لفظوں کا ہیر پھیر یا انقلابی بجٹ

پاکستان مسلم لیگ ن نے حکومت بنانے کے بعد اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جس میں عوام کو جنھوں نے اس ملک میں تبدیلی کے لیے ان کو ووٹ دیا تھا اور جن کو توقعات تھیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرئے گی اور خاص طور پر سرکاری ملازمین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا جو کہ سرکاری ملازمین کے دباؤ کا نتیجہ ہے کیونکہ بجٹ کے اعلان میں اس اضافے کی کوئی بات نہیں کی گئی تھی اور مزدور کی تنخواہ اٹھارہ ہزار کرنے کا خوشنماء نعرہ بھی نعروں تک ہی محدود رہا بجٹ کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبران کااپنا خیال ہے کہ یہ عوام دوست بجٹ ہے تاہم عام آدمی کا خیال ہے کہ اس میں غریب کے لئے جو سہولیات دیے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ناکافی ہیں حکومت کی جانب سے بجٹ کی منظوری کے بغیر ہی اس دفعہ لگائے جانے والے ٹیکسس کی وصولی شروع کر دی گئی تھی اور وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ خزانہ خالی ہے اور ایسا نہ ہو کہ لوگ اشیاء مہنگی ہونے کی سن کر ان کی ذخیرہ اندوزی کر لیں جس پر اعلیٰ عدلیہ نے نوٹس لیا ہوا ہے اور امید ہے کہ یہ فیصلہ کلعدم ہو جائے گا تاہم اس دوران ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کی جیبوں سے کروڑوں روپے نکلوائے جا چکے ہیں سب سے اہم بات جو اس بجٹ کی ہے وہ ہے جی ایس ٹی میں اضافہ یہ ایک ایسا ٹیکس ہے جس سے ہر امیر غریب ہر وہ شحص جو پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کھانا کھاتا ہے وہ ضرور متاثر ہو گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ مل مالکان یا اشیاء تیار کرنے والے کارخانہ داروں سے لیا جائے گا مگر یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ان بڑے سرمایہ دار لوگوں نے کھبی کوئی پیسہ اپنی جیب سے نہیں دیا وہ تو تمام جی ایس ٹی عوام سے ہی وصول کریں گے اور اس میں سے بھی اپنے حصے کا مال پانی نکالنے کی کوشش کریں گے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے یہ ٹیکس مل مالکان پر نہیں بلکہ غریب عوام پر لگایا ہے جس سے مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے تمام اچھے کام بھی اس کی نذر ہو جائیں گے اس لئے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہیےں کہ ان ٹیکسوں سے عوام متاثر نہ ہوں جو بیچارے پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں حج پر لگایا جانے والا ٹیکس ٹوور آپریٹر تو ہر گز اپنی جیب سے نہیں دیں گے بلکہ اپنی اپنی فیسں میں اضافہ کر کے وہ عوام کی جیبوں سے ہی نکلوائیں گے اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ درحقیقت یہ ٹیکس بھی عوام پر ہی لگایا گیا ہے بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح میں کیا جانے والا ایک فیصد اضافہ صارفین پر منتقل ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء میں بہت اضافہ ہو جائے گا جو کہ عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کرئے گا جس کی وجہ سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ بجٹ نیوٹرل سے منفی شمار ہونے لگے گا جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کو مقبولیت کو بھی نقصان کا خدشہ ہے جن جن چیزوں کا واسطہ غریب عوام سے پڑتا ہے ان پر جو بھی ٹیکس لگائے گے ہیں وہ نہیں لگائے جانے چاہیں تھے کیونکہ عوام کی قوت خرید پہلے ہی بہت کمزور ہے بجٹ کا اعلان ہو گیا مگر ساتھ ہی ہر طرف سے اختجاج کی کالیں آنا شروع ہو گئی ہیں مزدور، کسان ،سرکاری ملازم ،سبھی اس میں شامل ہیں کسانوں کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس میں ایک فیصد کے اضافے سے زرعی مداخل میں پانچ فیصد اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت پر ہزار یونٹ سے زائد پر ود ہولڈنگ ٹیکس اور سبسڈی کے خاتمے سے ٹیوب ویلوں کا چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جائے گا جس سے ناصرف زراعت پر بلکہ ملکی معیشت پر بھی برئے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ملکی معیشت کا سارا دارومدار زراعت کے شعبے سے وابسطہ ہے اس لئے اس شعبے کو ریلیف دینا چاہیے تھاسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کر کے حکومت نے تمام سرکاری ملازمین کے ساتھ ایک نیا محاز کھول لیا تھا جس کو بعد ازاں دس فیصد اضافہ کر کے خاموش کروانے کی کوشش کی گئی کیونکہ سرکاری ملازم تو سرکار کو چلانے کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی ناراضگی سے تو نظام حکومت بلکل رک سکتا ہے کیونکہ نئی نویلی حکومت کا اس طرح سرکاری ملازمین سے پنگا اچھا نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے اتنے کم اضافے کی دو ہی صورتیں سامنے نظر آتی ہیں ایک تو یہ کہ خزانے کی حالت بہت نازک ہے جس کی وجہ سے بہت قلیل اضافہ کیا گیا دوسری حکومت نے مانیٹر کیا ہے کہ پچھلی حکومت میں ان کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ ہواجو کہ چار سو فیصد کے قریب ہے اور اب کی بار اگر دس فیصد بھی اضافہ کیا گیا تو کام چل جائے گا حکومت نے سرکاری ملازمین کے دباؤ میں آکر تنخواہوں میں دس فیصد کے اضافے کا علان کیا ہے جو کہ خوش آئیند ہے تاہم اس اضافے کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سرکاری ملازمین کو چپ کروانے کے لئے ناکافی ہے سب سے اچھا اقدام بوڑھے پینشنروں کی پینشن میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے تمام طبقات میں سے یہ طبقہ حکومتی بجٹ کا حامی نظر آ رہا ہے جن کا کہنا ہے کہ شکر ہے حکومت نے ان کے بڑھاپے کا تو خیال کر لیا وگرنہ ان کو بھی خدشہ تھا کہ باقی طبقات کی طرح ان کو بھی کوئی ریلیف نہ دیا جاتا پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں مزدور کی تنخواہ اٹھارہ ہزار کرنے کا اعلان کیاتھا مگر کیا کچھ بھی نہیں آج کا مزدور اسی استحصال کا شکار ہے جیسا سابق ادوار میں ہوتا آیا ہے اس بار کا بجٹ بھی روایتی بجٹوں کی طرح کا ہے جس میں کسی نہ کسی طرح بڑئے سرمایہ دار لوگوں کو فائدے دیے گے اور جو بھی ٹیکس لگائے گے وہ کسی نہ کسی طور پر غریب عوام کی جیبوں سے ہی نکالے جائیں گے تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے وزراء اور ممبران کا کہنا ہے کہ یہ ایک عوام دوست بجٹ ہے تاہم یہ سب وہ روائتی باتیں ہیں جو کوئی بھی پارٹی حکومت میں ہوتے ہوئے کہتی ہے عوام کی اکثریت اس بجٹ کو لفظوں کا ہیر پھیر ہی سمجھتی ہے تاہم اتنے قلیل وقت میں بجٹ کی تیاری اور اس کا یوں اسمبلی میں پیش کیا جانا قابل تعریف ہے دیکھنا یہ ہے پاکستانی تاریخ کا یہ بجٹ عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے -

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207810 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More