اڈوانی ،مودی اورنتیش، وفاقی محاذاورمسلم قیادت؟

باسمہ تعالیٰ

بھارتیہ جنتاپارٹی کاجنم جن سنگھ کی کوکھ سے ہوا، پرورش اٹل بہاری باجپئی جی کی گودمیں ہوئی،اوراڈوانی جی نے فرقہ پرستی اورفسطائیت کی گندی ذہنیت سے تربیت کی اور پروان چڑھایا۔۹۰ء کی دہائی میں سومناتھ سے ایودھیاجانے کے لیے رام رتھ کاسہارالیا،اورپرسکون وطن اورامن پسندعوام کوفرقہ وارانہ فسادمیں جھونک دیاجس کانتیجہ ۶؍ دسمبر کوبابری مسجد کی شہادت کی شکل میں نکلا جوکہ رہتی دنیاتک ہندستان جیسے امن پسنداورکثرت میں وحدت کی مثال ملک کے ماتھے پربدنماداغ بن گیا۔یہ اڈوانی کی ہی فرقہ پرستی اورفسطائی ذہنیت کاکمال تھاکہ اس نے بی جے پی کو رام مندراوررام راج کے کھوکھلے نعروں کے بل بوتے پرایوان میں۲کی تعدادکوایک ہی جست میں ۱۸۸کی تعدادتک پہونچادیا اور تقریبا چھ سالوں تک حکمرانی کامزہ بھی چکھا۔

بھارتیہ جنتاپارٹی یابی جے پی دراصل ملک کوفرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے والی آرایس ایس کی سیاسی جماعت ہے،ویسے توبی جے پی اورآرایس ایس کے لیڈران ہمیشہ اس کی نفی کرتے آئے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کسی طرح کاکوئی رشتہ ہے بلکہ بی جے پی کے سبھی رہنمااس بات کی صفائی دیتے نظرآتے ہیں کہ بی جے پی مستقل ایک جماعت ہے اوراس کااپناالگ نظریہ ہے جسے وہ ہندتوکانام دیتے ہیں اوراس کے تمام فیصلے اپنے ہوتے ہیں،ناگپورکافیصلہ ان پرتھوپانہیں جاتا،لیکن اس صفائی میں کتنی سچائی ہے،حقائق پر نظر رکھنے والے سے یہ پوشیدہ نہیں ہے،اوراس کی تازہ ترین مثال اڈوانی جی کاہائی پروفائل استعفیٰ ڈرامہ اوراس کی واپسی ہے۔آرایس ایس،بھاجپایاجن سنگھ اوراڈوانی جی کاآپس میں کیارشتہ ہے وہ بھی جگ ظاہرہے،آرایس ایس کی پیداواربھارتیہ جن سنگھ تھی،اوراڈوانی جی کو۱۹۷۳ء کے جن سنگھ کے کانپوراجلاس میں اس کاصدربھی بنایا گیا تھا اورانہوں نے بڑی وفاداری اورایمانداری سے اپنی ذمہ داریوں کونبھایااورپھرجب جن سنگھ کوبھارتیہ جنتاپارٹی کی شکل میں نیانام ملاتواس وقت بھی اٹل جی کے بعداڈوانی جی ہی تھے جنہیں پارٹی میں دوسرامقام حاصل تھا،اوراتناہی نہیں بلکہ یوں کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ باجپئی جی کے نرم طبیعت ہونے کی وجہ سے سیاہ وسپیدکے مالک اڈوانی جی ہی تھے۔ اڈوانی جی نے اپنی زندگی میں۶؍رتھ یاترائیں نکالیں جس کامقصد ملک کی شانتی کوتہس نہس کرناتھااوررام مندراورمذہب کے نام پربھولی بھالی عوام کوورغلاکرسیاست کی دوکان چمکانی تھی اور جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔۱۹۹۰ء کے رتھ یاتراسے پہلے وہ اتنے مشہورنہیں ہوئے تھے جتناکہ رتھ یاتراکے نتیجہ میں بابری مسجدکی شہادت کے بعدلوگوں نے ان کوپہچانااوروہ فرقہ پرستی اورفسطائی طاقت کی ایک بدترین مثال بن کرابھرے،اتناہی نہیں بلکہ ایک طبقہ نے تو انہیں مردآہن کابھی خطاب دیا،اوران کی برابری سردارپٹیل سے کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی،اورانہیں اتنی عزت دی کہ نائب وزیراعظم کی کرسی پہ بیٹھادیا۔اڈوانی جی نے ہمیشہ وہی کیاجس سے عوام کے جذبات بھڑکیں،منافرت کاماحول پیداہو اور امن وشانتی غارت ہواورفرقہ واریت کی آگ کوبھڑکاکرسیاست کرتے رہے،اس دوران انہوں نے اپنے بہت سارے چیلے بھی پیداکیے جیسے کلیان سنگھ،اومابھارتی،ونئے کٹیار اور اس طرح کے بہت سے نام ہیں جوفرقہ پرستی کوہوادینے میں اپنی مثال آپ ہے،لیکن ان سب چیلوں میں ان کاسب سے چہیتااورلاڈلاچیلااپنے وقت کانیرونریندرموذی ہے، جس نے فرقہ پرستی کوہوادینے اورمسلم دشمنی میں اپنے گروکوہزاروں میل پیچھے چھوڑدیا،اوراس مقام پرپہونچنے کے لیے اس نے اپنے گروکے ارمانوں کواپنے پیروں تلے بڑی بے دردی سے کچل ڈالا۔
