پاک ٹی ہاؤس

پاک ٹی ہاوس لاہور پاکستان میں واقع ایک قہوہ خانہ تھا جو کہ شہر کے فنون لطیفہ سے شغف رکھنے والی نامور شخصیات کی بیٹھک کے طور پر مشہور تھا ۔یہاں ثقافتی،ادبی اور فنی شخصیات محافل کا انعقاد کرتی تھیں یہاں آنے والی چند چیدہ شخصیات میں فیض احمد فیض ،ابن انشاء۔احمد فراز ،سعادت حسن منٹو،منیر نیازی ،میرا جی،کمال احمد رضوی ،ناصر کاظمی،پروفیسر سید سجاد رضوی،استاد امانت علی خان ،ڈاکٹر محمد باقر ،انتظار حسین اورسید قاسم محمود شامل ہیں۔

یہ مقام نہ صرف مشہور ادبی وفنی شخصیات کی بیٹھک تھی بلکہ یہ قہوہ خانہ لاہور اور ملک بھر کے نوجوانوں کے لئے ان شخصیات سے ملاقات اور سیکھنے کا ذریعہ بھی رہی ہے۔بلاشبہ یہ مقام ایک چوپال کی سی حثیت رکھتا تھا جہاں مختلف ذہنوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے تشریف لاتے تھے۔یہاں کا ماحول دراصل اس مقام کی خوبی تھا مختلف نظریات پر کسی بھی قسم کا فیصلہ نہیں بلکہ اس کو سمجھنے کی غرض سے بحث و مباحثوں کا انعقاد ہی یہاں کا قانون مشہور تھا ۔کئی سالوں تک یہ مقام علمی مباحثوں کا مرکز رہا۔

ادب سے محبت رکھنے والی چند سیاسی اور محترم عطا الحق قاسمی کی خصوصی ادب دوستی کی بدولت پاک ٹی ہاؤ س کو ٹائروں کی حمک سے بچاتے ہوئے دوبارہ چائے کی مہک میں بدل دیا گیا ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔

پچھلے دنوں فیڈرل یونین آف کالمسٹ کی ایک تقریب میں لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔اب کوئی ادب سے محبت کرنے والا لاہور جائے اور اہل لاہور کے ہردل عزیز نوجوان صحافی اور کالم نگار سید بدر سعید ساتھ ہوں تو بندہ پاک ٹی ہاوس کی زیارت سے کیسے محروم رہ سکتا ہے۔تقریب سے فراغت کے بعد رات کے اندھیرے میں پاک ٹی ہاوس پہنچے میرے ذہن میں پاک ٹی ہاوس کی گہما گہمی کا جو تصور تھا وہ دھندلا سا گیا ۔ہم سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر چلے گئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک ٹی ہاوس کی آرائش خالص ادبی ماحول میں کی گئی ہے ۔ہال سنسان پڑا تھا حالانکہ شائد سات یا آٹھ بجے کا وقت ہو گا۔ویٹر نے ایک لسٹ سامنے کر دی میں نے کہا’’بھائی پہلے پانی پلاؤ‘‘۔
’’سر! منرل واٹر ملے گا یہاں کا پانی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

یہ سارے لاہورئیے اپنے گھروں سے یہی پانی پی کر آتے ہیں جو یہاں آ کر گندہ ہو جاتا ہے مجبوری ہے لیکن منرل نہیں کولڈ ڈرنک لے کر آؤ چائے کا سیشن کل کے لئے رکھتے ہیں‘‘۔

لسٹ پر نظر ڈالتے ہوئے یہ بات مسلسل ذہن سوچے جا رہا تھا کہ لسٹ میں لوازمات کے ریٹس تو مناسب ہیں لیکن یہ پانی والا کام اضافی بوجھ ہے۔’’او جناب، کہاں الجھے ہوئے ہیں ‘‘؟ بدر نے مجھے لسٹ کو گھورتے دیکھ کر کہا ۔
’’یار یہ پانی۔۔۔۔۔۔‘‘۔

’’سر! میں آپ کو ایک بات بتاؤں اگر پانی کا مفتا ہوتا تو یہاں کوچوان لکھاریوں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی کہ یہاں شائد لائنوں میں پانی دینا پڑتااور آپ تو کوچوان لکھاری نہیں ہیں ‘‘۔اس نے کوچوان لکھاری پر زور دیتے مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور میں شائد اس کی بات فالو کر چکا تھا۔

فارغ ہونے کے بعد نیچے اترے تو ایک کونے میں اختر شمار اور باقی احمد پوری کسی ’’شماری ‘‘میں مصروف تھے سو ان کو ڈسٹرب کئے بغیر بدر سے کل دوبارہ اسی جگہ ملنے کا وعدہ کرکے باہر نکل آئے۔
دوسرے دن شدت کی گرمی میں پاک ٹی ہاوس پہنچا تو بدر کو اپنا منتظر پایا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر حال میں پہنچے تو منظر رات سے مختلف نہیں تھا البتہ چند مخلوططالب علم صوفوں پر ریزروکے لوگو کے ساتھ صوفوں پر براجمان تھے جو یقیناًتاریخ کے لئے آئے تھے ۔یہاں تاریخ سے مراد اردو ادب کی تاریخ سمجھی جائے ۔’’سر! کولڈ ڈرنک یا چائے ۔۔۔‘‘

