خادمِ اعلیٰ کی تعلیمی خدمات

 افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے مِلَّت کے مقدّر کا ستارا

اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کوبے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان میں کہیں فلک بوس پہاڑ ہیں تو کہیں وسیع وعریض میدان،کہیں برف پوش چوٹیاں ہیں تو کہیں تپتے صحرا،کہیں گھنے جنگلات ہیں توکہیں چٹیل وبنجرمیدان اورکہیں سونا اُگلتی زمین ہے توکہیں معدنیات سے مالامال سرزمین۔ الغرض پاک سرزمین کو اﷲتعالیٰ نے ہر قسم کے معاشی وانسانی وسائل سے سرفراز کیا ہے۔اِس عرضِ وطن کے جفاکش وہنر مند لوگ پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے رہیں۔اگراس کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو اِس اَرض وطن کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے مختلف پیشوں سے منسلک ہنرمندوکاریگر افراد کو دیکھ لیجئے جو کسی بھی شعبہ میں دنیا سے پیچھے ہرگِزنہیں۔الغرض مملکت اسلامی پاکستان میں کسی چیزکی کوئی کمی نہیں۔

البتہ عصرِحاضرمیں پاکستان اندرونی وبیرونی خلفشار کاشکار نظرآتاہے۔ اِتناسب کچھ ہونے کے باوجودایساکیوں ہے؟اقوامِ عالَم میں پاکستان کوکیوں کوئی قدرومنزلت حاصِل نہیں؟ اِس کا جواب صرف یہی ہے کہ اِس مملکت خداداد میں مثالی قیادت کا ہمیشہ سے بحران رہا ہے۔ قیادت کے فرائض ہمیشہ اُن لوگوں نے سرانجام دیئے ہیں جنہیں اِس مملکت کے مفادات سے کوئی سروکار نہ تھا۔اُنہیں اپنے مفادات عزیز تھے۔قائدِاعظمؒ کے بعدہمیں کوئی بھی ایسارہنمامیسر نہ آسکاجوقومی وبین الاقوامی مسائل میں ہماری صحیح رہنمائی کرتا۔

زمانہء طالب علمی میں۱۹۹۰ء کی دہائی میں اور اس سے پہلے کے دور میں میں میاں محمدنوازشریف صاحب اِسلامی جمہوری اِتحاد اور بعدازاں پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے اِسم ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں کئی بار کامیاب ہوئے۔اُس دورمیں وہ ہمارے محبوب ترین رہنماتھے۔ہم بھی بنیادی طورپرنظریاتی اعتبارسے مسلم لیگ سے منسلک تھے کیوں کہ ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے اور وہی اِس کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرسکتی ہے۔ہمارا خیال تھاکہ عوام کے تمام تر مسائل کا حل میاں صاحب ہی کے پاس ہے اور اُنہوں نے اُس دور میں واقعی مسیحائی کاحق بھی اداکیا۔اُنہوں نے نوجوانوں کے روز گارکے لئے پیلی ٹیکسی سکیم متعارف کروائی۔تیز ترین ترقی کے لئے موٹروے جیسامنصوبہ شروع کیااورسب سے بڑھ کراُنہوں نے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کوبھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب تمام تَرعالمی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کرکے اقوامِ عالم میں پاکستان کاسَرفخر سے بلندکیا۔شایداُن کے اِسی کارنامے کی وجہ سے اُنہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔اُن کے اِس کارنامے کی وجہ سے قوم اُنہیں ہمیشہ ایک محسن کے طور پریادرکھے گی۔

یہ گردشِ ایام بھی عجیب شے ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رہنے سہنے اور سوچنے کے انداز تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔بارہاتاریخ نے بادشاہوں کوفقیراور گداگروں کو تختِ سلطانی پر دیکھا۔ حالات کے جبر نے کئی مخلص ومحب وطن لوگوں کو ملکی وملّی سلامتی کے خلاف اقدامات پر مجبورکرکے رکھ دیا۔سچ کہتے ہیں کہ سَداوقت ایک سا نہیں رہتا۔غدارِاعظم بدنامِ زمانہ آمِرپرویز مشرف کی طرف سے جبری جِلاوطن کئے جانے کے بعدشریف برادران کو کئی سال مادرِوطن سے دوررہنا پڑا اورایک وقت ایسا آیاکہ وہ دونوں ڈرامائی انداز میں پوری شان وشوکت کے ساتھ وطنِ عزیز میں واپس آپہنچے۔ پھر سے عوامی اُمنگیں اُن دونوں کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ لیکن عوام کو کیا معلوم کہ اُن کے رہبرورہنمااَب پہلے سے کافی بدل چکے تھے۔ اب اُنہیں اپنے ملک کی نسبت بیرونی دنیا کی سلامتی زیادہ عزیزتھی۔ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی پاکستان میں برسرِاقتدار آگئی جبکہ شریف برادران کی مسلم لیگ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی۔میاں شہباز شریف وزیرِاعلیٰ کے منصِب پرفائزہوئے اورمیاں نوازشریف پس منظر میں رہ کر اپنی پارٹی کے اُمور نپٹانے اور ملکی اُمور کے بجالانے اورجمہوریت کو بچانے میں اپناکرداراداکرتے رہے۔

