رمضان کا روزہ…… احکام و فضائل

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاِسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورہ بقرہ:۱۸۵)

’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترالوگوں کے لیے ہدایت اوررہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں،تو تم میں جو کوئی اس مہینہ کو پائے ضرور اس کے روزے رکھے!‘‘

مشکوٰۃ شریف میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ شعبان المعظم کے آخری روز حضور اکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فر ماتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اے لو گو! تم پر وہ برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے (یہ وہ مہینہ ہے)جس کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی رات کا قیام نفل بنایا ہے،جو شخص اس ماہ میں نفل نیکی کرے گا توایسا اجر پائے گا کہ گویا اس نے کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا،اور جو اس ماہ میں ایک فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے دوسرے مہینے میں ستّر فرض ادا کیے۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ غربا ء کی غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھتا ہے۔ جو اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس کو روزہ دار جتنا ثواب ملے گا،بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کمی ہو ……صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے ہر شخص وہ نہیں پاتا( یعنی اتنی استطاعت نہیں رکھتاکہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائے)تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس کو بھی دے گا جو روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرائے ‘اورجو روزہ دار کو پیٹ بھر کھلائے پلائے اسے اﷲ تعا لیٰ میرے حوض سے وہ پانی پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہو گا حتیٰ کہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت ،درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے، جو اس مہینہ میں اپنے ما تحت سے کام میں تخفیف کرے اس شخص کو بخش دیا جائے گا اور آگ سے آزاد کر دیا جائے گا۔
(مشکوٰۃ شریف،ص:۱۷۴)

روزہ شریعت اسلامی میں اسے کہتے ہیں کہ انسان صبح صادق سے غر وب آفتا ب تک بہ نیت عبا دت ‘ اپنے آپ کو قصد اًکھانے پینے اورشہوت سے روکے رکھے ۔ اسلام کے جیسے اوراحکام بتد ریج (وقفہ وقفہ سے ) فرض کیے گئے ‘ اسی طرح روزہ کی فرضیت بھی بتد ر یج عائد کی گئی ۔ نبی کریم ﷺ نے ابتد اء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔ پھر ۲؁ھ میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن کریم میں نازل ہوا اور سال میں ایک مہینے کے روزے رکھنا اسلام کا چوتھا ر کن قرار پایا مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جولوگ روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں لیکن بھوک پیاس کی برداشت ان پر دشوار ہو ‘ مشقت بہت اُٹھانی پڑے مثلاً زیادہ بوڑھے مردیا بوڑھی اور حاملہ عورتیں یا دودھ پلانے والی عورتیں ،وہ ہر روزہ کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کریں۔

اسلامی روزہ کی غرض وغایت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ روزے انسان کے اند ر خدا ترسی کی طاقت مستحکم کردیتے ہیں ۔ تقوٰی کی مثال پر غور کریں کہ گرمی کا موسم ہے ‘ روزہ دار کو سخت پیا س لگی ہے ، مکان میں تنہا ہے کوئی ٹوکنے والا،ہاتھ روکنے والانہیں،صاف ستھر ا ٹھنڈ اپانی اس کے سامنے موجو د ہے مگر وہ پانی نہیں پیتا…… روزہ دار کو سخت بھو ک لگی ہے ‘ بھوک کی وجہ سے جسم میں ضعف بھی محسوس کرتاہے، نفیس خوش ذائقہ مر غن غذا بھی میسر ہے ‘ کو ئی شخص اسے دیکھ بھی نہیں رہا، کسی کو کان وکان خبر نہ ہوگی ، مگر وہ کھانا نہیں کھاتا……پیاری دل پسند بیوی گھر میں موجو د ہے جہاں نہ خویش ہے نہ بیگا نہ لیکن روزے دار اس سے پہلو تہی اختیا ر کرتاہے ‘وجہ یہ ہے کہ خدا کے حکم کی عز ت وعظمت اس کے دل میں اس قدرجاگز یں ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آسکتا…… ظاہر ہے کہ جب ایک ایماند ار آدمی خدا کے حکم کی وجہ سے جائز ‘ حلا ل، پاکیز ہ خواہشوں کو چھوڑدینے کی عادت کرلیتا ہے تویہ بالضر ور خد ا کے حکم کی وجہ سے بعد میں بھی حرام ‘ ناجائز اور گند ی عادتوں اور خواہشوں کو چھوڑدے گا اور ان کے ارتکا ب کی کبھی جرأت نہ کرے گا ۔

