جمہوری حکومت کا ’’عوام دوست‘‘ بجٹ

2013 الیکشن کا سال تھا اور ہر پارٹی نے انتخابی دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ بر سر اقتدار آگئی تو تبدیلی لے کر آئے گی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ،بدامنی ، ڈرون ، صحت ، تعلیم اور معلوم نہیں کس کس چیز کو آناََ فاناََ بدلنے کے وعدے ہوتے رہے اور پچھلی حکومت بلکہ حکومتوں کے ستائے ہوئے عوام جانتے بھی تھے کہ جو باتیں ہو رہی ہیں وہ عملاََ اتنی جلدی ممکن ہی نہیں اور نہ حکومت میں آنے کے بعد اپنے وعدے یاد رکھے جاتے ہیں اور وہی ہوا جو سب جانتے تھے ڈرون حملے بھی ہوئے ،لوڈشیڈنگ بھی پورے طمطراق سے جاری ہے، بدامنی نے تو سانس لینا بھی محال کیا ہوا ہے ہر روز ایک نیا سانحہ ، نیا دھماکہ ، نیا قتل عام ،نیا دکھ قوم و ملک کا نصیب بن رہے ہیں۔ اللہ نئی حکومت کو توفیق دے کہ وہ ملک و قوم کے لیے اپنے نیک ارادے پورے کر سکے ، لیکن تا حال اس نے جو ایک ہی کام کیا ہے وہ وفاقی بجٹ کا پیش کر نا تھا جس نے عوام کو مایوس ہی کیا۔ عوام کومعاشیات کے گورکھ دھندوں کی سمجھ نہ سہی لیکن اپنے گھر یلو بجٹ کی ضرور ہے جو کسی طرح بھی ا ن کے قابو میں نہیں آرہا۔ میں بھی کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں کہ بجٹ کے ان پہلوئوں پر تبصرہ کر سکوں لیکن مجھے ہر تنخواہ دارکی طرح اپنے بجٹ کی فکر ضرور ہے جہاں آمدن سے لے کر اخراجات تک کو ٹیکسوں کے بوجھ سے لاد دیا گیا ہے تنخواہ گھر پہنچنے سے پہلے ٹیکس کی زد میں آچکی ہوتی ہے اور گھر آنے کے بعد اشیا ئے ضروریہ کی خریدوفروخت کے بعد دوبارہ ٹیکس کی چھری سے ذبح ہو جاتی ہے۔ پٹرول ، سی این جی یا ڈیزل موٹرسائیکل سوار ڈلوائے یا رولز رائس سب کو ٹیکس تو دینا ہے چاہے وہ اپنی موٹر سا ئیکل ہفتے میں ایک بار نکالتا ہوتاکہ اُس کا انجن خراب نہ ہو۔

بازار میں قدم رکھتے ہی صارف مکمل طور پر ایک عظیم ٹیکس دہندہ بن جاتا ہے اور جی ایس ٹی کی مد میں اپنی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں چھوڑ آتا ہے ۔یہ درست ہے کہ یہ ٹیکس پہلے بھی تھا اور کہنے کو صرف ایک فیصد بڑھایا گیا لیکن وہ ملک جہا ں خود حکومت کے بقول آدھی آبادی غربت کی لکیر پر یا اُس سے نیچے ہے وہ یہ ایک فیصد بھی کیسے برداشت کر سکے گی اور تنخواہ دار طبقہ دو، دوبار ٹیکس کیسے اور کیوں ادا کرے اور سونے پر سہاگہ کہ جی ایس ٹی لگا کر اسے اگلے ہی دن لاگو کیا گیا اور کچھ دن بعد سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے اسے کم کیا گیا اور پھر یہ اضافہ واپس لے لیا گیا اب بیچ کے ہفتہ ، آٹھ دن میں عوام جو یہ ٹیکس ادا کر چکے ہیں حکومت کے پاس اس کے لیے کیا جواز ہے اور کیا وہ انہیں واپس کیا جا سکتا ہے اور کیا غریب کی جیب نے جو قربانی دی اس کا کہیں ریکارڈ بھی ہوگا یا نہیں۔

