تعلیم اور مسلمان……سچر کمیٹی رپورٹ کے تناظر میں

باسمہ تعالیٰ

مطالبات سے زیادہ خوداحتسابی کی ضرورت ہے

تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کااہم اوربنیادی ذریعہ ہوتاہے،جوقومیں علم حاصل کرتی ہیں اوراس کی روشنی سے بھرپورفائدہ اٹھاتی ہیں وہی قومیں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرکے دنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھتی ہیں اورباقی دنیاکواپنے پیچھے چلنے پرمجبورکرتی ہے،لیکن جوقومیں حصول علم میں کوتاہی برتتی ہیں،اوراس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتی ہیں اسے ترقی یافتہ قوموں کی غلامی کاطوق اپنے گردن میں ڈالنے پرمجبورہوناپڑتاہے۔تعلیم اورمسلمان کاچولی دامن کارشتہ رہاہے،مسلمانوں کے نزدیک تعلیم کی اہمیت اس لیے بھی مسلّم ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبرحضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم پروحی کاآغازہی لفظ’’اقراء‘‘کے ذریعہ ہواجس کے معنی ہی ہیں’’پڑھو‘‘۔اتناہی نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے،اورعالم وجاہل کے فرق کوبینااورنابیناکے فرق سے سمجھایاگیاہے،حدیث میں توروزمرہ کی ضروریات کے بقدرعلم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پرفرض قراردیاگیاہے،کہیں حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ارشادفرمایاکہ علم حاصل کروماں کے گودسے قبرمیں جانے تک،اورکہیں یہ فرمایاکہ علم حاصل کروچاہے اس کے لیے تمہیں چین کاسفرکرناپڑے،قطع نظراحادیث کے صحیح اورضعیف کے ،اتنی بات توطے ہے کہ بہرحال علم کی حیثیت اوراس کی اہمیت مسلّم ہے،اوراس کی اہمیت سے کوئی بھی باشعورانسان انکارنہیں کرسکتا۔

ایک طرف تووہ قوم اورامت کہ اﷲ نے جس کے پیغمبر کو سب سے پہلی وحی ’’پڑھنے‘‘کے حکم کی شکل میں بھیجی،قرآن کریم میں جگہ جگہ علم کی اہمیت کوبیان کیااس نبی کی امت پر ناخواندگی کالیبل لگے،افسوس صدافسوس!جی ہاں!۲۰۰۴ء میں کانگریس جب ایک لمبے عرصہ کے بعداقتدارمیں واپس آئی تواسے یہ خیال ہواکہ جس قوم کے بل بوتے اس نے یہ اقتدارحاصل کیاہے ،ہندستان میں اس قوم کی تعلیمی،معاشی،اورسماجی صورت حال کیاہے ؟ذرااس کاجائزہ لیاجائے،اس نیک مقصدکے لیے منموہن حکومت نے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کابنیادی مقصدتھاکہ پورے ملک کاتحقیقی سروے کرکے یہ اعدادوشمارحاصل کیے جائیں کہ ہندستان میں مسلمانوں کی اقتصادی،تعلیمی اورسماجی حیثیت کیاہے؟جسٹس راجندرسچرنے بڑی ایمانداری اورجانفشانی سے پورے ہندستان کاجائزہ لیا،انہوں نے اس جائزہ کے دوران مرکزی حکومت،ریاستی حکومت،اسی طرح مرکزاورریاست کے ماتحت آنے والے تمام محکمے،سرکاری،نیم سرکاری اورپرائیوئٹ تعلیمی اداروں نیزمدارس کاجائزہ لیااوریہ ان جگہوں پرمسلمانوں کی تعدادکیاہے اس کے اعدادوشمارحاصل کیے؟ویسے تویہ جائزہ مسلمانوں کی زندگی کے تما م شعبہ ہائے سے متعلق تھا،لیکن اس وقت مجھے صرف مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پرگفتگوکرنی ہے،کیوں کہ ہرطرح کی ترقی کارازتعلیم میں ہی پنہاں ہے۔جسٹس راجندرسچرنے اپنی یہ رپورٹ نومبر۲۰۰۶ء میں حکومت ہندکوپیش کردی،جس کوتقریباً۷؍سال سے زیادہ کاعرصہ ہوچکاہے۔

