شب برات کی فضیلت

محترم ساتھیوں ،
شعبان کے مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جس کو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں بڑی فضیلت کی رات مانا جاتا ہے یہ ١٥ شعبان کی رات ہے جسے شب برات کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اس رات میں خاص طور پر قبرستان جانے کا اہتمام کیا جاتا ہے مساجد میں نفلی عبادات کے اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس رات کے فضائل میں روایات بیان کی جاتی ہیں اور مردوں کی مغفرت اور ایصال ثواب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے چنانچہ "برات " کے مانا چھٹکارے کے بھی ہیں تو یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس رات الله ایک خلق کثیر کو جہنم سے نجات عطا کرتا ہے اسی بنا پر اس کو شب برات یعنی چھٹکارے کی رات کہا جاتا ہے اور اسی طرح سے اس کو ایک جائزہ کی رات بھی مانا جاتا ہے جس میں اعمال نامہ الله کے سامنے پیش کیا جاتا ہے زندگی و موت اور رزق اور اولاد اور اس طرح کے تمام معاملات طے کیے جاتے ہیں شب برات کے حوالے سے یہ مختصر سا تعارف پیش کیا گیا ہے یہ رات کیسے رائج ہوئی اس کی فضیلت میں کن دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں

شب برات کے قرانی دلائل اور ان کا رد
شب برات کے ضمن میں تعارف کے بعد اس حوالے سے جن قرانی آیات سے بنیادی استدلال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے " اس کتاب روشن کی قسم (۲) کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں (۳) اسی رات میں تمام حکمت کے کام فیصلے کئے جاتے ہیں(سوره الدخان آیات ١ -٣ )
ان آیات میں لیلہ مبارک کا ذکر ہے اس سے بعض آئمہ یہ استدلال کرتے ہے یہاں شب برات مراد ہے مگر یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے .
(١) قرآن کے نصوص کے خلاف ہے .
(٢) ابن عباس رضی الله عنہ اور تابعین کے خلاف ہے .
(٣) جمہور آئمہ نے اس کا رد کیا ہے .
ہم یہ تمام دلائل اپ کے سامنے ترتیب وار نقل کر رہے ہیں وتوفیقی باللہ
قرآن مجید میں واضح موجود ہے کہ قرآن کو رمضان میں اور شب قدر میں نازل کیا گیا ہے اور سوره الدخان کی ان آیات میں بھی موجود ہے کہ قرآن ایک مبارک رات میں نازل کیا گیا ہے " 4اس کتاب روشن کی قسم (۲) کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں " اب قرآن ہی ہمیں بتا تا ہے کہ وہ مبارک رات جس میں قرآن نازل ہوا ہو وہ کون سی رات ہے آئیں قرآن کیا کہتا ہے .
رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے (سوره البقرہ آیت ١٨٥ )
ہم نے اس( قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا (۱) اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ (۲) شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے (۳) اس میں روح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں (سوره القدر )
ان تمام آیات کا موازنہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں .
(١) قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا .
(٢) شب قدر میں نازل ہوا .
(٣) شب قدر رمضان کی رات ہے .
(٤) لیلہ المبارک شب قدر ہی ہے کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں اسی رات کو ہوا ہے .
ان نکات سے واضح ہے کہ لیلہ المبارک شب قدر کا دوسرا نام ہے جیسے قرآن نے بیان کیا ہے .
قرانی نصوص سے وضاحت کے بعد اپ ابن عباس رضی الله عنہ اور تابعین کے چند اقوال اپ کی نظر کرتے ہیں
(١) ابن عباس رضی الله عنھما سے مروی ہے قرآن ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کی مہینہ میں شب القدر میں نازل ہوا اور اسی کو لیلہ المبارک بھی کہتے ہیں (تفسیر ابن کثیر جلد ١ تحت سوره البقرہ ١٨٥ )
(٢) قتادة ، في قوله(فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ) قال : هي ليلة القدر. (تفسیر طبری سوره الدخان )
قتادہ رحمہ الله فرماتے ہیں لیلہ المبارک سے مراد لیلہ القدر ہے .
(٣ ) عن مجاهد ، قوله( فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) قال : في ليلة القدر كل أمر يكون في السنة إلى السنة : الحياة والموت ، يقدر فيها المعايش والمصائب كلها.
مجاہد رحمہ الله فرماتے ہے شب قدر میں ایک سال سے دوسرے سال کے ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے جیسے زندگی، موت، رزق، اور تمام معاملات .