یہی وہ اخلا قی بر تری ہے جس کا روزہ دار کے اند رپید اکر نا اور اسے مستحکم کر دینا شریعت کا مقصود ہے ۔ اسی لیے غیبت ، فحش گوئی، بد نگا ہی ‘ بری باتوں اور تمام گناہوں سے روزہ میں بچے رہنے کی سخت تاکید آئی ہے ‘ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:
’’ جوروزہ دار جھوٹ بولنا ، لغو بکنا اور لغو و فضول کاموں کوکرنا نہیں چھوڑتاتو خدا کو کچھ پر واہ نہیں اگر وہ کھانا پینا چھوڑدیتاہے ‘‘۔

ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فر ما یا کہ :
’’ روزہ سپر ہے جب تک اسے پھا ڑانہ گیا ہو’ عرض کی گئی کس چیز سے پھاڑے گا ؟‘ ارشا د فرمایا ’’جھوٹ یاغیبت سے ‘‘۔

الغرض گنا ہ و معصیت کسی قسم اور کسی درجہ کی بھی ہو ، مسلمان کے لیے ہر زمانے اور ہر موسم میں حر ام ہے لیکن رمضان کے ماہ مبارک میں یہی ممانعت اور زیادہ مؤکد واشد ہوجاتی ہے…… بد گوئی، بد نظر ی ‘ بد زبانی حرام ہمیشہ ہی ہیں رمضان میں کہنا چاہیے کہ حرام تر ہو جاتی ہیں اور دن توخیر ا تنی بڑی عبا دت یعنی حکم الہٰی کے احترام میں نفسانی لذتوں سے دوری میں بسر ہوتا ہی ہے روزہ دار کی رات بھی عبا دت میں بسر ہوتی ہے ۔ پورے مہینہ کے رات اور دن کسی لمحہ غفلت نہ کرنا چاہیے ۔

پھر آج طب جدید و قد یم اور سائنس دان سب کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کابہترین علاج اور جسم انسانی کی اصلاح کے لیے ایک بہترین نسخہ ہے ۔ روزہ آہستہ آہستہ بھوک اورپیاس کی آنچ سے تمام اند رونی اور بیر ونی بدن کے فضلات کو جو بد ن میں بے کارپڑے رہتے اور صحت انسانی کوبربادکرتے رہتے ہیں‘ جلاکر نیست و نابود کردیتا ہے پھربد نی صحت وتند رستی روزہ کی بدولت جیسی حاصل ہوتی ہے کسی اور ذریعے سے میسر نہیں آسکتی……تازہ کھجو ر کہ خشک نہ ہوئی اوریہ نہ ہو تو خشک چھوار ے ورنہ پانی سے روزہ افطا ر کرنا مسنون ہے ۔

بعض ضروری مسائل :
٭……نیت دل کے ارادہ کانام ہے ۔ زبان سے کہنا شرط نہیں ، مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے ۔ رات میں نیت کرے تو یوں کہے کہ’’ میں نے نیت کی کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اس رمضان کافرض روزہ کل رکھوں گا/گی‘‘ اور دن میں یعنی دوپہر سے پہلے پہلے نیت کرے تو یوں کہے کہ ’’ میں نے نیت کی کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے آج رمضان کافرض روزہ رکھوں گا/ گی ‘‘۔