غورکرنے کامقام ہے کہ جسٹس راجندرسچرنے اپنی جورپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ میں بحیثیت مجموعی مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں،نہ تومعاشی طورپرمضبوط ہیں، اورنہ ہی سماجی طورپردیگرقوموں کے مقابلہ میں اچھی پوزیشن میں ہیں،رہامسئلہ تعلیم کاتوتعلیم کے علمبردارہونے کے باوجودوہ اس میدان میں بھی پسماندہ ہیں۔مسلمانوں کے تئیں عوام کاایک عام رجحان یہ ہے کہ وہ بنیادپرست ہیں اورقدامت پرست ہیں،اسی لیے یہ اپنے بچوں کوصرف اورصرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں،لیکن سچر رپورٹ نے اس سوچ کی بھی قلعی کھول کررکھ دی ہے کہ مسلمانوں کے صرف۴؍فیصدبچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،یہ اعدادوشمارصرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خودمسلمانوں کے لیے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ صرف ۴؍فیصدبچے ہی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جب کہ یہ اعدادوشمارتوکم وبیش ۵۰؍فیصدہونے چاہئیں لیکن مسلمان اس میں بھی پیچھے ہیں،بقیہ ۶۶؍فیصدسرکاری اسکولوں میں جب کہ ۳۰؍فیصدپرائیویٹ اسکولوں میں ہیں، جناب سچرکی رپورٹ کے حوالہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تویہ اندازہ ہوتاہے کہ اسکولوں،کالجوں اوریونیورسیٹیوں میں بھی ہماری تعدادانگلیوں پرگنے جانے کے لائق ہے۔جہاں ہندستان کی مجموعی شرح خواندگی ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۶۵؍فیصدہے وہیں مسلمانوں میں یہ شرح ۵۹؍فیصدہی ہے،جب کہ ہندو۶۵؍فیصد، عیسائی۸۰؍فیصد، سکھ۶۹؍ فیصد، بدھ۷۲؍ فیصداور۹۴؍فیصدکے ساتھ جین مذہب سب سے اوپر ہے۔ مسلمانوں میں مردکی شرح خواندگی۶۷؍فیصد اورعورت۵۰؍فیصد ہے، جو کہ اوپرشمارکرائے گئے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سب سے کم ہے۔آخرایساکیوں؟جس مذہب کی بنیادہی تعلیم وتعلم پرہے،جس کے پیشواکی سینکڑوں احادیث اورقرآن کی بے شمارآیات حصول علم کی تلقین سے پرْ ہے،آخراس قوم کے متبعین میں شرح خواندگی کی یہ افسوسناک شرح کیوں ہے؟کیااس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ہم اپنے مذہب اورمذہبی تعلیمات سے کتنے دورہوچکے ہیں؟ذرایادکریں وہ وقت جب پوری دنیاپرہمارے علم وتحقیق کاڈنکابجتاتھا،دنیائے سائنس اورطب کی بڑی بڑی ایجادات کا سہرا ہمارے محققین کے سرجاتاہے،لیکن ہماری کوتاہی اورہماری علم سے دوری نے ان ایجادات کاکریڈٹ ہم سے بڑے شاطرانہ اندازسے چھین کراپنے سرلے لیااورہم کچھ نہ کرسکے۔

سچرکمیٹی کی رپورٹ ہمارے لیے سامان عبرت ہے،اسے صرف سیاسی ہتھکنڈہ نہیں بناناچاہیے بلکہ ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آخراس کاذمہ دارکون ہے؟کیاصرف حکومت پراس کی ذمہ داری ڈال دیناکافی ہوگایاہمیں یہ بھی دیکھناہوگاکہ ہم اپنے لیے اوراپنی قوم کے لیے کتنے کارآمدہیں؟اگرہمیں اﷲ نے اتنی سہولت دی ہے کہ ہم اپنے پڑوس کے پانچ بچوں کی تعلیم کاانتظام کرسکتے ہیں توکیاہم نے ایساکیا؟ذراغورکریں کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے ۶۔۱۴سال کی عمرکے تقریبا۲۵؍فیصدی بچے ایسے ہیں جو یا تو کبھی اسکول گئے ہی نہیں یاگئے توانہوں نے بیچ میں ہی تعلیم کوخیرآبادکہہ دیا،ہے کوئی صاحب استطاعت مسلمان جس نے کبھی اپنے محلہ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہوکہ اس کے محلہ میں کتنے ایسے بچے ہیں جوکبھی اسکول نہیں گئے یاجنہوں نے بیچ میں ہی اسکول چھوڑدیاہو؟شایدہی ہندستان کاکوئی ایساگاؤں ہوجہاں اس طرح کے صاحب استطاعت لوگوں کی کمی ہو؟ممکن ہے کچھ ایسے بھی مخیرحضرات ہوں ؟یاکیاکبھی کسی غیرسرکاری تنظیم جومسلمانوں کے لیے کام کرتی ہے اس نے کوئی انتظام کیا؟اس سوال کاجواب سب جانتے ہیں۔

