اقتدار کےمتوالے مسٹرمولانہ فضل الرحمان

پاکستان میں اقتدار کے متوالوں کی کوئی کمی اور اُن ہی متوالوں میں سے ایک ہیں مسٹر مولانہ فضل الرحمان۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں مولانہ فضل الرحمان کی جگہ مسٹر مولانہ فضل الرحمان کیوں لکھ رہا تو عرض ہے کہ جب تک مولانہ الیکشن لڑتے ہیں تو وہ مولانہ ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں ، آپکو یاد تو ہوگاحالیہ الیکشن میں مولانہ اپنے سیاسی جلسے ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے نام سے کرتے رہے اوراسلام کے نام پر ووٹ مانگتے رہے لیکن الیکشن کے بعد مولانہ مسٹر بن جاتے ہیں ، پھر مولانہ کو اسلام کی فکر کم اور اسلام آباد کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان انتہائی چالاک اورمعاملہ فہم سیاستدان ہیں، اپنی سیاسی پوزیشن کے بارئے میں بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں، انتخابات سے پہلے انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے مردہ گھوڑئے میں جان ڈالنے کی کوشش کی مگر انکے پرانے اتحادی ان کی چال میں نہ آئے۔ مولانہ کی سیاست کا محور صرف انکے مفادات ہوتے ہیں اس سے مولانہ کو غرض نہیں ہوتی کہ کون مصیبت میں ہے یا کس کا نقصان ہورہا ہے، مولانہ کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کون مرا یا کون جیا، مولانہ کا مقصد صرف اپنی غرض سے ہوتا ہے۔ آپکو یاد ہوگا دس جنوری 2013 کوبلوچستان کے شہر کوئٹہ ميں بم دھماکوں کے نتيجے ميں116افراد ہلاک جبکہ تقريباً 250 افراد زخمی ہوگئے۔شہید ہونے والوں کے ورثا نے دھماکوں میں مرنے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو دفن کرنے سے انکار کردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت کوبرطرف کر کے کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے ۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تیرہ اور چودہ جنوری کو رات گئے مظاہرین سے مذاکرات کے بعد صوبہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کیا جبکہ صوبائی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا۔ اس واقع میں ہلاک ہونے والوں سے تو مولانا فضل الرحمن کو کوئی ہمدردی نہ تھی مگر مولانہ اور انکی جماعت نے بلوچستان حکومت کی برطرفی کےخلاف احتجاجی تحریک شروع کردی تھی ۔ مولانا فضل الرحمن نے بظاہر گورنر راج کو جمہوریت کے خلاف اقدام قرار دیا تھا لیکن دراصل وہ اپنے مفادات کے چھن جانے پر بلبلا رہے تھے۔ مولانہ اور انکی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان حکومت کی برطرفی کے مسئلے پر جوردعمل ظاہر کیا تھا، وہ نہ صرف ظالمانہ تھا بلکہ خودغرضانہ بھی تھا۔

ویسے تو مولانہ نے الیکشن کے دوران لاتعداد جلسوں سے خطاب کیا تھا لہذا انکے ایک خطاب کو میں یہاں بیان کرونگا۔ الیکشن سے صرف12 دن پہلےٹانک کے علاقے مُلازئی میں 29 اپریل 2013 کو مولانا فضل الرحمان نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ" عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے 5 سال میں قوم کو بے روزگاری، مہنگائی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں دیا، ذوالفقار علی بھٹو امریکا مخالف نعرے سے ہی عوامی لیڈر بنے تھے لیکن اب ان ہی کی جماعت امریکا کی سب سے بڑی حامی ہے لیکن ہم نے امریکا کو آقا نہیں مانا۔ مولانہ کا یہ بھی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آئندہ انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرے گی اور حکومت سازی میں ان کا کردار بھی کلیدی ہوگا، جے یو آئی کے بغیر ملک میں آئندہ حکومت نہیں بنے گی اور اگر بن بھی گئی تو ہمارے بغیر چلے گی نہیں"۔