اپنے اِس دور حکومت میں جہاں کچھ اچھے کام شریف برادران کے حصے میں آئے وہیں بہت سے ایسے کام بھی اُن سے سرزد ہوئے جِن کی اُن سے ہر گِز توقُّع نہ تھی۔وہ جن سے عوامی اُمنگیں وابستہ تھیں اور جو اپنے آپ کو میڈاِن پاکستان کہنے میں فخرمحسوس کرتے، وہی اب بدلے بدلے نظر آئے حالانکہ وہ اپنے سابقہ دور حکومت میں تو ایسے نہ تھے۔تعصُّب وتنگ نظری سے بالا تر ہو کر جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ واقعی مسلم لیگ کی حکومت عوامی توقعات پر پورااُترنے میں ناکام رہی۔ یہ تو بھلاہو پیپلزپارٹی کی حکومت کا کہ اُنہوں نے اُن سے بڑھ کر پورے ملک کی ناک میں دَم کئے رکھا جس وجہ سے لوگوں نے دوبارہ پاکستان مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرکے پِھر سے اُن سے اُمیدیں لگا لیں۔ اﷲ کرے اَب کی بار وہ عوام کی اُمیدوں پر پورا اُترنے میں کامیاب رہیں۔

میاں برادران سے ہمارا کوئی ذاتی اختلاف ہر گِزنہیں۔وہ کل بھی ہمارے رہنماتھے اور آج بھی بھی اِس ملک وملت کی ڈور اُن کے ہاتھ میں ہے۔ایک محب وطن اورذمہ دارشہری ہونے کے ناطے سے ہم سب کا فرض بنتاہے کہ مُلکی ومِلّی سلامتی کے حوالے سے حکمرانوں سے ہونی والی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں اور اِس ملک وملّت کے خیرخواہ اَربابِ اِختیارطبقہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کی درست سمت میں رہنمائی فرماتے رہیں۔

پچھلے تمام اَدوار میں ہر حکومت نے تقریبًا ملتے جُلتے اِقدامات کے ذریعے عوام کی اُمنگوں کے برعکس پالیسیاں اپنائے رکھیں۔ موجودہ تمام صورتِ حال کا ذمہ دار کسی ایک حکومت کو قراردینا بھی دانشمندی ہر گِز نہیں۔ البتہ بعض اِقدامات کے سلسلے میں جو حکومتیں زیادہ مشہور ہوئیں، اِس حوالے سے اُن کا نام توپیش کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا مقصد کسی پر کیچڑاُچھالنا نہیں بلکہ ہم تو اِن مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ عوام اب بھی شریف برادران سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اَب بھی اُنہوں نے اُن پر اعتماد کرتے ہوئے ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے اِنتخابات میں اُنہیں بھرپور مینڈیٹ دیا ہے۔اُمید ہے کہ اِس مرتبہ وہ اُنہیں ہرگِزمایوس نہیں کریں گے۔رائے کے اِختلاف کی گنجائش ہر جگہ موجود ہوسکتی ہے۔ جیسے چند فی صد سیکولر طبقہ اپنی مرضی کے مطابق اِس ملک وقوم کی تہذیب واقدار سے عاری نظامِ تعلیم ونصاب تعلیم کے خواہاں ہے، اِسی طرح پچانوے فی صد سے زیادہ اِسلام سے محبت کرنے والے عوام اپنی نئی نسل کے لئے ایسے نصابِ تعلیم کے لئے بے چین وبے قرار نظر آتے ہیں جِس میں اُن کی ملّی وقومی تہذیب واقدار کا نہ صرف تحفظ کیا گیا ہو بلکہ اُنہیں مزید پروان چڑھایا گیا ہو۔ اگر دین سے بے زار چند فی صد لوگوں کی رائے کا اِحترام کرنا ضروری ہے تو پچانوے فی صد سے زیادہ عوام کی رائے کا اِحترام کیوں نہیں کیا جاسکتا؟

ذیل میں پچھلے دور حکومت میں خادمِ اعلیٰ صاحب نے اِس ملک وملّت کے مفادات کے خلاف جو اِقدامات کئے اُن کی فہرست پیش کی جاتی ہے۔ اُمید ہے شریف برادران اور اُن سے وابستہ ملک وقوم کے ہمدرد اَحباب ضروراِس جانب توجّہ فرمائیں گے۔

۱۔جمعہ کی چھُٹی ختم کرنا:سابقہ دورِحکومت میں پاکستان مسلِم لیگ کی حکومت نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے تمام سرکاری اِداروں میں جمعہ کی چھُٹی ختم کر کے اتوار کی چھٹی کا اِجراء کیا۔ پاکستان اِس اِقدام کی وجہ سے تقریبًادوعشرے سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ایشین ٹائیگر تو نہ بن سکا البتہ اِس پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے کئی گُنا زیادہ ہوچکا ہے۔

۲۔ کنٹریکٹ پالیسی : شریف برادران نے اپنے سابقہ اَدوارِحکومت میں ملک میں کنٹریکٹ پالیسی کو متعارف کروایاجو کہ ملک وقوم کو مفادات کے برعکس ہونے کے ساتھ ساتھ ملازمین کے حقوق کا اِستحصال بھی تھا۔ سرکاری ملازمین میں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ شریف برادران اُن کے مفادکے خلاف پالیسیاں بناتے ہیں۔
۳
۔ سرکاری اِداروں میں قومی لباس پرپابندی:سابقہ اَدوارِ حکومت سے ہی سرکاری اِداروں میں قومی لباس کی حوصلہ شکنی کی جارہی تھی۔ پہلے پہل کالجوں میں قومی لباس شلوارقمیض پر پابندی عائدکی گئی بعد ازاں خادمِ اعلیٰ صاحب کے دور میں پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں میں پینٹ شرٹ کو یونیفارم کے طور پر لازمی قرار دے دیاگیااور قومی لباس پرپابندی لگا دی گئی۔کیاقومی لباس میں ملبوس ہو کرتعلیم حاصِل نہیں کی جاسکتی؟ کیاانگریزی تہذیب اِختیار کرنے سے ہماری تعلیم معیاری ہوگئی ہے؟