٭……رمضان المبا رک کے روزے قضاہوگئے ۔ اب رکھنا چا ہے تو اب عین صبح صادق کے وقت یا رات میں نیت کرنا ضر وری ہے ۔ اگر دن میں نیت کی تویہ روزہ نفلی ہوگا ۔ پھر بھی اس کا پورا کرنا ضر وری ہے۔تو ڑا توقضالا زم آئے گی ۔ ( در مختا ر)
٭……روزہ میں تیل یا سر مہ لگا یا تو روزہ نہ گیا اگر چہ تیل یا سر مہ کامزہ حلق میں محسوس ہوتا ہو ، بلکہ تھوک میں سر مہ کا ر نگ بھی دکھائی دیتا ہو‘ جب بھی نہیں ٹو ٹا ۔ (ردالمحتار)
٭……جنا بت (یعنی ناپاکی ) کی حالت میں صبح کی بلکہ اگر چہ سارے دن ناپاک رہا، روزہ نہ گیا مگر اتنی دیر تک قصداًغسل نہ کرنا کہ نماز قضا ہوجائے، گناہ وحرام ہے ۔ حدیث شریف میں ہے:
’’جنب(ناپاک) جس گھر میں ہوتا ہے ‘اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ‘‘۔( در مختا ر)
٭……بچہ جیسے ہی آٹھویں سال میں قد م رکھے اس کے ولی پر لا زم ہے کہ اسے نماز روزہ کاحکم دے اورجب اسے گیارہواں سال شروع ہوتو ولی پر واجب ہے کہ روزہ نماز پر سختی کرے، مارے تاکہ وہ عا دی ہو ‘ ہاں اگر روزہ سے اسے نقصان پہنچتا ہوتو اوربات ہے ۔
( در مختا ر ‘ فتا وٰی رضو یہ )
٭……عورت کا حیض ونفا س سے پاک ہونا روزہ کے لیے شرط ہے ۔
٭……حیض ونفا س والی عورت پاک ہوگئی توجو کچھ دن باقی رہا ہے ‘ اسے روزے کے مثل گز ار نا واجب ہے او ر اس کی قضا بعد میں فرض ہے ۔ (در مختا ر )
٭……عورت کو شوہرنے مجبو ر کیا پھر اپنی خوشی سے مشغو ل رہی توکفا ر ہ نہیں دونوں پر روزہ کی قضا لازم ہے ۔
٭……یہ گمان تھا کہ صبح نہیں ہوئی اورکھا یا پیا بعد کو معلوم ہو اکہ صبح ہوچکی تھی تو صر ف قضا لا زم ہے یعنی اس روزے کے بدلے ایک روزہ رکھنا پڑے گا ۔
٭……بھو ل کر کھایا پیا یا قے ہوگئی اور یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا ر ہا ‘ اب قصد اً کھا پی لیا تو صرف قضا فرض ہے ۔ (درمختا ر )
٭……یہ گمان کرکے کہ آفتا ب غروب ہوگیا(حالانکہ وقت نہ ہوا تھا) ‘ روزہ افطا ر کرلیا ‘ تو قضا لا زم ہے ‘ کفا ر ہ نہیں۔ ( درمختا ر )
٭……آنسو منہ میں چلا گیا اور نگل لیا اگر قطرہ ‘ دوقطر ہ ہے تو روزہ نہ گیا ‘ اور زیادہ تھا کہ اس کی نمکینی پورے منہ میں محسوس ہوئی تو روزہ جاتارہا ‘ پسینہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……نتھنو ں سے دواچڑ ھائی یا کان میں تیل ڈالا یاتیل چلاگیا ‘ روزہ جاتارہا اور پانی کان میں چلا گیا تو روزہ باقی ہے ۔(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……ڈور ابٹا ‘ اسے تر کرنے کے لیے منہ پر گز ار ا ۔ پھر دوبار سہ با ر یونہی کیا ‘ روزہ نہ جائے گا ۔ مگر جبکہ ڈورے سے کچھ رطوبت جد ا ہو کر منہ میں رہی اور تھو ک نگل لیا تو روزہ جاتا رہا ۔ یونہی منہ میں رنگین ڈور ار کھا جس سے تھوک رنگین ہوگیا ، پھر تھو ک نگل لیا تو روزہ جاتا رہا ۔
(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……کلی کی اور بلا قصد پانی حلق سے اُتر گیا ، ناک میں پانی چڑھا یا اور دماغ کو چڑھ گیا ۔ روزہ جاتا رہا‘ ہاں اگر وہ اس وقت اپنا روزہ دار ہونا بھول گیا ہو تونہ ٹو ٹے گا ، اگر چہ قصد اً ہوا ہو ۔(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……روزہ میں دانت نکلوایا اورخون نکل کر حلق سے نیچے اُتر گیا یا سوتے میں ایسا ہوا تو روزہ جاتا رہا، اس کی قضا لا زم ہے ۔