ابن عباس رضی الله عنہ اور تابعین رحمہم الله کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ لیلہ المبارک سے مراد شب قدر ہی ہے .

جمہور آئمہ نے بھی اس ہی کی تصدیق کی ہے ان کے اقوال درج ذیل ہیں .

(١) امام طبری نے اپنی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ لیلہ المبارک سے مراد شب القدر ہے
أولى القولين في ذلك بالصواب قول من قال : ذلك ليلة القدر لما قد

تقدّم من بياننا عن أن المعني بقوله( إِنَّا أَنزلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ) ليلة القدر
ان دونوں اقوال میں سے وہ قول صحیح ہے جوکہا ہے کہ (لیلہ المبارک ) لیلہ القدر ہے جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس فرمان کے معنی ( إِنَّا أَنزلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ) ليلة القدر ہیں .(تفسیر طبری سورہ الدخان آیت ١ -٣ )

(٢) امام ابن کثیر اس بارے میں فرماتے ہیں .
الله نے قرآن کریم کو لیلہ القدر میں نازل فرمایا ہے اور اسی کا نام لیلہ المبارک بھی ہے .(تفسیر ابن کثیر سوره القدر )
اور سوره الدخان میں لیلہ المبارک پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ لیلہ المبارک جس میں قرآن نازل ہوا وہ شعبان کی ١٥ رات ہے یہ قول سرا سر بے دلیل ہے .(تفسیر ابن کثیر سوره الدخان آیت ١ - ٣ )

(3) امام قرطبی اپنی تفسیر میں سوره الدخان کی ان ہی آیات کے تحت فرماتے ہیں .
قال القاضي أبو بكر بن العربي : وجمهور العلماء على أنها ليلة القدر. ومنهم من قال : إنها ليلة النصف من شعبان ؛ وهو باطل لأن الله تعالى قال في كتابه الصادق القاطع : {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ} [البقرة : 185] فنص على أن ميقات نزوله رمضان ، ثم عين من زمانه الليل ها هنا بقوله : {فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ}

فمن زعم أنه في غيره فقد أعظم الفرية على الله ، وليس في ليلة النصف من شعبان حديث يعول عليه لا في فضلها ولا في نسخ الآجال فيها فلا تلتفتوا إليها.(تفسیر قرطبی تحت سوره الدخان آیت ٣ )

قاضی ابن العربی (فرماتے ہیں ) جمہور علماء کے مطابق (لیلہ المبارک ) شب القدر ہے اور جو یہ کہتے ہیں اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے تو یہ باطل ہے الله نے اپنی کتاب بالکل صاف طور پر فرمایا ہے کہ "قرآن رمضان کے ماہ میں نازل ہوا ہے " اور یہ نص ہے اس بات کی قرآن کا نزول رمضان میں ہوا ہے اور یہ اس رات میں اترنا شروع ہوا جس کو قرآن میں " لیلہ مبارک "کہا ہے .

اور جو اس کے علاوہ گمان کرتے ہیں وہ الله کی جانب غلط بات منسوب کرتے ہیں اور نصف شعبان کے بارے میں کوئی حدیث قابل اعتبار نہیں ہے نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ ہی اس رات میں حساب کتاب کے بارے میں اور نہ اس میں متوجہ ہونا سے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد ہے.

(٤) وقد روي عن عكرمة وغيره من المفسرين في قوله تعالى: (فيها يفرق كل أمر حكيم) أنها ليلة النصف من شعبان، والجمهور على أنها ليلة القدر، وهو الصحيح. (لطائف المعارف ص ١٢٣ فضائل نصف شعبان )

عکرمہ سے مفسرین نے اس آیت کے تحت نقل کیا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے جبکہ جمہور نے کہا کہ یہ لیلہ القدر ہے اور یہی صحیح ہے .