حکومت نے جسٹس راجندرسچرکویہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی،معاشی اورسماجی صورت حال کاجائزہ لیں،انہوں نے نومبر۲۰۰۶ء میں اپنی یہ رپورٹ یایوں کہہ لیں کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کاقرطاس ابیض حکومت کے سپردکردیا،جہاں تک میری معلومات کاتعلق ہے اورخبروں کی دنیاسے باخبررہنے والاہرشخص بخوبی جانتاہے کہ اس رپورٹ کے آنے کے بعدمسلمانوں کاہمدردکہلانے والی بڑی بڑی تنظیموں نے بڑے بڑے اجلاس کیے،حکومت سے مطالبہ کیاکہ جسٹس سچرنے رپورٹ کے تناظر میں جو سفارشات پیش کی ہیں اس کوجلدازجلدنافذکیاجائے،اس طرح مطالبے ہوتے رہے اورحکومت نے اپنی ایک مدت پوری کرلی،پھرحکومت اسی رپورٹ کوساتھ لے کردوبارہ انتخاب کے میدان میں اتری اورمسلمانوں کے سامنے یہ دہائی دی کہ دیکھئیے آپ کی زبوں حالی اوربدحالی کاپلندہ ہمارے سامنے ہے ہماری ’’مخلصانہ اورایماندارانہ‘‘کوشش ہے کہ ہم اسے نافذکریں گے لیکن اس کے لیے آپ کوہمیں ایک اورموقعہ دیناہوگا،اگرہمیں آپ نے موقع نہیں دیاتویادرکھیں پوراملک گجرات بن جائے گا،بھلامسلمان کیسے نہ اعتبارکرتا اورانہوں نے ایڑی چوٹی کازورلگاکردوبارہ اقتداسونے کی تھالی میں سجاکرکانگریس کوپیش کردیا،اب دوسری مدت بھی ختم ہونے والی ہے،لیکن مسلمانوں کا کتنابھلاہوایہ سب کو معلوم ہے؟۲۰۱۴ء کالوک سبھاالیکشن بس آیاہی چاہتاہے کہ اچانک سچرکمیٹی رپورٹ یعنی مسلمانوں کی بدحالی کاقرطاس ابیض کوردی کی ٹوکری سے پھرسے نکالا گیا اورایک ایسے وقت میں جب کہ حکومت کواورحکومت کے وزیرباتدبیرکوبھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اب کچھ نہیں کرسکتے انہوں نے ایک بارپھربدحال مسلمانوں کی قسمت کوجادوئی چھڑی سے سدھارنے کااعلان داغ دیا،ہوناکیاتھاایک بارپھرسے میڈیاکے ساتھ ساتھ مسلم تنظیموں کوبھی موقع مل گیا،اورحکومت بھی خوش ہوگئی کہ ہمیشہ کی طرح ایک بارپھرمسلمان ہمارے دام میں پھنس چکاہے۔اوراسی دوران اقلیتی امورکے وزیرباتدبیرجناب کے ۔رحمان خان صاحب نے مسلمانوں کے لیے ایک خوش نمااعلان کیاکہ حکومت ہندستان میں اقلیتوں کے لیے پانچ یونیورسیٹیاں قائم کرے گی،اب ان سے کون پوچھے کہ پہلے سے جوادارہ اقلیتوں کاہے وزیر صاحب!پہلے اس کاتواقلیتی کرداربحال کردیں،پھرآپ یہ پانچ یونیورسیٹیاں قائم کریں،ایک سوال کے جواب میں وزیرموصوف نے کہاکہ کیااگرالیکشن آنے والے ہیں توہم کوئی کام ہی نہ کریں،توان کاجواب یہ بھی ہے کہ اقلیتوں کی حالت زارکاعلم ہوئے تقریباًسات سال کاعرصہ گذرچکاہے ،ان سات سالوں میں آپ نے اعلانات کے سواکچھ کیابھی ہے؟جب کہ ان کادعویٰ ہے کہ سچرکمیٹی کی ۷۳؍سفارشات میں سے تقریبا۶۰؍سے زیادہ سفارشات کانفاذہوچکاہے،تواب یہ ایک بڑاسوال ہے کہ ان سفارشات کانفاذکب اورکیسے ہوا؟جس طرح حکومت اپنے چارسالہ کارکردگی کی رپورٹ کارڈجاری کرتی ہے تووزارت اقلیتی امورکوبھی چاہیے کہ وہ سچرکمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات پرعلاحدہ رپورٹ کارڈجاری کریں تاکہ مسلمانوں کوبھی پتہ چلے کہ حکومت نے ان کے لیے کیاکیاکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اورانہیں ان کافائدہ کیسے ملے گا؟