نریندرمودی(موذی)بس اسٹیشن پرچائے بیچنے والاایک معمولی لڑکااس وقت ہندستان کی سلطنت پرقبضہ کرنے کاخواب اپنے آنکھوں میں سجائے پھررہاہے،تاریخ سے واقفیت رکھنے والاشخص بخوبی جانتاہے کہ مودی کی پیدائش ۱۹۵۰ء میں گجرات کے مہسانہ ضلع کے وڈانگرکے ایک بنیاگھرانے میں ہوئی،اورگذربسرکرنے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ بس اسٹیشن پرچائے کی دکان کھول لی اورپھراسی دوران وہ آرایس ایس کاپرچارک بن گیا،آرایس ایس نے اس کی فرقہ وارانہ ذہنیت کوبھانپتے ہوئے اسے آرایس ایس کے اسٹوڈنٹس ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدکی ذمہ داری بھی سونپ دی۔اس دوران مودی نے بھارتیہ جن سنگھ کے دوقدآورلیڈروسنت گجیندرگاڈکراورنٹھال جگداسے کہری راہ ورسم بڑھائی اورجب بی جے پی کی بنیادپڑگئی تو۱۹۸۷ء میں آرایس ایس نے بھرپورذہن سازی اورتربیت کے بعدبی جے پی میں ٹرانسفرکردیا۔مودی بی جے پی میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہا اورقومی وریاستی سطح پرپارٹی کی نمائندگی کی۔۲۰۰۱ء میں جب کیشوبھائی پٹیل گجرات کے وزیراعلیٰ تھے،پٹیل حکومت بحران کاشکارہوچکی تھی اوراسی وقت بھج میں خطرناک زلزلہ آیا، پٹیل ان سب چیلنجوں سے نمٹنے میں ناکام رہے تب اس وقت اڈوانی نے باجپئی جی کویہ مشورہ دیاکہ مودی کونائب وزیراعلیٰ بنادیاجائے تاکہ وہ کچھ تجربہ حاصل کرے ،لیکن مودی نے اپنی ڈکٹیٹرانہ ذہنیت کامظاہرہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیاکہ اسے صرف وزارت اعلیٰ کی کرسی چاہیے،اوربالآخرمرتاکیانہ کرتابی جے پی نے اس موذی کوگجرات کی کمان سونپ دی جس کانتیجہ ۲۰۰۲ء کامسلم کش فسادکی شکل میں ظاہرہوا۔

کہاوت بہت مشہورہے کہ اگرآپ ببول بوئیں گے توکاٹیں گے بھی ببول،ببول بوکرآم کی امیدنہیں رکھ سکتے،اورایساہی کچھ ہوابے چارے اڈوانی جی کے ساتھ!اڈوانی جی نے مودی کی ہرموقع سے پشت پناہی کی،حتیٰ کہ جب ۲۰۰۲ء کے فسادکے بعدپوری دنیامیں مودی کے خلاف باتیں ہوئیں،باجپئی جی نے راج دھرم نبھانے کی تلقین کی اورپھرنوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ مودی کوہٹانے کے علاوہ کوئی دوسراراستہ نہیں تھا اس وقت یہی اڈوانی جی تھے جنہوں نے مودی کی پشت پناہی کی تھی اورایسی زبردست حمایت کی کہ وہی باجپئی جوگجرات میں راج دھرم نبھانے کی تلقین کررہے تھے گواپہونچتے ہی ان کی آوازبدل گئی اوراسی گواکنونشن میں جس میں انہیں۲۰۱۴ء کے الیکشن مہم کاتاج پہنایاگیاہے،ٹھیک آج سے گیارہ سال قبل مودی کوہٹانے کی بات چل رہی تھی اوراڈوانی جی کی حمایت پران کی نیاپارلگی تھی،لیکن دیکھیں آج کیاہوا؟