٭……اگر کی بتی یا اور کوئی خوشبو وغیرہ سلگی ہوئی تھی‘ منہ قریب کرکے دھو ئیں کو ناک سے کھینچا یا خود قصد اً حلق تک دھو اں پہنچا یا خواہ وہ کسی چیز کا دھواں ہوا ور کسی طرح پہنچا یا ہو، روزہ جاتا رہا (درمختا ر )
٭……کان میں سے میل نکا لا اور میل لگی ہوئی سلا ئی دوسری یا تیسری مرتبہ کان میں کی تو روزہ نہ جائے گا کہ کان کرید نے میں سلائی دماغ تک نہیں جاتی ۔
٭……مبا لغہ کے ساتھ استنجا کیا ، یہاں تک کہ پانی اندر پہنچ گیا تو روزہ جاتا رہا (درمختا ر )
٭……پان کھا کر سوگیا اور صبح اُٹھ کر روزہ کی نیت کی تو اگر پان کھالیا تھا ، منہ میں صرف چند دانے چھالیہ کے ، دانتوں میں لگے رہ گئے تو روزہ صحیح ہوجائے گا اور اگر صبح کے بعد بھی منہ میں اُگا ل موجو د تھا کہ اس کے عرق کا لعاب کے ساتھ منہ میں جانے کا گمان ہے تو اب روزہ نہ ہوگا ۔ سحر ی میں زیادہ کھالیا کہ اب دن میں کھٹی ڈکا ریں آرہی ہیں تو اس سے روزہ نہیں جاتا ۔ (فتا وٰی رضویہ )
وہ حالتیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا:
٭……بات کرنے میں تھوک سے ہونٹ تر ہوئے اور اسے پی لیا یامنہ سے رال ٹپکی مگر تا رٹو ٹا نہ تھا کہ اسے چڑھا کر پی لیا یاناک میں رینٹھ آگئی بلکہ ناک سے باہر ہوگئی مگر الگ نہ ہوئی تھی کہ اسے چڑھا کر پی لیا یا کھنکا ر منہ میں آئی اور اسے کھا لیا ، اگر چہ کتنی ہی ہو، روزہ نہ جائے گا لیکن یہ چونکہ نفر ت لانے والی چیز یں ہیں اور ان سے دوسروں کو بھی گھن آتی ہے ، اس لیے ان سے احتیا ط چاہیے ۔(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……بھولے سے کھا نا کھارہا تھا ، یا د آتے ہی فوراً لقمہ پھینک دیا، یا صبح صادق سے پہلے کھا رہا تھا اور صبح ہوتے ہی اُگل دیا تو روزہ نہ گیا اور نگل لیاتو دونوں صورتوں میں جا تا رہا ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی ) اور ان دونوں صورتوں میں اس پر قضا اور کفا رہ واجب ہے ۔
٭……مکھی حلق میں چلی گئی ‘ روزہ نہ گیا اور قصد اًنگلی توجا تا رہا ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……تِل یاتِل کے بر ابر کوئی چیز تھو ک کے ساتھ حلق سے اُتر گئی توروزہ نہ گیا ہاں اگر اس کا مز ہ حلق میں محسوس ہوتو روزہ جاتا رہا ۔
(فتح القد یر )
٭……قصد اً منہ بھرقے(اُلٹی) کی اور روزہ دار ہونا یا دہے تو روزہ جاتا رہا ، خواہ اس میں کچھ منہ ہی سے حلق میں واپس چلی جائے یانہ جائے اور منہ بھر سے کم کی تو روزہ نہ گیا ۔ (درمختا ر )
٭……بلا ا ختیا رمنہ بھر قے ہوگئی تو روزہ نہ گیا اوراگر اس نے لوٹالی اگر چہ اس میں سے صرف چنے برابر حلق سے اُتر ی تو روزہ جاتا رہا اور منہ بھر نہ ہوتو روزہ نہ گیا اگر چہ حلق میں لوٹ گئی یا اس نے خود لوٹائی ۔ (ردالمحتا ر )
٭……قے خو اہ قصداً ہویا بلاا ختیا ر ، اس میں بلغم آیا تو روزہ نہ ٹو ٹا ، اگر چہ منہ بھر ہو ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……روزہ دار کو بلا عذ ر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکر وہ ہے ۔ چکھنے کے لیے عذریہ ہے کہ مثلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے ۔ ہانڈی میں کم وبیش ہوگا تو وہ اس کی نا ر اضگی کاباعث ہوگا تو چکھنے میں حرج نہیں ۔ چبانے کے لیے یہ عذرہے کہ اتنا چھوٹا بچہ کہ روٹی نہیں کھا سکتا اورکوئی نر م غذا نہیں جو اسے کھلا ئی جائے ، نہ کوئی بے روزہ دار مو جود ہے جو چبا کر دے دے تو بچہ کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکر وہ نہیں ۔ (درمختا ر )