ان تمام تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہور ائمہ مفسرین نے لیلہ المبارک سے مراد لیله القدر لی ہے جیسا امام قرطبی اور ابن رجب حنبلی وغیرہ نے اس کی تصریح کی ہے چنانچہ جمہور ائمہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ لیلہ المبارک شب القدر ہی کا نام ہے .
اب اس دلیل کی جناب چلتے ہے جس سے شب برات کو لیله المبارک کہا گیا ہے یہ عکرمہ کا ایک قول ہے جس کو امام طبری نے روایت کیا ہے مگر خود قول کو رد کیا ہے اول تو یہ قول قرانی نصوص ، اور صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم ، اور جمہور ائمہ کے خلاف ہے اور دوسرا یہ خود عکرمہ کے اپنے روایت کردہ قول کے مخالف ہے چنانچہ عکرمہ نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے جس میں شب القدر میں کو قرآن کے نزول اور جائزہ کی رات بتایا ہے تو ایک جانب وہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہے کہ شب القدر وہ رات ہے جس میں تمام اعمال کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف خود اس کے متضاد بیان کر رہے ہیں اس قول کو امام طبری نے سورہ القدر کے تحت نقل کیا ہے . تو اب یہ بعد واضح ہے کہ عکرمہ رحمہ الله کا قول کسی طرح بھی قبل قبول نہیں ہو سکتا ہے .


شب برات سے متعلق روایات کا جائزہ
یہاں ہم شب برات سے متعلق ان بنیادی روایات کا جائزہ لیں گے جو عموما پیش کی جاتی ہے یہ تین نویت کی روایات ہیں جو اس باب میں بنیادی حثیت رکھتی ہیں جو مختلف طرق وو اسناد سے مروی ہیں (١) جن میں عبادات کرنے یا اس کے حکم کا تذکرہ ہے (٢) مخلوق کی بخشش کی بشارت دی گئی ہے (٣) اعمال نامہ کے جائزہ کا ذکر ہے،اب ان بنیادی روایات کواپ کے سامنے پیش کر کے محدثین کے اصولوں پر اس کا جائزہ لیتے ہیں

(١) علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ "نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کے مہینہ کی نصف کی رات ہو (یعنی پندرہ شعبان ) تو اس رات کو عبادت کرو اور دوسرے دن روزہ رکھو اس لئے کہ الله اس رات کو آفتاب ڈوبتے ہی دنیا کے آسمان پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے جو بخشش چاہتا ھو کہ اس کو بخش دوں جو روزی چاہتا ہے اس کو روزی دوں کوئی بیمار ہے اس کو تندرست کر دوں کوئی ایسا ہے کوئی ویسا ہے یہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح طلوع ہو .(سنن ابن ماجہ جلد ١ باب فضائل نصف شعبان)

(٢) اماں عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " بیشک الله شعبان کی نصف رات میں دنیا کے آسمان کی طرف اترتا ہے اور بخش دیتا ہے اتنے لوگوں کو جن کا شمار بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ ہے (سنن ترمزی و ابن ماجہ )

(٣) ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ " نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیشک الله پندرہ شعبان کو برآمد ہوتا ہے اور اپنے سارے بندوں کو معاف کر دیتا ہیں سوائے مشرک اور جو مسلمان سے بغض رکھے .(سنن ابن ماجہ )

(٤ ) نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شعبان سے شعبان تک نکاح ،اولاد اور آدمی کی موت کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے .(تفسیر الطبری سوره الدخان آیات ١-٣)

یہ وہ بنیادی روایات ہیں جو اس ضمن میں پیش کی جاتی اور شب برات کے حوالے سے جتنی روایات موجود ہے ان کا نفس مضمون اسی نویت کا ہے اور یہ مختلف طرق واسناد سے اسی نفس مضمون میں نقل ہوئی ہیں اب ان روایات کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں .

(١ ) اس روایت میں ابن ابی سبره ضعیف راوی ہے اور وہ من گھڑت روایت بیان کرتا تھا .
امام احمد فرماتے ہیں : من گھڑت روایات بیان کرنے والا تھا .
ابن معین فرماتے ہیں : اس کی کوئی حثیت(حدیث بیان کرنے کے حوالے سے ) نہیں ہے
ابن المدینی فرماتے ہیں : منکر الحدیث ہے .
امام بخاری فرماتے ہیں : منکر الحدیث ہے.
امام النسائی فرماتے ہیں :متروک الحدیث ہے .
ابن عدی فرماتے ہیں : حدیث گھڑتا تھا .
ایسے حدیث گھڑنے والی کی روایت کسی صورت قابل قبول نہیں ہے .

