی آئی اے کے چیف لیون پینٹا نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیاتھا کہ سی آئی اے پاکستان میں اپنی کاروائیاں بند نہیں کرے گی اور مشتبہ افراد کے خلاف کارائیاں جاری رہیں گی۔پاکستانی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور دیگر افسران کے ساتھ کئی گھنٹوں کی ملاقات میں امریکی عہدےداروں نے آگاہ کردیا تھا کہ ایسی کسی کاروئی کو نہیں روکا جائے گا جس سے امریکی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہو۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق لیفٹینٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے لیون پینٹا سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا تھا ، اور امریکی سی آئی اے ایجنٹوں اور سپشل آپریشنز آپریٹرز پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔امریکہ نے پنے مفادات کے لئے سمجھوتہ کرنا سیکھا ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں امریکہ کی بد نام زمانہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی باز گشت بلند ہوتی رہی ۔ جس پر پوری دنیا میں امریکہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ان ایجنسیوں میں سب سے زیادہ بد نام زمانہ نجی سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر ہے جس نے اپنا نام بدل کر ٹام زی سے تبدیل کرکے اکیڈمی رکھ لیا۔بلیک واٹر عراق میں شہریوں کے قتل عام میں ملوث رہنے کی وجہ سے کافی تنقید کا نشانہ بنی رہی ہے۔ جس پر ظاہری طور پر عالمی دباﺅ کے پیش نظر بلیک واٹر کا نیا نام ایکس ای یا زی سروسز ایل ایل سی رکھا گیا۔کمپنی کے صدر اور چیف ایگزیکٹو ٹید رائٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ زی اب اکیڈمی کے نام سے اپنا کام جاری رکھے گی ، ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی مستقبل میں امریکا کے قومی مزاج کا تعین کرنے کےلئے دانشوروں اور جنگجوﺅں کو تربیت دے گی۔بلیک واٹر کے اراکین عراق جنگ مین فلوجہ ، نجف اور بغداد میں غیر قانونی طور پر عام شہریوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں ، اس کے کچھ اہلکاروں پر سترہ عراقی شہریوں کے قتل کا مقدمہ بھی امریکہ میں چلایا گیا تھا ۔ اس تنظیم کے واضح مقاصد ہیں کہ امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کا تحفظ اور یہ تنظیم ایسے کاموں میں استعمال ہوتے رہنا ہے جو امریکہ ، عالمی دباﺅ کے پیش نظر خود نہیں کرنا چاہتا۔پاکستان میں جب بلیک واٹر کی موجودگی کی گونج سنائی دی تو ہمارے حکمرانوں نے فوری تردید کرنا شروع کردی ۔ سابق پاکستان کے امریکی سفیر حسین حقانی کا کہنا تھا کہ "بلیک واٹر کا پاکستان مین کوئی وجود نہیں ہے ، بلیک واٹر کی موجودگی محض افوہ ہے ۔ عوام ان افوہوں پر کان نہ دھریں ۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے ۔ حکومت پاکستان سخت کاروائی کرے گی۔"حیرت ناک بات یہی تھی کہ پاکستان کے بچے بچے کو علم تھا کہ بلیک واٹر پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کے لئے موجود ہی نہیں بلکہ غیر قانونی کاروائیوں میں بھی ملوث ہے لیکن اُس وقت کی حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ پاکستان ہے۔حالاں کہ وزرات داخلہ نے 2007ءمیں خبردار کیا تھا کہ اس کی سر گرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن بد قسمتی سے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلیں ہیں۔بلیک واٹر کے آفسز پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں 700افراد کی رہائش کےلئے200سے زائد گھر کرائےے پر حاصل کئے گئے تھے، اس کے علاوہ صرف کراچی کے مختلف علاقوں میں500سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طور پر ملک کے مختلف حصوں میںٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔19اگست 2012ءکو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کےلئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں ۔ اس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔امریکی اخبار"نیو یارک ٹائمز"کے مطابق بلیک واٹر نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے نام تبدیل کرلئے ہیں اب یہ محض ایک امریکی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیوٹ امریکی سیکورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار کرچکی ہیں۔