٭……کوئی چیز خرید ی اور اس کا چکھنا ضر وری ہے کہ نہ چکھا تو نقصا ن ہوگا تو چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکر وہ ہے (درمختا ر ) چکھنے سے مر اد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ دریافت کر لیں اور اسے فوراً تھوک دیں اس میں سے کچھ حلق میں نہ جانے پائے ۔
٭……سحر ی کھانا اور اس میں تاخیر کرنا مستحب اور باعث ثواب ہے مگر اتنی دیر کہ صبح ہو نے کاشک ہو جائے ، مکر وہ ہے ۔(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……افطا ر میں جلد ی کرنا مستحب ہے مگر افطا ر اس وقت کرے کہ غروب کا غالب گمان ہوجب تک گمان غالب نہ ہو، افطا رنہ کرے ، اگرچہ مؤذن نے اذان کہہ دی ہو یاکسی اور طریقہ پر افطا ر کا اعلان کر دیا جائے ۔(ردالمحتا ر )
روزہ نہ رکھنے کے عذرواحکام :
شریعت مطہر ہ نے بعض صورتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجا زت دی ہے اگر ان صورتوں میں روزہ نہ رکھا تو کوئی گنا ہ کی بات نہیں مثلاً :
٭……حمل والی اور دودھ پلانے والی کو اگر اپنی جان یابچہ کی جان کا صحیح اند یشہ ہے تو اجازت ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھے ، خواہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں ہو یا دائی ۔ (درمختا ر )
٭……بیمار کو بیما ری بڑھ جانے یا د یر میں اچھا ہونے یا تند رست کو بیما ر ہوجانے کایا خادمہ کو ناقابل بر داشت کمز ور ی کا غالب گما ن ہوتو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں‘ بعد میں رکھ لیں ۔ ( درمختا ر )
جوصو رتیں اوپر مذکورہوئیں ، ان میں غالب گمان کا اعتبار ہے ۔ محض وہم و خیال کافی نہیں اورغالب گمان کی تین صورتیں ہیں :
۱……اس کی ظاہر ی نشانی پائی جاتی ہے ۔
۲……اس کا ذاتی تجر بہ ہے ۔
۳……یا کسی مسلمان ما ہر طبیب نے جس کی رائے عوام وخواص میں وزنی سمجھی جاتی ہے ، اس کی خبر دی اور تصدیق کی ہو۔
اور اگر نہ کوئی علامت ہو‘ نہ تجر بہ ، نہ اس قسم کے طبیب نے اسے بتا یا بلکہ کسی نا قابل اعتماد خواہ ڈاکٹر کے کہنے سے روزہ چھوڑدیا تو خواہ مخواہ کاگنا ہ کمایا اور روزہ رکھ کر ان کی باتوں میں آکر تو ڑدیا تو کفا رہ بھی لا زم آئے گا ۔ آج کل اکثر ڈاکٹر وں کا عالم یہ ہے کہ ذراسی بات پرروزہ سے منع کر دیتے ہیں ، حالانکہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ روزہ کس بیماری میں نقصان دیتا ہے اور کہاں مفید ہوتاہے۔ایسوں کی باتیں ہرگزقابل اعتبار نہیں‘انکے کہے میں نہ آئیں‘کسی قابل اعتمادڈاکٹر یا عالم سے دریافت کریں ۔
٭……عورت کوجب حیض آگیا توروزہ جاتا رہا‘ایام کے روزوں کی بعد میں قضا کرے۔
٭……عورت حیض سے فارغ ہوئی تو بہر حال کل کا ر وزہ رکھے اگر چہ غسل نہ کیا ہو۔(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……مجبوری سے روزہ چھوڑنے والا چھپ کر کھائے اور ظاہر ا ً روزہ دار کی طرح ہی رہے۔
٭…… بھوک اور پیاس ایسی ہوکہ ہلاکت کا خوف صحیح، یا نقصان عقل کا اند یشہ ہوتو روزہ نہ رکھے ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی )
٭…… روزہ تو ڑنے پر مجبو ر کیا گیا تو اسے اختیا ر ہے اور صبر کیا تو اسے اجر ملے گا ۔