’’منرل واٹرکے ساتھ چائے کیونکہ پیاس بھی ہے اور تمہیں تو رات کا پتہ چل چکا ہے کہ لاہور کا پانی خراب ہے‘‘۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا

ویٹر آڈر لے کر جا چکا تھا اور بدر مجھے بور کرنے کے لئے اپنے مستقبل کے پلان میرے سامنے ڈھیر کئے بیٹھا تھاجبکہ میں ان طالب نما مخلوطیت کی تاریخ میں گم تھا جو کہ اشیاء خورد و نوش کا ڈھیر اپنے آگے سجائے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔چائے کی خوشبو مجھے اپنے ٹیبل پر لے آئی سیپرٹ چائے جو میرے لئے کبھی کشش کا باعث نہیں رہی دو کپ قہوے کے ساتھ دودھ اور چینی کی کافی مقدار موجود تھی میں نے ٹی بیگ کو کوفی دیر تک ڈبکیاں دیں تاکہ چائے ذرا سٹرونگ ہو جائے ۔چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں ہال میں دیواروں پر لگی ہوئی تصویروں کی دیکھنا شروع کیا یوں لگا جیسے کوئلے اور چائے کی مخصوص مہک مجھے کہیں اور ہی کھنچے چلی جا رہی ہے محفل ہے یا ٹولیاں ہیں جن میں مختلف زمانوں کے لوگ اپنی اپنی محفل سجائے بیٹھے ہیں۔دہکتے کوئلوں پر ایک بڑی کیتلی میں چائے تیار ہو رہی تھی جس کی مہک پاک ٹی ہاؤس کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی تھی ۔ ایک جانب سے میرا جی کی آواز آ رہی ہے ’’نگری،نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا ۔کیا ہے تیرا کیا ہے میرا،اپنا پرایا بھول گیا‘‘ابن انشاء اپنا کلام سنا رہے ہیں ’’کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا‘‘منیر نیازی اپنے حلقہ احباب سے داد سمیٹ رہے تھے ’’کنج انج وی رواہواں اوکھیاں سن کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی‘‘ فیض احمد فیض کی آواز آ رہی ہے ’’گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے ۔چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘احمد فراز اپنی مخصوص بھاری آواز میں اپنے ہی کلام میں کھوئے ہوئے ہیں ’’غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی ،چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی ۔پلٹ کر آ نہ جائے پھر سانس نبضوں میں ،اتنے حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی ‘‘ناصر کاظمی ہیں جو مجھے بھی اپنے کلام سے اداس کئے دے رہے ہیں ’’دل تو میرا اداس ہے ناصر ،شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے ‘‘اس طرف اگر شعرا کی گرما گرمی ہے تو کئی ٹولیوں میں دوسری اصناف سخن پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے آوازیں ایسی ہیں جیسے ابھی کوئی اٹھ کے گلے پڑ جائے گا ۔یہ شائد کمال احمد رضوی ہیں جو موٹی موٹی آنکھیں نکالے مجھے گھور رہے ہیں ’’اوئے ،تو چائے کیوں نہیں لاتا کتنی دفعہ آڈر دیا ہے تو ہے کہ یہاں مشاعرے ہی سنے جا رہا ہے چل بھاگ کر چائے لا ‘‘ ۔
’’سر ! چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ‘‘۔یہ بدر کی آواز تھی
’’تازہ بنا کر دو اس نے ٹھنڈی چائے نہیں پینی اس کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ وہ گرما گرم چائے پیتا ہے ‘‘ ۔
’’کون۔۔۔؟‘‘ بدر نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا
’’اوہ! میں ماضی کے پاک ٹی ہاوس میں کھو گیا تھا بہت سے مشاعرے سنے قسم سے بڑا مزا آیا وہ تو مجھے ہلنے ہی نہیں دے رہے تھے‘‘
’’جی کھو تو میں بھی گیا تھا لیکن جلدی بھاگ آیا میں نے آپ کو مشاعرے سنتے ہوئے دیکھا تھا‘‘
’’تو تم واپس کیوں جلدی آ گئے ؟‘‘۔
’’وہ کمال احمد رضوی نے مجھ سے چائے ہی اتنی دفعہ منگوائی اوپر سے کپ بھی خود ہی دھونا پڑ رہے تھے ‘‘
’’بھئی ، میں تو مزے سے مشاعرے سنتا رہا ‘‘۔
’’جی،جی میں آپ کا مزہ دیکھ کر ہی واپس لوٹا ہوں ‘‘۔بدر نے چینی اور دودھ کو ملا کر منہ میں ’’پھکا ‘‘ مارتے ہوئے معنی خیز نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا

Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32434 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.