۴۔ قومی زبان کی توہین:کسی بھی ملک کو متحد رکھنے کے ایک قومی زبان کاہونا ضروری قراردیاجاتا ہے لیکن اِس گزشتہ دورمیں جتنی توہین اِس بے چاری زبان کی ہم نے خود کی شاید اِس کی اتنی بے توقیری تو متحدہ ہندوستان میں ہندوبھی نہ کرسکے ہوں گے۔اُردو میں لکھے ہوئے سائین بورڈختم کرکے انگریزی میں لکھوادئیے گئے حالانکہ اُن بورڈز کا مقصد لوگوں کوکسی اِدارے کے بارے میں رہنمائی دینا تھا اور یہ مقصد اِس وطنِ عزیز میں اُردو سے بہتر کوئی بھی زبان سرانجام نہیں دے سکتی حتیٰ کہ سرکاری اِداروں مین ایک زبانی حکم آیا کہ دیواروں پر کوئی بھی لفظ اُردو میں لکھاہوا نہ رہنے دیا جائے۔ مجھے وہ دردناک لمحہ کبھی نہیں بھولے گاجب ہمارے کالج کے درجہ چہارم کے ملازمین کے ذمہ لگایا گیا کہ کالج کے درودیوار کو اُردو کے الفاظ سے پاک کردیاجائے۔ اُس وقت مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے کا اُردو ہندی تنازعہ یاد آگیا کہ جب ہندو اِس زبان کی صرف اِس وجہ سے مخالفت پر اُتر آئے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے لیکن ہمارے نام نہاد حکمران کِس بنیاد پر اِس بے چاری زبان کے دَرپے ہیں؟ کیاترقی پانے کے لئے اِس زبان سے چھٹکارا پاناضروری ہے؟ اور کیا قومی زبان کے بغیر کوئی قوم ایک قوم کہلوانے کی مستحق ہوسکتی ہے؟

۵۔ مخلوط ٹریننگز کا انعقاد: کسی بھی قوم کی تعمیروترقی میں اُستاد کا کرداربنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔اُستادکے اِس کردار کوختم کرنے اوراُسے دینی وملی حمیت سے تہی دامن کرنے کے لئے مخلوط ٹریننگز کا اہتمام کیاگیا حالانکہ اِس پہلے بھی مردانہ وزنانہ ٹریننگز کا سلسلہ جاری وساری تھا۔لیکن اب ہر سطح پر مخلوط ٹریننگز کو لازمی قراردے دیاگیا۔ اِس مقصد کیلئے DSD(ڈائریکٹوریٹ آف سٹاٖ ف ڈویلپمنٹ) لاہور کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیاجارہاہے جہاں مکمل طورپر غیرملکی این جی اوز کا راج ہے۔آئے دن یہاں ٹریننگز کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ اِن ٹریننگز کی خاص بات خواتین وحضرات کاباہم اختلاط ہے۔ اگر مخلوط ٹریننگز کے دوران بھی خواتین وحضرات الگ الگ اپنے ہم جنس افراد کے بیٹھناچاہیں تو اُنہیں اِس کی اجازت نہیں دی جاتی اور اُنہیں مختلف ٹیکنیکس کے ذریعے مخلوط کردیاجاتاہے۔یہی طریقہ DSDکے زیرِانتظام منعقد ہونے والی مختلف سکولوں اور کالجوں میں ہونے والی تمام ٹریننگز میں اختیارکیا جاتا ہے۔حتیٰ کہ الیکشن ۲۰۱۳ء کے لئے انتخابی عملہ کی تربیت کے موقع پربھی مخلوط ٹریننگ کااہتمام کیاگیا۔سرکاری محکمہ تعلیم سے وابستہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کون کون سی این جی اوز اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ اِن این جی اوز میں سب سے زیادہ کردار USAID ،UKAIDاور PAK CANADA DEBT SWAP PROGRAM (PCDSP)کا ہے۔اور ان ٹریننگز پر لاکھوں روپے روزانہ خرچ کئے جارہے ہیں۔

۶۔ مردانہ اداروں میں خواتین اساتذہ کاتقرر: پتہ نہیں مسلم لیگ جیسی نظریاتی جماعت کے دعویدارحکمران کیوں ایسے تمام اقدامات کرنے پر مجبور ہیں جن کا اثر براہِ راست اسلامی نظریہ حیات پر پڑتا ہے۔ آج تک اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی جس سے پتہ چلتا ہو کہ کسی مردانہ ادارے میں خواتین اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہو۔ سابقہ حکومت نے یہ ریکارڈ بھی قائم کردیا کہ مردانہ اداروں میں خواتین اساتذہ کاتقررکردیا تاکہ اسلامی اقدار کی تباہی سے متعلق رہی سہی کسر بھی نکل جائے۔ حیرانگی اِس بات پہ ہے کہ مردانہ نشستوں پر تو خواتین اساتذہ کو تعینات کیاجاتاہے حالانکہ زنانہ نشستوں پر مرد حضرات کاتقررہر گز نہیں کیاجاتا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ صرف اِس لئے ہے کہ مرد حضرات کونوکریوں کے چکرسے آزاد کردیاجائے تاکہ ذریعہءِ معاش نہ مِل پانے کی صورت وہ جرائم کی دلدل میں دھنستے جائے اور ملک میں ہر طرف لوٹ ماراوربدامنی کا دَوردَورہ ہو۔