اس بجٹ میں نہ صرف تنخواہوں پر ٹیکس لگا بلکہ اس میں معمولی سا اضافہ بھی نہیں کیا گیا اور بعد میںعوامی دبائو پر اونٹ کے منہ میں زیرہ رکھ دیا گیا تا کہ اُسے بند کیا جا سکے اور صرف دس فیصد تنخواہیں بڑھائی گئیں عذر یہ دیا گیا کہ خزانہ خالی ہے اور مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے اور خزانہ خالی ہے لیکن کیا اِسے بھرنے کے لیے صرف عوام رہ گئے ہیں کہ انہی کی جیبوں سے اسے بھرا جائے میری نا چیز رائے میں تو اسے بھرنے کے لیے وہی پیسہ کافی ہے جو بڑی بڑی شخصیات نے قرضے کے نام پر بینکوں سے لیا ہوا ہے اور پھر معاف کر والیا ہے اور قوم کے پیسے سے عظیم الشان صنعتوں، زمینوں ، جائیدادوں ، پلازوں ، تجارت ، کمپنیوں اورکاروباروں کے مالک بن چکے ہیں اور اس سارے مال و متاع کا بڑا حصہ چونکہ ملک سے باہر ہے لہٰذاملک کے کسی فائدے کا بھی نہیں ۔یہ کاروبار دوسرے ممالک کی آمدن میں تو اضافے کا باعث ہوتے ہونگے پاکستان اور اس کے عوام کے نہیں کیونکہ اس سے کمایا گیا روپیہ بھی غیر ممالک میں پڑا ہوا ہے۔ حکومت کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ان بڑی مچھلیوں کو پکڑ لے اور ان ہی سے یہ پیسہ واپس لے لے تو اسی سے خزانہ بھر جائے گا ۔ ان کی تلاش کے لیے کسی بڑی دوڑ دھوپ کی ضرورت بھی نہیں تو قیر صادق ، گستاخی معاف لیکن جناب صدر، راجہ پرویز اشرف ،گیلانی صاحبان ،ایفیڈرین کیس والے حضرات، حج کرپشن کیس کے ملزمان جیسے اس میدان کے بڑے کھلاڑی تو سب کی ہی نظر میں ہیں اگر حکومت یہ ابتدائ اپنے لیڈروں اور ایم این اے اور ایم پی اے خواتین و حضرات سے کر لیں تو کسی دوسرے کو بھی شکایت نہیں ہوگی اور یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا کہ اسی کی بدولت یہ سارے محسنینِ پاکستان شمار ہونگے کیونکہ قوم کا المیہ ہی یہی ہے کہ اسکی دولت چند لوگوں تک مرتکز ہے بلکہ وہ لوگ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں اور عوام کو ملنے والے چند پیسے احسان شمار کئے جاتے ہیں۔ اگر ہمار ے حکمران خود کو اور ایک عام آدمی کو ایک ہی گوشت پوست کا انسان سمجھیں تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ جن سہولیات کا عوام سوچ بھی نہیں سکتے اگر حکمران طبقہ اپنے لیے ان کی مقدار اور معیار میں کمی ہی برداشت کر لے تو نہ تو معاشرتی مسائل بڑھیں، نہ نفرتیں اور نہ غربت ۔ ایک عام آدمی تو اپنی سائیکل پر بھی ٹیکس دیتا ہے لیکن اِن بڑے لوگوں کو سرکار کی طرف سے مفت ایسی ایسی گاڑیاں فراہم کر دیں جاتیں ہیں جو عام آدمی نے کبھی تصویر میں نہیں دیکھی ہوتیں، سر کاری محلات اُن اُن سہولیات سے مز ین ہوتے ہیں جس کو ایک عام پڑھا لکھا ذہین شخص سو دو سو سال بعد کی ایجاد سمجھتا ہے اور بہت سے تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ تمام سہولیات ختم کی جائیں لیکن اِن میں کٹوتی انتہائی ضروری ہے کیونکہ قومی آمدنی کا ایک اچھا خاصا حصہ اسی عیش و عشرت کی نذر ہو جاتا ہے اگر در آمد شدہ کروڑوں کی مالیت کی گاڑیوں اور دیگر سامان تعیش پر پابندی لگا دی جائے، سرکاری خرچے پر معمولی بیماریوں کے بیرونی علاج کو اپنے خرچے پر کیا جائے ، بجلی کے بلوں پر قابو پایا جائے، مکمل طور پر ائیر کنڈیشنڈ ان بڑی بڑی عمارتوں میں اگر اے سی بند ہونگے تو لوڈ شیڈنگ کے مارے عوام کی تکلیف کا احساس ہو سکے گا۔ قصرِ صدارت اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں اگر چہ تیس فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اگر خزانہ اس حد تک خالی ہے کہ تنخواہیں بھی ادا نہ کی جا سکیں تو کیا یہ اخراجات مزید کم نہیں کیے جا سکتے اگر تیس فیصدتک حکومت خود راضی ہوئی ہے تو یقینا اور زیادہ کمی کی گنجائش موجود ہے ۔ حکومت کو دلیرانہ اقدامات کرنا ہوں گے لیکن یہ دلیری عوام پر آزمانے کی بجائے اگر حکمرانوں اور بڑے لوگوں سے شروع کی جائے تو یقینا قابل ستائش ہوگی، اگر پہل بڑوں سے کی جائے تو آسان بھی ہوگا کہ اس ملک میں ’’بڑے‘‘ صرف سینکڑوں ہزاروں میں ہیں جبکہ عوام کروڑوں میں۔ احتساب عوام کا بھی ہونا چاہیے کیونکہ چوری ،اگر لاکھ کی چوری ہے تو دھیلے ٹکے کی بھی چور ی ہے اور اس چوری اور رشوت کو سرکاری سطح پر روکنا ہے تو مہنگائی کم کرنا ہوگی اور تنخواہ اتنی رکھنی ہوگی کہ بغیر رشوت کے تنخواہ دار ملازمین عزت دار زندگی گزار سکیں۔ ٹیکس ضرور لگائیں کیونکہ اس کے بغیر حکومتیں نہیں چلتی لیکن عوام کی جیب بھی دیکھ کر اور خواص کی بھی تاکہ ملک میں واقعی ایک ایسا معاشی نظام نافذ ہو جو لوگوں کومعاشیات کے گو رکھ دھندوں میں نہ الجھائے بلکہ ان کی ترقی اور خوشحالی کاضامن ہو۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 512287 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.