بالکل اس طرح جب جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بد نام زمانہ تنظیم"فری میسن"پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی اور ان کے دفاتر سیل کئے گئے تو یہ پڑوسی ممالک میں جا چھپے ،پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں"فری میسن" کا دفتر ہوا کرتا تھا۔کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا ،بلیک واٹر کی سرگرمیاں بھی اسی طرح دھڑلے سے جاری ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔اس سے زیادہ خطرناک بات کیا کہی جاسکتی ہے کہ اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں سیکڑ ای سیون میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر حاصل کئے گئے ، جبکہ سیکر ای سیون میں دو ، جی سکس میں 43،ایف سیون میں47، ایف ایٹمیں 45،ایف ٹین میں20،ایف گیارہ میں25،اور آئی 18میں 9اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائےے پر لئے گئے ۔کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں جس طرح مساجد اور فرقے کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس سے اندازہ لگانے میں کوئی غلطی نہیں کی جاسکتی کہ گذشتہ چند سالوں میں اپنا انفراسٹرکچر مضبوط بنانے والی بد نام زمانہ بلیک واٹر ان واقعات میں ملوث ہوسکتی ہے۔ کالعدم تنظیم سپاہ محمد کیجانب سے کئی مفتیوں اور جید علما ءاکرام کو ٹارگٹ کلنگ کرکے ہلاک کیا گیا ۔ اس واقعات میں علی رضا عرف لنگڑاگروپ ، علی موٹا گروپ، متعدد شدت پسند گروپ، کچھ سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیم کی آڑ میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ملک شام ، عراق میں جس طرح فرقے کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے اور اس پر مسلمانوں کی خاموشی شرم کا مقام ہے۔ کراچی میں خصوصی طور ان واقعات کا مقصد پوری ملک کے معاشی نظام کو مفلوج کرنا ہے۔بلیک واٹر سے وابستہ اسلام آباد میں ایک شخص کیپٹن (ر) علیزیدی کے بنگلے پر چھاپے میں 61رائفلیں اور 9پسٹل بر آمد کئے ۔ انٹر رسک کمپنی کے مالک کا تعلق علی زیدی کا تعلق مذہبی تنظیم سے ہے ۔ یہ کمپنی مبینہ طور پر بلیک واٹر کےلئے بھرتیوں اور امریکی شہریوں کے تحفظ فراہم کرنے کے نام پر قائم کی گئی تھی ۔ بر آمد ہونے والا تمام اسلحہ امریکی ساختہ تھا ، امریکی ترجمان کے مطابق انٹر رسک کےساتھ2009میں معائدہ کیا گیا تھا۔ کراچی میں فرقے کے نام پر جید علما ءاور مشائخ کا قتل ایک بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔اسی طرح لشکر جھنگوی بھی ردعمل کے طور پر تشدد واقعات میں ملوث پائی گئی ہے جس میں کراچی یونی ورسٹی روڈ سے ڈینئل پرل کیس میں ملوث قاری عبدالحی عرف اسد اللہ ، جو کہ ائیر پورٹ کے قریب امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے میں بھی پایا گیا اسی طرح شوکت سردار عرف عثمان عرف اسامہ، انعام اللہ عرف بارود ، توکل عرف وزیر ، سمیت لشکر جھنگوی کے امیر ، امیر خالد سمیت اہم افراد کی گرفتاریاں ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کئے گئے۔اسی طرح کوئٹہ میں عثمان کرد گروپ ، قاری عطاالرحمان عرف نعیم بخاری ، امان اللہ عرف مفتی الیاس، قاری رضوان اور قاری عبد ، کمانڈر آصف عرف چھوٹو اور حافظقاسم رشید عرف گنجا گروپ بھی شدت پسندی کے واقعات میں ملوث پائے گئے اور ان کی گرفتاریاں کراچی سے ہوئیں۔ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کراچی بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کی سا زشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور بلیک واٹر جیسی بد نام زمانہ تنظیم کا اس میں ملوث ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔ خاص طور فرقہ واریت کے نام پر بلیک واٹر کی غیر قانونی سرگرمیاں حکومت کےلئے ایک چیلنج رکھتی ہیں۔فرقہ وارنہ دہشت گردی صرف تین شہروں کا مسئلہ نہیں بلکہ انٹرنیشنل سازشی ایجنڈا ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.