۷۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کاجبری نفاذ: خادمِ اعلیٰ کے سابقہ دور ِاقتدارمیں پورے پنجاب کے تمام ایلمنٹری سکولوں میں ۲۰۰۹ء سے انگریزی ذریعہءِ تعلیم کو لازمی قراردے دیاگیا۔ نہ ہی اِس سلسلے میں کسی پاکستانی ماہرِتعلیم سے رہنمائی لی گئی اور نہ ہی اِس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کو اعتماد میں لیاگیا اور نہ ہی اِس بات کی کوئی پرواہ کی گئی کہ دنیا کا کوئی ایک بھی معروف ماہرِتعلیم کسی غیرملکی زبان کوبطورذریعہ تعلیم اپنانے کا حامی نہیں۔ یہ سب اِس لئے کیا گیا کہ اِس قوم کے نونہالوں کی ذہنی صلاحیتیں کسی بھی صورت میں پنپنے نہ پائیں اور رٹّہ لگاکر پاس ہوجانے پر ہی مطمئن رہیں اور اُن میں عبدالقدیرخاں یاکسی بھی شعبہءِ زندگی میں کوئی عظیم شخصیت پیدا نہ ہونے پائے۔ اب فرعون کی طرح بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کی بدنامی مول لینے کی بجائے ایسا طریقہ دشمن نے اختیار کیا ہے کہ جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔ اکبر اِلٰہ آبادی نے اِس بارے میں سچ فرمایا تھا :
؂ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

پہلے صرف پرائیویٹ سکولوں میں انگریزی کا راج تھا آج یہ پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں کی بھی ملکہ ہے۔ پہلے صرف پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کو اُردو مشکل لگتی تھی اب سرکاری سکولوں میں یہ زبان مشکل لگنے لگی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب مغرب زدہ طبقہ کی طرف سے اسلامیات اور عربی لازمی کی طرح اُردو کو بھی ختم کرنے کامطالبہ کیاجائے گاکیونکہ اُردوکا بچوں کے اوپر بہت زیادہ بوجھ ہے (ویسے اب تک کے تجربہ سے ظاہر ہوتاہے کہ بچوں پر صرف اُنہیں چیزوں کا بوجھ پڑتا ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح اِسلام،نظریہ پاکستان یاتاریخِ اسلام سے ہو) اور اُن کامطالبہ آسانی سے رَد بھی نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ اُن کے ساتھ مغربی ممالک کی مکمل حمایت بھی ہوگی۔

۸۔آرٹس ایجوکیٹرز کا استحصال: پچھلے پانچ سالہ دورِحکومت میں پنجاب بھر میں ہزاروں سائنس ایجوکیٹرز کو محکمہ تعلیم میں تعینات کیاگیا لیکن آرٹس کے لاکھوں طلبہ وطالبات کو نظرانداز کردیاگیا اوراُن کے بہتر مستقبل کے سہانے خواب چکناچورکردیئے گئے ۔والدین نے اپنے اپنی متاعِ حیات بیچ کر جن کے تعلیمی اخراجات کے بوجھ برداشت کئے کہ کل اُن کی اولاد اُن کے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں، اُن کی اُمیدیں بر نہ آسکیں۔وہ جنہوں نے اپنے بوڑھے والدین کاسہارابنناتھا، خود بے سہارابن کردَردَرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہوگئے۔کیابہتر روزگاراُن کا حق نہیں تھا؟کیاآرٹس کی تعلیم اتنی ہی بے وُقعت ہوکررَہ گئی ہے؟ کیادنیامیں صرف سائنسدانوں ہی کی ضرورت ہے؟ کیادیگرشعبہ ہائے زندگی کے لئے افردی قوت کی ضرورت نہیں ہے؟

آرٹس کے مضامین کو نظرانداز کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ چندافراد کی ذاتی رائے کی بجائے ماہرین تعلیم اور قومی نمائندوں کی آراء کا اِحترام کیا جاناچاہئے۔سائنس ایجوکیشن کی آڑ میں اصل منصوبہ اُن مضامین کو ختم کرنا ہے جِن کاتعلق کسی بھی طرح سے اِسلام ،تاریخِ اسلام اور نظریہءِ پاکستان وتاریخِ پاکستان سے ہے۔اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس مملکت خداداد میں پڑھے لکھے افراد کی اکثریت کوبے روزگارکردیاجائے تاکہ وہ مایوسیوں میں گھِر کر ملک وقوم کے لئے سوہان روح بن سکیں۔اوراِس جنت نظیر وطن میں امن وسلامتی قصہءِ پارینہ بن کر رہ جائے۔

اربابِ اختیار کیوں اِس قوم کا سب کچھ داؤ پر لگانے پر تُلے ہوئے ہیں؟ جِس نشیمن پر بسیرا ہو بھلا اُس کی جڑیں بھی کوئی کاٹتا ہے؟ لیکن اِس بدقسمت قوم کے خادم قوم فروشی کی انوکھی تاریخ رقم کررہے ہیں۔اگر یہی حال رہاتو تھوڑے ہی عرصہ میں اِس قوم کی داستاں تک بھی نہ رہے گی اورامریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان۲۰۲۰ء تک اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے گامزن ہے(اﷲ نہ کرے کہ ایساہو،اﷲ اِس مادرِوطن کوتاقیامت اپنے باشندوں سمیت شادوآبادرکھے اور اندرونی وبیرونی دشمنوں سے اِس کی حفاظت فرمائے۔ آمین)