جہاں تک جناب کے۔رحمان خان صاحب کے ذریعہ اقلیتوں کے لیے ۵یونیورسیٹیوں کے قیام کااعلان ہے ،تواگرواقعی حکومت اس میں مخلص ہے توصحیح معنوں میں یہ بڑاخوش آئندقدم ہوگالیکن ماہرین قانون کامانناہے کہ دستورمیں اس طرح کی یونیورسیٹیوں کے قیام کی اجازت نہیں ہے اوراگرایساہوتاہے تویہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاکراٹک جائے گاجوکہ کانگریس کے لیے سودمندہی ثابت ہوگاکیوں کہ اس صورت میں ایک بارپھروہ انہی زیرالتوامعاملوں کی بنیادپراقلیتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بہرکیف! اگریونیورسیٹیاں قائم ہوتی ہیں اوروہ خاص مسلمانوں کے لیے ہوتی ہیں تواس سے فائدہ ہوگاکیوں کہ اس وقت مسلم گریجویٹ کاتناسب قومی سطح پرصرف۶،۳فیصدہے اورتکنیکی گریجویٹ کاتناسب توبالکل ہی کم ہے یعنی اعشاریہ ۴فیصدہے،اسی طرح منیجمینٹ کے اعلیٰ اداروں میں یہ تناسب صرف اورصرف۳،۱فیصدہے۔تواگرقومی سطح پرپانچ یونیورسٹیےاں قائم ہوتی ہیں تومسلمانوں کواپنی شرح خواندگی بڑھانے میں یقیناکچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا۔

جسٹس راجندرسچرکمیٹی کی رپورٹ کومحض ایک رپورٹ سمجھناہماری کوتاہ علمی ہوگی بلکہ اسے سامان عبرت سمجھناہوگا،اوراس کے تناظرمیں ہمیں اپنامحاسبہ کرناہوگا،میں ان حـضرا ت سے معذرت کے ساتھ کہ جوصرف اورصرف اپنی زبوں حالی کاذمہ دارحکومت کوٹھہراتے ہیں،میں اس کے لیے صرف اورصرف اپنی قوم اوراپنی قوم کے رہبرکوذمہ دارسمجھتاہوں،ہندستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی جین مذہب میں پائی جاتی ہے،۹۴؍فیصدان کی شرح خواندگی ہے توکیایہ حکومت کی دین ہے نہیں؟ہرگزنہیں!بلکہ یہ ان کی بیداری ہے،اسی طرح کے ہندستان کے بعض صوبوں میں شرح خواندگی قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے توکیاان سب کے پیچھے حکومت کی کرم فرمائی ہے ؟اگرہے تواس کی کیاوجہ ہے؟اسے جاننے کی کبھی کوشش کی ہے ہمارے رہنماؤں نے ؟نہیں!صرف اجلاس طلب کرلینے ،میمورنڈم پیش کردینے اوراخباری بیان بازی سے اس قوم کی حالت سدھرنے والی نہیں ہے،بلکہ اس کے لیے اپنے اندربیداری لانی ہوگی،بہارکے حضرت مولانامحمدولی رحمانی نے کیاحکومت کے تعاون سے رحمانی۔۳۰ کی بنیادڈالی ہے؟ذراغورکریں کہ رحمانی۔۳۰کے طلبہ آج کس مقام پرہیں،آج ضرورت ہے کہ ہرصوبے نہیں بلکہ ہرضلع میں ایک ولی رحمانی پیداہوجوقوم کے مستقبل کواونچی تعلیم اوربلندفکردے سکے،حکومت کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہترہے کہ ہروہ شخص جواپنے ایک بچہ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہے وہ اپنے پڑوس کے ایک بچہ کابھی تعلیمی خرچ برداشت کرے،اسی طرح جس شخص کواﷲ نے استطاعت دی ہے وہ ہرمحلہ اورگاؤں میں ایسے مکاتب اوراسکول کے قیام کی کوشش کرے کہ جہاں قوم وملت کے مستقبل کوسنواراجاسکے،ضروری نہیں کہ تنہااس کام کوانجام دے بلکہ اپنی زیادہ سے زیادہ شراکت اداکرکے قوم کے دیگرمخلص اورکارآمدلوگوں کوبھی ساتھ لے اوراجتماعی طورپریہ کام کرے،اگرہرشخص اپنے پڑوس،محلہ اورگاؤں کی فکرکرلے توانشاء اﷲ وہ دن دورنہیں کہ اس ملک کاہرمسلمان تعلیم یافتہ ہوگا،ہرگھرسے علم کی روشنی پھوٹے گی جواپنے ساتھ بہت سارے گھروں کومنورکردے گی۔انشاء اﷲ ،بس ضرورت ہے عزم وحوصلہ کی اوراخلاص وﷲیت کی۔٭
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46397 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More