آج وہ شخص جوکبھی سیاہ وسپیدکامالک ہواکرتاتھاکنارہ کیاجاچکاہے،بلکہ اگریہ کہاجائے کہ شہیدبابری مسجدکی بددعااس کاپیچھانہیں چھوڑرہی ہے توبے جانہ ہوگا،اوراس کی جگہ ایسے شخص کوبٹھایاگیاہے جوکہ اس کاشاگردہے،بی جے پی کے گوامیں ہونے والے قومی اجلاس کی خبروں سے سبھی واقف ہیں کہ اڈوانی اس اجلاس میں اس لیے شریک نہیں ہوئے کہ وہ علیل تھے بلکہ اس اجلاس میں آرایس ایس کافرمان پڑھ کرسنایاجانے والاتھااوروہ فرمان تھامودی کی تاجپوشی کا،اڈوانی کوہرگزیہ بات پسندنہیں تھی کہ کل کالڑکاجسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایاآج وہ ان پرحکمرانی کرے،اڈوانی جی کی اناکوٹھیس پہونچنی لازمی تھی،لہٰذاانہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ جس پارٹی کوجن اصولوں کی بنیادپرڈاکٹرشیاماپرسادمکھرجی نے قائم کیا پارٹی ان اصولوں سے بھٹک گئی ہے اورکچھ لوگ پارٹی میں ذاتی مفادپرستی کوہوادے رہے ہیں،ایسی پارٹی کے عہدوں پربرقراررہنامیرے لیے مشکل ہے لہٰذامیں اپنے تمام عہدوں سے استعفیٰ دیتاہوں۔یقینایہ غیرمتوقع استعفیٰ بی جے پی کے لیے کچھ لمحوں کے لیے پریشانی کاسبب ضروربنا،اوربی جے پی کے تما م لیڈروں نے استعفیٰ واپس لینے کے لیے دباؤبنایالیکن اڈوانی جی اس وقت تک ٹس سے مس نہیں ہوئے جب تک کہ ان کے حاکم اعلیٰ شری موہن بھاگوت کی گھڑکی نہ پڑی،ناگپورکی ڈاٹ پڑتے ہی فوراًاسی بھٹکی ہوئی اورگمراہ پارٹی میں پھرسے واپس آگئے،اب یہ تواڈوانی جی ہی بتائیں گے کہ کیابی جے پی اپنے اصولوں پرلوٹ آئی ہے یاوہ خوداپنے اصولوں سے پھرگئے ہیں؟اس واقعہ سے بی جے پی کے اندرونی معاملات میں آرایس ایس کاعمل دخل صاف ظاہرہے!!!

مودی کی تاجپوشی اوراڈوانی جی کاہائی پروفائل استعفیٰ ڈرامہ سے کسی کابھلاہوایاہونہ ہواہوالبتہ اس واقعہ سے جنم لینے والے دوواقعات ایسے ہیں جویقینابی جے پی کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی، اس میں سب سے اہم واقعہ تواین ڈی اے کی سب سے بڑی حلیف جماعت جنتادل یوکااین ڈی اے سے علاحدگی کااشارہ ہے،ویسے بھی یہ علاحدگی کے اشارے بہت قبل سے ملنے شروع ہوگئے تھے ،کیوں کہ نتیش جی کوبہارکی حکومت بہت پیاری ہے اورانہیں معلوم ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ مودی کے ہاتھ میں بی جے پی کی باگ ڈورچلی گئی ہے اگراب بھی وہ این ڈی اے میں بنے رہتے ہیں توکم ازکم بہارمیں ان کے لیے مسلم ووٹ کاحصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا،لہٰذانتیش جی ہاتھ آئے اس سنہرے موقع کوگنوانانہیں چاہیں گے اورجیساکہ اشارہ مل رہا ہے کہ بس کسی نہ کسی وقت اس علاحدگی کارسمی اعلان کردیاجائے گا،اوردوسراواقعہ ہے وفاقی محاذکی تشکیل کا شوشہ، جس کے ذریعہ بنگال کی دیدی کانگریس کوسبق سکھاناچاہتی ہیں اوراسی لیے انہوں نے آنافانامیں ایک’’وفاقی محاذ‘‘کی تشکیل کے لیے علاقائی پارٹیوں سے رابطہ کرناشروع کردیا ہے،ظاہرہے جب وفاقی محاذکی تشکیل ہوگی تواس میں شامل ہونے والی پارٹیوں میں وہی پارٹی ہوں گی جوکانگریس اوربی جے پی کے ہاتھوں دھوکہ کھائے ہوئی ہیں،ان کے لیے یہ بڑاسنہراموقع ہوگا۔ویسے ہندستانی سیاست کی تاریخ اس سلسلہ میں بڑی تاریک ہے کہ غیرکانگریسی اورغیربی جے پی جماعتوں کی حکومت جسے ماضی میں تیسرے محاذ یا تیسرے مورچہ کانام دیاگیازیادہ کامیاب نہیں رہی ہے،اورہوایہی ہے کہ اس طرح کے مورچوں میں شریک ہونے والی ہرپارٹی کاسربراہ خودکووزیراعظم کی کرسی سے نیچے دیکھنا پسندہی نہیں کرتا،اوریہی وہ مقام ہے جہاں پہ تیسرامورچہ مات کھاجاتاہے۔