سائنس کی تعلیم کی کوئی ذی شعور شخص مخالفت نہیں کرسکتالیکن کوئی قوم اپنی روایات واقدار،تہذیب وتمدن اورعقائدو نظریات کوبالائے طاق رکھ دینے اور اپنے ماضی کے سرمایہ کی بیخ کنی کرنے کی بنیاد پرایسا کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دے سکتی۔

۹۔لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کاانضمام: مسلم لیگ کے گزشتہ دور کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ مختلف مراحل میں پنجاب بھر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کوآپس میں ضم کرنابھی ہے۔قومی روزنامہ جنگ کی۳۱اگست ۲۰۱۲ء کی خبر کے مطابق حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے گرلزاوربوائزسکولوں کویکجاکرنے کانوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعدمحکمہءِ تعلیم نے اس پرعملدرآمدشروع کردیا ہے۔پالیسی کے مطابق ایک ہی گاؤں یاعلاقے میں۵۰۰میٹر کے اِردگردگورنمنٹ بوائزپرائمری سکول اورگورنمنٹ گرلزپرائمری سکول کویکجاکرکے ایک ہی گورنمنٹ ماڈل پرائمری سکول کا درجہ دے دیاجائے گاتاہم دونوں سکولوں کے سٹاف اوربلڈنگ برقرار رہیں گی۔اِس سلسلے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سینکڑوں سکولوں کو باہم ضم کردیا گیا ہے جبکہ باقی سکولوں کے انضمام کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن ماڈل سکولوں میں ہیڈمسٹریس کے فرائض خاتون ٹیچرز کے سپرد ہی ہونگے خواہ وہ تعلیم اور تجربہ کے اعتبار سے مرد اساتذہ سے کم تر ہی کیوں نہ ہوں۔ اﷲکے بندو کچھ تواﷲ سے ڈرو۔کیا اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیر کرہی ہم ترقی کی منازِل طے کر سکتے ہیں؟ کیااپنے دین اورملی وملکی روایات کو قائم رکھتے ہوئے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ؟ اگرپڑھنے والے چھوٹے بچے ہوتے ہیں توکیا پڑھانے والے بھی بچے ہوتے ہیں؟ خدا کے لئے اِس قوم کے معماروں کے اخلاق پہ توڈاکے نہ ڈالو۔ کیااسلام کی چودہ سوسال سے زیادہ کی تاریخ میں ایسے اقدام کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ مغرب کی اندھادُھندتقلید سے کسی خیر کی ہر گزتوقُّع نہیں کی جاسکتی۔ہمیں کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اپنی تہذیب وتمدن کو بھی مدنظر رکھناچاہیے۔بقول شاعرِمشرق علامہ اقبال:
قیاس اپنی ملت کو اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

۱۰۔ عرَبی زبان(لازمی) کو اختیاری کادرجہ دینا: اﷲتعالیٰ کی پسندیدہ زبان اور نبی کریم ﷺ کی مقدس زبان کو بھی خودکو عاشقِ رسول کہلوانے والوں نے نہ بخشا۔انگریزی زبان کو اگر اِس وجہ سے لازمی قراردیاجاسکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی زبان ہے توعرَبی کو اِس وجہ سے لازمی کیوں نہیں قراردیاجاسکتاکہ یہ اسلامی زبان ہے؟چھپن اسلامی ممالک کی مذہبی زبان عرَبی ہے اور بائیس کے قریب عرَب ممالک میں دنیاکے ایک بڑے حصے پرکروڑوں لوگ روزانہ یہ زبان قومی پیمانے پراستعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید،حدیث شریف،تفسیر،فقہ،تاریخ اورہمارا سارا دینی ورثہ اسی زبان میں ہے۔یہ وحی کی زبان ہے اوراہلِ جنت کی زبان بھی یہی ہے۔نبی اکرم ﷺ نے اِس زبان سے محبت کرنے کا حکم دیاہے۔ نہ صرف اِس زبان کو دینی اعتبار سے تقدُّس کا درجہ حاصل ہے بلکہ معاشی اعتبار سے بھی اِس کی حیثیت مُسلّم ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی کُل تعداد کانصف تقریبًا ۱۱لاکھ صرِف ایک عرَب ملک سعودی عرَب میں روزگار کماکر ملکی معیشت کو سنبھالادے رہے ہیں۔کیاعرَب بلاک کے ساتھ تجارت وصنعت وحرفت کے میدان میں رابطے اہم نہیں ہیں؟

عرَبی زبان کی اہمیّت سے کوئی مسلمان انکارنہیں کرسکتا توہمارے اربابِ اختیار نے کیوں کر اِس مقدّس زبان کے تقدُّس کوپامال کیا اورااُسے لازمی کی بجائے اختیاری زبان کادرجہ دے دیا؟ اوراُس کے مقابلے میں کمپیوٹر کو لازمی کیوں قرار دیا؟حالانکہ کہ کمپیوٹر کو ایک الگ مضمون کے طورپر بھی پڑھایاجاسکتاتھایااُسے کسی اورمضمون ، زراعت یاڈرائنگ کے مقابلے میں بھی رکھاجاسکتاتھا لیکن ایسانہ کیا گیا۔ جب سے خادمِ اعلیٰ صاحب نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی، تب سے پے دَرپے ایسے اقدامات کئے جاتے رہے جن سے معلوم ہوتاہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہماری ملّی وقومی اقداروروایات کونشانہ بنایاجارہاہے۔

