حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بارگاہ ِ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہاکا بیان ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کو شہدا ء کے درمیان دفن کردیں اور بعض کہتے تھے کہ آپ رضی اﷲ تعالی عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ میں نے کہامیں تو انھیں اپنے حجرے میں اپنے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے پاس دفن کروں گی۔ ابھی ہم اس اختلاف میں تھے کہ مجھ پر نیند غالب آگئی میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ محبوب کو محبوب کی طرف لے آؤ۔ جب میں بیدار ہوئی تو پتا چلا کہ تما م حاضرین نے اس آواز کو سن لیا تھایہاں تک کہ مسجد میں موجودلوگوں نے بھی اس آواز کو گوش ہوش سے سُنا۔

وفات سے پہلے سید نا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے تابوت (جنازہ)کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے روضہ انور کے پاس لاکر رکھ دینا اور السلام علیک یارسول اللّٰہکہہ کر عرض کرنا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم !ابوبکررضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہواہے۔ اگر اجازت ہوئی تو دروازہ کھل جائے گااور مجھے اندرلے جاناورنہ جنت البقیع میں دفن کردینا ۔راوی کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی وصیت پر عمل کیا گیا تو ابھی وہ کلمات پایہ اختتام کو نہ پہنچے تھے کہ پردہ اٹھ گیا۔ اور آواز آئی کہ:’’حبیب کو حبیب کی طرف لے آؤ‘‘۔ (شواہد النبوۃ،رکن سادس،ص۲۰۰)

جائے غور ہے کہ اگر ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو زندہ نہ جانتے تو ہر گز ایسی وصیت نہ فرماتے کہ روضۂ اقدس کے سامنے میر ا جنازہ رکھ کر اجازت طلب کی جائے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہمنے اسے عملی جامہ پہنا یا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کاعقیدہ تھا کہ رسول اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بعد وصال بھی قبر انور میں زندہ اور صاحب اختیار و تصرف ہیں۔الحمد للّٰہ عزوجل

شوق رفاقت: حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں رات کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں رہا کرتا تھا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے وضو کیلئے پانی لایا کرتا تھا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتاتھا ایک روز آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے مجھ سے فرمایا : سَل (مانگو) میں نے عرض کیا: اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِمیں آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے بہشت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں ۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ اورکچھ؟ حضرت ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرا مقصود تو وہی ہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا تو کثرت سجدہ سے میری مدد کر۔
(صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب فضل السجود، الحدیث۴۸۹،ص۲۵۲)

مطلب یہ ہے کہ خود بھی اس مقام بلند کی شان پیدا کرو ،میری عطا کے ناز پر کثرت عبادت سے غافل نہ ہوجاؤ۔

اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کے تحت ہے:
’’واز اطلاق سوال کہ فرمودہ سل بخواہ و تخصیص نہ کرد وبمطلوبی خاص معلوم می شودکہ کا رہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہر چہ خواہدو ہرکرا خواہد باذن پروردگار خود بدہد‘‘
(اشعۃ اللمعات،کتاب الصلاۃ،باب السجود وفضلہ،ج۱،ص۴۲۵)
ترجمہ: سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:کہ مانگو! اس میں کسی خاص مطلب کی تخصیص نہیں کی اس سے معلوم ہوتاہے کہ سارے کام حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست عزت وقوت میں ہیں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جو چاہیں جسے چاہیں اپنے پروردگار عزوجل کے اذن سے عطا فرمائیں۔

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349458 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.