مولانا فضل الرحمان نے سچ کہا مگر آدھا " عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے 5 سال میں قوم کو بے روزگاری، مہنگائی اور خونریزی کے سوا کچھ نہیں دیا" لیکن وہ اور انکی جماعت 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گےاور کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کی، بلوچستان میں انکی جماعت کا ہر ممبر وزیر تھا لہذا جو حاصل نہ ہوا ہو وہ کم۔ 2010 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچا کر کامیابی سے مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔ مگر جب مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی سے گلگت بلتستان کی گورنر شپ کا مطالبہ کیا تو پیپلز پارٹی نے ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، گلگت بلتستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت تھی۔ مولانہ فضل الرحمان کا گلگت بلتستان کی گورنر شپ کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو وہ کچھ عرصے بعد حکومت سے علیدہ ہوگے۔ اس پورئے وقت میں جب قوم کو بے روزگاری، مہنگائی اور خونریزی کا سامنا تھا، پیپلز پارٹی کے اتحادی مولانہ فضل الرحمان اور انکے ساتھیوں کا روز گار اپنے عروج پر تھا۔

مولانہ نے فرمایا تھا کہ " ذوالفقار علی بھٹو امریکا مخالف نعرے سے ہی عوامی لیڈر بنے تھے لیکن اب ان ہی کی جماعت امریکا کی سب سے بڑی حامی ہے لیکن ہم نے امریکا کو آقا نہیں مانا"۔ لیکن الیکشن کے کچھ ہی دن بعد مولانہ امریکی سفیر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور الیکشن کی دھاندلی کارونا روُیا۔ بقول مولانہ کے امریکی سفیر نے ان کی باتوں کو توجہ سے سنا۔ پیپلز پارٹی نے تو امریکہ کو اپنا آقا بہت دیر میں مانا مگر مولانہ تو 1979 سے اپنے آقا کی خدمت کررہے ہیں، اس خطے میں اپنے اس آقا کو لانے میں اُن کا بہت بڑا کردار ہے۔ لہذا اگر وہ امریکی سفیر کے پاس جاکر روئے تو اُن کے نزدیک کوئی غلط بات نہ ہوگی۔

مولانہ کا یہ بھی کا کہنا تھا کہ" ان کی جماعت آئندہ انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کرے گی اور حکومت سازی میں ان کا کردار بھی کلیدی ہوگا، جے یو آئی کے بغیر ملک میں آئندہ حکومت نہیں بنے گی اور اگر بن بھی گئی تو ہمارے بغیر چلے گی نہیں"۔ گیارہ مئی کے الیکشن میں انکی پارٹی کو قومی اسمبلی کی 10، صوبہ خیبر پختونخواہ میں 13 اور صوبہ بلوچستان میں صرف 6 سیٹیں ملیں جبکہ باقی دو بڑئے صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب میں جےیو آئی کوئی سیٹ حاصل نہ کرسکی۔ بس یہ صورتحال دیکھکر مولانہ مسٹر بن گے ، مسٹر فضل الرحمان نےسب سے پہلی کوشش صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی مگر نواز شریف اس گندئے کھیل میں اُن کے ساتھ شامل نہیں ہوئے، لہذا پھراُن کو اسلام آباد کی فکر زیادہ ہوئی۔ ماضی میں مسٹرفضل الرحمن حکومتوں کا حصہ اپنی شرائط پر بنتے تھے تاہم اس مرتبہ صورتحال ذرا مختلف ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پہلے وہ امریکی سفیر سے ملے، بغیر کسی شرط کے قومی اسمبلی میں پہلے اسپیکر اور پھر ڈپٹی اسپیکر کے منصب کے لئے مسلم لیگ نون کے امیدواروں کو ، اور وزیراعظم کے لیئے نواز شریف کو ووٹ دیا ، بلوچستان میں مخلوط حکومت کی حمایت کا اعلان بھی کیا ۔

ایک خبر کے مطابق راتوں رات زرداری کیمپ چھوڑکر نواز شریف کیمپ میں آنے والے مسٹرفضل الرحمن نے ایک تازہ تازہ ملاقات وزیراعظم نواز شریف سے کی اور سرکاری بینچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف نے بھی مسٹرفضل الرحمن کی ایک دو پسندیدہ وزارتوں کو ابھی تک پر نہیں کیا ہے اور کشمیر کی خصوصی کمیٹی کی چیرمین شپ بھی خالی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسٹرفضل الرحمن ابھی بھی پرامید ہیں۔ ہوسکتا ہے کابینہ کی توسیع میں اُن کا کام ہوجائے اور آپ پھر اُن کے بھائی کو وزیر اوراقتدار کے متوالے مسٹر مولانہ فضل الرحمن کو کشمیر کی خصوصی کمیٹی کی چیرمین شپ پر دیکھیں گے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 448288 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More