۲۰۰۹ء سے پنجاب بھرکے سرکاری ہائی سکولوں میں عرَبی زبان کی تدریس کے بارے میں شکوک پیداکردیئے گئے۔ اکثر سکولوں میں اِس پیاری زبان کی تدریس کو ترک کردیاگیاحالانکہ تمام سکولوں میں عرَبی پڑھانے والے اساتذہ موجود تھے۔ میرے ایک ہیڈماسٹر دوست نے مجھے بتایا کہ ہمارے حکامِ بالا نے ایک میٹنگ میں کہا کہ عرَبی اور کمپیوٹردونوں ہیں تواختیاری ہی لیکن آپ نے پڑھاناکمپیوٹر ہی ہے اورہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ۲۰۱۳ء کے بعدمضمون عرَبی کاپرچہ نہیں لیاجائے گا۔

اسی کشمکش میں تدریس عرَبی متائثرہوتی رہی حتیٰ کہ روزنامہ نوائے وقت کی ۲۹ اگست۲۰۱۱ء کی خبر کے مطابق محکمہءِ تعلیم پنجاب کی طرف سے تما م ڈی سی اوز اور ای ڈی اوزکو عرَبی لازمی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیااور اُس میں کہا گیا کہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک عرَبی کو ۲۰۰۹ء کی تعلیمی پالیسی کے تحت لازمی مضمون کے طور پررکھاگیاہے جبکہ کمپییوٹر سائنس کو بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایاجائے گااور یہ اِضافی ہوگا۔لیکن افسوس کالے انگریزوں نے اِس نوٹیفیکیشن کی کوئی پرواہ نہ کی اور عرَبی لازمی کے لئے کوئی اِقدامات نہ کئے۔ ہماری انتظامیہ ہمیشہ ایسے نوٹیفیکیشنز کا یہی حشر کرتی ہے۔ اور اِس نوٹیفیکیشن کے باوجود آٹھویں جماعت کے امتحان کے داخلہ فارم اور ڈیٹ شیٹ میں اب تک عرَبی اور کمپیوٹر کوآپشنل ہی رکھا گیاہے۔ پتانہیں وہ کون سی قوّت ہے جوعرَبی کے لازمی مضمون کے طورپر پڑھانے کے راستے میں حائل ہے؟حالانکہ سب مسلمانوں کی دلی آرزو ہے کہ اِس مُقدّس زبان کی بھرپورترویج کی جائے تاکہ ہماری دینی اقداروروایات کی بہتر طورپرحفاظت کی جاسکے اور ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت حکومت پاکستان اِس زبان کی ترویج واِشاعت کی پابند بھی ہے۔

۱۱۔ نصاب تعلیم میں سے دینی مواد کا اِخراج: موجودہ تعلیمی سال ۲۰۱۳ء ۲۰۱۴-ء میں صوبہ پنجاب میں جماعت پنجم سے دہم تک معاشرتی عُلوم اور اُردو کے میں نصاب میں سے سیرت النبی ﷺ ، تاریخِ اِسلام وپاکستان سے متعلّق تمام مواد کو خارج کردیا گیااورنصاب کے ذریعے نسل کُشی کی اِس سے بد ترین مثال دنیا میں کسی نے نہ دیکھی ہوگی۔افسوس اِس بات کا ہے کہ ہمارے اپنے ہی اِس قومی خودکشی پرجشن منا رہے ہیں۔

ذرا اِنصاف سے جائزہ لیجئے کہ کِس طرح کمال ڈھٹائی کے ساتھ سیرت النبی ﷺ سے متعلق اسباق کو نکالا گیا۔کیا یہ تمام اقدام کرنے مسلمان نہیں تھے؟ کیا وہ عاشقِ رسول ہونے کے دعویدار نہیں تھے؟کیاتاریخ ِاسلام اور تاریخِ پاکستان سے اُنہیں اِس قدرچڑتھی کہ اُنہوں نے اُن سے متعلّق ایک سبق بھی برداشت نہ کیا؟

ذیل میں نکالے گئے اسباق اور شامل کئے گئے اسباق کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیاجاتا ہے تاکہ قارئین کرام کو اِس مسئلہ کی سنگینی سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔
جماعت پنجم کتاب اُردو
نکالے جانے والے اسباق
شامل کئے جانے والے اسباق
حضرت عُثمان غنیؓ
نظامِ شمسی اورہماری زمین
عفوودرگُزر (سیرت النبی ﷺ)
بطخوں کابٹوارہ
قراردادِپاکستان
کمپیوٹر اورای میل
نکالے گئے مزیداسباق درج ذیل ہیں: محمودغزنوی اوربڑھیا،مزارِقائد اوردُعا(لب پہ آتی ہے دُعابن کے تمنّامیری)۔
جماعت ششم کتاب اُردو
رسولِ پاک ﷺکی شفقت اورسادگی
ریاضی کاعِلم
شہیدِوطن (راشد منہاس)
ملکہ کہسار۔مری
مولاناظفرعلی خان
اشتہارات ضرورت نہیں ہے کے
یومِ آزادی
گُل اور صنوبر کی کہانی
حضرت سلمان فارسیؓ
میری پیاری سائیکل
علّامہ اِقبال۔بچوں کے شاعر
کھیل
غزوہ بَدر
زراعت وصنعت

نکالے گئے مزیداسباق درج ذیل ہیں: سلطان صلاح الدین ایوبی، تحریک ِ پاکستان میں طلبہ کاکِردار۔
جماعت ھفتم کتاب اُردو
صادق اور امین
کسان کی دانائی
مسلمانوں کی بیداری میں اقبال کاکردار
/یہ سارے اِدارے اپنے ہیں