(٢) یہ روایت ترمزی اور ابن ماجہ میں نقل ہوئی ہے اس میں دو سے تین علتیں موجود ہیں جو ہم ترتیب وار بیان کریں گے.
حجاج بن ارطاہ : یہ ضعیف راوی ہے کیونکہ یہ کثرت سے غلطیاں کرتا تھا اور دوسرا یہ مدلس بھی ہے اور اس کا یحییٰ بھی ابی کثیر سے سماع بھی ثابت نہیں ہے چنانچہ تہذیب التہذیب میں ابن حجر فرماتے ہیں " یحییٰ بن ابی کثیر اور مکحول سے اس کی بیان کردہ روایت میں ارسال ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے .(تہذیب التہذیب ترجمہ حجاج بن ارطاہ) اور اس کے کثرت سے غلطیاں کرنے اور مدلس ہونے کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں "
صدوق كثير الخطأ والتدليس" سچا ہے مگر کثرت سے غلطیاں کرتا ہے اور تدلیس کرتا ہے .(التقریب تہذیب جلد ١ )
تو یہ راوی ضعیف بھی ہے مدلس بھی ہے اور اس کا سماع بھی اپنے اگلے راوی سے ثابت نہیں ہے
یحییٰ بن ابی کثیر : یہ بھی مدلس راوی ہے اور اس نے بھی اس روایت میں عن سے روایت کی ہے اس لئے یہ ضعیف ہے اور اس کا اپنے اگلے راوی عروہ سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ اس کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں .
ابو زرعہ فرماتے ہیں یحییٰ کا عروہ سے سماع ثابت نہیں ہے .
ابو حاتم فرماتے ہے یحییٰ کا عروہ سے سماع نہیں ہے .(تہذیب التھذیب ترجمہ یحییٰ ابن ابی کثیر )
اس کے مدلس ہونے کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں : یہ مدلس ہے اور ارسال بھی کرتا ہے (درمیان میں راوی ذکر نہ کرنے کو ارسال کہتے ہیں ) (تقریب التہذیب ترجمہ یحییٰ ابن ابی کثیر )
ان تمام علتوں کی وجہ سے حدیث ٢ بھی ضعیف ہے .

(٣) اس حدیث میں متعدد علتیں موجود ہیں ہم ترتیب وار اس کا جائزہ لیتے ہیں .

عبدللہ بن لھیعہ: اس راوی سے روایت کرنے والے راویوں میں سے مندرجہ ذیل چار لوگ روایت کریں تو اس کی روایت قابل قبول ہے وہ چار لوگ یہ ہیں (١) ابن وھب (٢) ابن مبارک (٣) عبدالله بن یزید المقری (٤) عبدالله بن مسلمه العمنبی(میزان اعتدال ترجمہ ٤٥٣٠ )
اس روایت میں اس سے الولید بن مسلم نے روایت کی ہے اور یہ راوی خود مدلس ہے اس کے بارے میں ہم اپنے مقام پر بات کریں گے حصول یہ ہے کہ اس راوی سے جب مندرجہ بالا ٤ افراد روایت کریں تو اس کی روایت قبول ہے ورنہ رد ہے اور اس روایت میں ان میں سے ایک بھی موجود نہیں ہے .
الضحاک بن ایمن : یہ مجہول راوی ہے اور مجہول راوی کی روایت قبول نہیں ہوتی ہے اس کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں " الضحاك بن أيمن الكلبي مجهول(تقریب التہذیب )
الولید بن مسلم : یہ مدلس راوی ہے اس کے میں ابن حجر فرماتے ہیں " الوليد بن مسلم القرشي مولاهم أبو العباس الدمشقي ثقة لكنه كثير التدليس والتسوية" (تقریب التہذیب ) الوليد بن مسلم ثقه ہے مگر کثرت سے تدلیس تسویہ کرتا ہے .

یہ اس روایت کی پہلی سند ہے جس میں یہ راوی ضعیف ہیں اور اس کی دوسری سند میں جو راوی ضعیف ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں .

(١) عبدللہ بن لھیعہ: یہ دوسری سند میں بھی موجود ہے اس کے بارے میں ہم اوپر کلام کر چکے ہیں

(٢) الزبیر بن سلیم : یہ راوی بھی مجہول اس اس کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں " الزبير بن سليم مجهول"(تقریب التھذیب )

(٣) عبد الرحمن بن عرزب: یہ الضحاک کا والد ہے اور الضحاک نے اس سے روایت کی ہے اور یہ بھی مجہول راوی ہے چنانچہ ابن حجر فرماتے ہیں
عبد الرحمن بن عرزب والد الضحاك مجهول(تقریب التھذیب )

یہ روایت ان تمام راویوں کی وجہ سے حدیث ٣ ضعیف ہے اور حجت کے قبل نہیں ہے

(٤) یہ حدیث ٤ مندرجہ ذیل علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے .

(١ ) اس روایت میں ابن شہاب مدلس راوی ہے اور اس نے اس روایت میں تدلیس کی ہے (دیکھیے طبقات المدلسین ابن حجر )
(٢) عثمان بن محمد بن المُغيرة بن الأخنس :یہ صحابی نہیں ہے اور اس نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے (تہذیب التھذیب ) اس لئے ایسی روایت مرسل کہلاتی ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے

حدیث ٤ میں یہ دو علتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت ضیف ہے .

یہ وہ بنیادی روایات تھی اسی قسم کے نفس مضمون کی روایات مختلف کتب احادیث میں نقل ہوئی ہیں مگر ان تمام کو محدثین نے رد کیا ہے اور ان میں سے بعض پر ضعیف اور بعض پر من گھڑت کا حکم لگایا ہے اب ہم وہ اقوال بھی اپ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ بات ازخود گھڑی ہوئی ہے .

(١) اہل مدینہ کے علماء اس پر متفق تھے کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں ہے .(لطائف المعارف ابن رجب حنبلی )
(٢) امام مالک اور ان کی اصحاب اس رات میں ہر عمل کو بدعت مانتے تھے (لطائف المعارف ابن رجب حنبلی )
(٣) امام قرطبی فرماتے ہیں : نصف شعبان کے بارے میں کوئی حدیث قابل اعتبار نہیں ہے نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ ہی اس رات میں حساب کتاب کے بارے میں اور نہ اس میں متوجہ ہونا سے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد ہے.( تفسیر قرطبی تحت آیات سوره الدخان )
(٤) ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں : اس باب میں نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنھم سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے . (لطائف المعارف ابن رجب حنبلی )
(٥) امام قاسمی فرماتے ہیں : محدثین نے شب برات کے حوالے سے کسی روایت کو ایسا نہیں پایا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے (سلسلہ احادیث الصحیحہ رقم ١١٤٤ )
(٦) صفی الرحمن مبارک پوری فرماتے : شب برات کی فضیلت پر جتنی احادیث ہیں ان کی کوئی اصل نہیں ہے ،
اور اگے فرماتے ہیں " ان تمام احادیث سے جو شب برات کی فضیلت کے حجت ہونے کا گمان کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث سے شب برات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے .(تحفہ الاحوذی شرح ترمذی رقم ٧٣٣ کتاب الصوم )

یہ ان آئمہ اور محدثین کے اقوال ہیں جن کے مطابق اس رات کی کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ اس بارے میں کوئی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے ان میں سے حدیث ٣ کو محدث عصر ناصر الدین البانی نے حسن کہا اس کی بنیاد ابن حبان کی حدیث ہے جو معاذ رضی الله عنہ سے اسی طرق سے منقول ہے چنانچہ اس حدیث میں البانی صاحب کے مطابق صرف انقطاع تھا اس اس واضح سے انھوں نے متعدد سند سے منقول ہونے کی بنا پر اس حدیث ٣ کو حسن کا درجہ دیا ہے مگر اس روایت کو امام دارقطنی نے اپنی کتاب "العلل الواردة في الأحاديث النبوية" میں نقل کر کے اس میں موجود علت کو واضح کیا ہے

وہ فرماتے ہیں " یہ روایت مکحول کا قول ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے .(العلل الواردة في الأحاديث النبوية رقم ٩٧٠ )

اور آخر میں اس رات میں جو ١٠٠ نفل کی ایک مخصوص نماز پڑھی جاتی ہے وہ بدعت ہے اس کی کوئی اصل نبی صلی الله علیہ وسلم سے اور نہ صحابہ کرام رضی الله عنھم سے ثابت ہے اس بارے میں ابن رجب حنبلی "لطائف ا لمارف
اور امام نووی نہ شرح مذاہب میں اس کو بدعت لکھا ہے .
الله ہم کو دین میں بدعات اور خرافات سے بچا ئے .آمین
وما علینا الا بلاغ

tariq mehmood
About the Author: tariq mehmood Read More Articles by tariq mehmood: 13 Articles with 37000 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.