جیساکہ ممتادیدی نے اعلان کیاہے کہ ملک کواب وفاقی محاذکی ضرورت ہے،تومیراسب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے یہ بتائیں کہ وفاقی محاذکی اگرحکومت بنتی ہے تواس کاوزیراعظم کون ہوگا؟کیوں کہ وفاقی محاذمیں شامل ہونے والی ممکنہ پارٹیوں میں ترنمول کانگریس،جنتادل یو،بیجوجنتادل،سماج وادی پارٹی،جنتادل ایس،ممکن ہے کہ آرجے ڈی اورلوجپابھی شامل ہوجائے،اس صورت میں وفاقی محاذمیں کئی سینئراورقدآورلیڈرجمع ہوجائیں گے اورجن میں سے تقریباہرایک کاوزیراعظم بننے کااپنااپناسپناہے،جیسے کہ ملائم سنگھ یادوجنہیں ابھی سے ان کی پارٹی کے لوگ وزیراعظم کامضبوط دعویداربناکرپیش کر رہے ہیں،اسی طرح نتیش کمار،ممتابنرجی،لالوپرساد وغیرہ ہیں،بڑاسوال یہ پیداہوتاہے کہ وزیراعظم کون ہوگا؟کیوں کہ ان ناموں میں سے کوئی بھی نام ایسانہیں ہے جوملک و عوام کے مفادکی خاطراپنی دعویداری واپس لے لے بلکہ انہیں تواپنی کرسی پیاری ہے؟

ان تمام ڈراموں میں مسلم قیادت کہاں ہے ؟مسلم قیادت کس پوزیشن میں ہے یہ جاننانہایت ہی ضروری ہے،کیوں کہ مسلمان اس ملک کاوہ اہم حصہ ہے جس کوساتھ لیے بغیرکسی حکومت کابننامشکل ہی نہیں ناممکن ہے،اب دیکھنایہ ہے کہ کیامسلم قیادت این ڈی اے کی اس آپسی انتشار سے کوئی فائدہ اٹھاسکے گی؟کیوں کہ مسلمانوں کو ساٹھ سالوں تک کانگریس سے دھوکہ کھانے کاطویل تجربہ ہے،بی جے پی سے خیرکی توقع نہ کبھی تھی اورنہ رہے گی،کیوں کہ مودی کی تاجپوشی کامطلب ہی ہے مسلم دشمنی کومزیدہوادینااورجگہ جگہ گجرات کے تجربات کو دہرانا،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین اورعلماودانشورحضرات بلااختلاف مسلک وملت سرجوڑکربیٹھیں اورکوشش کریں کہ علاقائی پارٹیاں کم از کم مشترکہ پروگرام کے تحت وفاقی محاذکی تشکیل کوعملی جامہ پہنائے،مسلم قائدین اگر چاہیں تووفاقی محاذکی تشکیل میں بڑااہم اورمؤثرکرداراداکرسکتے ہیں شرط ہے ذاتی مفادپرستی سے بالاترہوکرکام کرنے کی۔کم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت ایک ایساخاکہ اورلائحہ عمل تیارکیاجائے کہ سینئریٹی اورسیٹوں کی تعدادکووزارت کے لیے معیاربنایاجائے،مسلم نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے طے کی جائے،اوراسی طرح حکومت سازی اوروزارت کی تقسیم میں بھی اسی کومعیاربنایاجائے،کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کوسلطنت سے زیادہ اپنے نوجوانوں کی حفاظت اورتعلیمی،معاشی اورسماجی اعتبارسے مضبوط ہونے کی ضرورت ہے،اوریہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب حکومت اوروزارت میں مناسب نمائندگی ہو اورذاتیات سے اوپراٹھ کرقوم وملت کے مفادکوترجیح دے کرکام کیاجائے۔این ڈی اے کے انتشارکوہلکے میں نہ لیں بلکہ اپنی سیاسی بصیرت کااستعمال کرتے ہوئے ملت کے وسیع ترمفادکوپیش نظررکھتے ہوئے وفاقی محاذکی تشکیل کی راہ ہموارکریں اوراپنی آبادی کے تناسب سے اپنی نمائندگی طے کریں،یادرکھیں!ایساسنہراموقع باربارہاتھ نہیں آتااگراس وقت نہ جاگے توشایدپھرکبھی جاگنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی!!!
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46797 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More