جماعت ھشتم کتاب اُردو
مُعلِّمِ اخلاق
دردِدل کے واسطے پیدا کیا اِنسان کو
خاتونِ کربلا
پاکستان کے چند اہم تہوار
)مسلمانوں کاقبلہ اوّل
خون کابدلہ
موتمر عالم اسلامی
گرلزگائڈ
حضرت بہاؤالدین زکریاؒ
ہاکی
روشن ستارا
دریا کی کہانی
عبداﷲ کی کہانی
پاکستان کے موسم

نکالے گئے مزیداسباق درج ذیل ہیں: سچ بولنے کاانعام،اے وطن پیارے وطن،ترانہ ملّی،بابائے اُردو مولوی عبدالحق۔

جماعت نہم کتاب اُردو
ایک خادمِ خلق کی کہانی
کاہلی
-سائنس اورمذہب کے فاصلے
شاعروں کے لطیفے
مکتوبات عبدالحق
+نصوح اورسلیم کی گفتگو
ربّ العالمین

ƒنچائت
%حضرت اُمِّ عمّارہؓ
لہواورقالین
تعمیرِچمن

متحان
خدادیکھ رہاہے
غزل

نکالے گئے مزیداسباق درج ذیل ہیں: مؤذنِ رسول،اِسلام کی عظمت،بھائی چارہ،تحریکِ پاکستان میں عُلماء کا حصّہ، علّامہ اقبال اورتصوُّرِپاکستان،خاکِ وطن،کشورِحسین شادباد،آزادی کامُتوالا،
مقدّس امانت۔
جماعت دہم کتاب اُردو
حضرت عُمرفاروقؓ عظیم منتظم
علی بخش
نظریہ پاکستان
استنبول
مسدَّسِ حالی
خطوط رشیداحمدصدیقی
فاطمہ بنت عبداﷲ
مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
طلوعِ اسلام
مال گودام روڈ
صدیق (نظم)
غزل

نکالے گئے مزیداسباق درج ذیل ہیں : شانِ تقویٰ،ادائے فرض۔

اسی طرح مختلف جماعتوں میں معاشرتی عُلوم کی کتاب میں سے کئی اسباق کو ختم کردیاگیاجن کی تفصیل درج ذیل ہے:
جماعت پنجم معاشرتی عُلوم :
کشمیریوں کی جنگِ آزادی،جنگِ ستمبر۱۹۶۵ء،جنگِ دسمبر۱۹۷۱ء،مسئلہ کشمیر،اسلام اورپاکستان کے تحفظ کی ضرورت،حضرت محمد ﷺ ، حضرت شاہ ولی اﷲ،محمود غزنوی،محمد بن قاسم۔

جماعت ہفتم معاشرتی عُلوم :
پاکستان اور اورمسلم ممالک،اسلامی معاشرہ،مسلم ممالک کی آب وہوا،اسلامی دنیامیں نوآبادیاتی نظام کاقیام،مسلم ممالک کے وسائل،مسلم دنیا کے لوگ ۔

اِن کے علاوہ پنجاب حکومت نے جماعت پنجم سے جماعت دہم تک کے اُردواورمعاشرتی عُلوم کے نصاب میں اوربھی بہت سی تبدیلیاں کیں جوغیرملکی تعلیمی آقاؤں کی مشاورت تلے نسلِ نَو کو اسلام،تاریخ اسلام ، نظریہِ پاکستان،قومی زبان اورغیرتِ دین وملّت سے تہی دامن کرنے کی مکروہ سازش ہے جس میں ہمارے اپنے بھی پیش پیش ہیں۔
دِل کے پھپھولے جَل اُٹھے سینے کے داغ سے
اِس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اِس کے علاوہ حکومت کی اسلام وپاکستان دشمن پالیسیوں کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ نئے ہائرسیکنڈری سکولوں میں نو مضامین کی پالیسی اپنائی گئی ہے جن میں صرف سائنس مضامین اورانگریزی کو شامل کیاگیاہے۔حیرت اِس بات پہ ہے کہ ان مضامین میں نہ اسلامیات شامل ہے نہ عرَبی اور نہ مطالعہ پاکستان کیونکہ اِن کا تعلُّق اسلام اورپاکستان سے ہے اور اسلام کے نام پر وُجود میں آنے ملک میں اسلام اور اُس سے متعلَّقہ تمام مضامین بے یارومددگارہیں۔اِس بارے میں نبی اکرم ﷺ نے پیش گوئی بھی فرمائی تھی کہ عنقریب یہ دین ایسے ہی بے یارومددگارہوجائے گاجیساکہ شروع میں بے یارومددگارتھا۔حق تو یہ تھا کہ اِس مملکتِ خداداد میں عوامی اُمنگوں کے مطابق اور ملکی وبین الاقوامی حالات اورجدید تقاضوں کے مطابق اپنے نظامِ ونصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کی جاتیں اوراِس بارے میں کسی بھی بیرونی مُداخلت کو خاطر میں نہ لایاجاتا لیکن افسوس کہ سب کچھ اِس کے اُلٹ ہوکررَہ گیا۔ہمارے وطنِ عزیز میں پہلے ہی بہت سی طبقاتی ،گروہی ومسلکی ،صوبائی ولسانی اختلافات و تعصُّبات کی بہتات ہے۔ پہلے صرف پرائیویٹ سکولوں اورکالجوں کے ذریعے انواع واقسام کے نصابِ تعلیم رائج تھے اب اِس خدمت میں خادمِ اعلیٰ صاحب بھی کودپڑے ۔ اُن کی ایک خوبی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ جس کام کو کرنے کا اِرادہ کرلیں ،اُسے پایہءِ تکمیل تک پہنچاکر ہی دَم لیتے ہیں۔کہیں ایسانہ ہو کہ وہ اِس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ٹھان لیں۔ اگرایسا ہواتو یہ ہماری تاریخ کابدترین اَلمیہ ہوگا۔ آخر میں خادمِ اعلیٰ صاحب اور اُن کے محبِّ وطن رُفقاء کی خدمت گزارش ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں ایک بارپھر اقتدار سے نوازا ہے ۔اَب کی باراگروہ اِس ملک وقوم کے مفاد میں تعلیمی پالیسی میں تبدیلی لائیں تویقینًا تاریخ میں اُن کے اِس کارنامے کوسنہری حروف سے رقم کیاجائے گااور اگر اُنہوں نے اِس بارے میں سابقہ پالیسیوں کوجاری رکھا تو، مشرقی پاکستان جیساایک اورسانحہ رونما ہونے میں زیادہ دیرانتظار نہیں کرناپڑ ے گا۔

اِس جنّت نظیر مملکتِ خداداد کے تحفّظ وسلامتی کے لئے تما م محبِّ وطن شہری اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے میدان میں آئیں اوراپنے حلقہءِ احباب میں اِس پیغام کوپھیلائیں اوراپنے حلقہ کے ارکانِ اسمبلی کواِس بارے میں بتلائیں کہ وہ حکومت کواِن سابقہ اقدامات سے بازرکھ کراِس مادرِوطن کی جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی حفاظت کویقینی بنائیں۔اِسی میں ہم سب کی فلاح وبقاکارازپنہاں ہے۔
شکوہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تجاویزو مطالبات
ہم ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کاتحفظ چاہتے ہیں اورقومی مفادات حاصِل کرنے کے لئے تعلیم سے بڑھ کرکوئی ذریعہ نہیں ہے۔ہم شریف برادران ودیگرمُحبِّ وطن اَ ربابِ اِختیارسے گزارش کرتے ہیں کہ یہ ملک اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اورامانت ہے۔اِس کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کاخون شامل ہے۔ اِس مملکت خداداد کومحفوظ ومستحکم رکھناہے تواِس کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی بنیادوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔اِن نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے درج ذیل تجاویزاور مطالبات پیش کئے جاتے ہیں۔اُمیدہے کہ آپ اِن پرہمدردانہ غور وفکرکرتے ہوئے عملی اقدامات کرکے روزِمحشر اﷲتعالیٰ کے ہاں سُرخ روہونگے۔
۱۔جمعہ کی چھُٹی بحال کی جائے اوراسلامی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھائے جائیں۔
۲۔ کنٹریکٹ پالیسی ختم کی جائے تاکہ تما م سرکاری ملازمین تندہی سے ملک وملّت کی خدمات سرانجام دے سکیں۔
۳۔ سرکاری اِداروں میں قومی لباس لازمی قراردیاجائے تاکہ قومی پہچان عام ہو۔
۴۔تمام قومی وسرکاری اداروں میں قومی زبان کولازمی قراردیاجائے تاکہ پورے ملک میں اتحادواتفاق اور باہمی محبت ومروت کی فضاپروان چڑھ سکے اور صوبائی ولسانی تعصُّبات کی بیخ کنی کی جاسکے۔
۵۔ اسلامی اقدارکا لحاظ رکھتے ہوئے DSDٰٰٰٰٰٓٓ لاہور یاکسی بھی سرکاری ادارے میں مردوخواتین عملہ کی علیحدہ ٹریننگز کا انعقاد کیاجائے۔
۶۔ مردانہ اداروں میں خواتین اساتذہ کاتقررنہ کیاجائے اور پہلے سے تعینات خواتین اساتذہ کوخواتین کے لئے مخصوص اداروں میں اُن کی تقرّری کی جائے۔
۷۔ انگریزی ذریعہ تعلیم کاجبری نفاذختم کرکے قومی زبان اُردو کو ہرسطح پر ذریعہ تعلیم قراردیاجائے۔
۸۔آرٹس کے طلبہ وطالبات کا استحصال ختم کرتے ہوئے بڑے پیمانے پراُن کی تقرریاں عمل میں لائی جائیں۔
۹۔لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کاانضمام ختم کیاجائے اوردینی وملّی اقدار کاتحفّظ کیاجائے۔
۱۰۔آئین پاکستان کالحاظ رکھتے ہوئے عرَبی زبان کی تدریس کولازمی قراردیاجائے تاکہ دینی وملّی اقدارکابہتراندازسے تحفُّظ کیاجاسکے۔
۱۱۔ نصاب تعلیم میں سے سیرت النبی ﷺ ، تاریخِ اِسلام ونظریہ پاکستان سے متعلِّق خارج شُدہ موادکو دوبارہ نصاب کا حصہ بنایاجائے اور آئندہ ایسی قانون سازی کی جائے کوئی فردواحد اپنی مرضی یا قومی مفاد کے برعکس کوئی پالیسی نہ نافذکرسکے۔
۱۲۔ ہربڑے سرکاری ادارے کے ساتھ مسجد کاقیام لازمی قراردیاجائے اور اس کے لئے سرکاری فنڈز مہیاکرنے کے لئے قانون سازی کی جائے تا کہ اس کے ذریعے اسلامی شعائر کاتحفظ کیا جاسکے۔

Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 54456 views I am proud to be a Muslim... View More