جنہوں نے عذر کے سبب روزہ توڑا ، ان پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اورحکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا ر کھ لیں ۔ حدیث شریف میں ہے:
’’ جس پر رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے(یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا) تواس کے روزے قبول نہ ہوں گے‘‘۔

قضا روزے نہ رکھے تھے کہ دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اِس رمضان کے روزے رکھے، قضا روزے پھر بعد میں رکھے ۔ (درمختا ر )

روزہ کا فدیہ:
٭…… ایسا بوڑھا آدمی جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روزبر وز کمز ورہی ہوتا جائے گا جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہویعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ ،نہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزے کے بدلے میں صد قۂ فطر(سوا دو سیر گیہوں یا اس کی رقم خرید) کی مقد ار کسی مسکین کو دے دے ۔ ( درمختا ر ) بلکہ یہی بہتر ہے کہ بعض اوقات کھانا کھلا نا دشوار ہوجاتاہے ۔

٭…… فد یہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزے رکھ سکتا ہے تو وہ فد یہ جو پہلے دے چکا ‘ صدقہ نفل ہوگیا لہٰذااب روزوں کی قضا ر کھے ۔
(فتاویٰ عالمگیر ی )
٭……اگر ایسا بوڑھا آدمی ، مر د خواہ عورت ، گر میوں میں بوجہ گر می کے روزے نہیں رکھ سکتا ، مگر سردیوں میں رکھ سکے گا تو اب روزے چھوڑدے اور ان کے بد لے کے روزے سردیوں میں رکھنا اس پر فرض ہے ۔ ( ردالمحتا ر )
٭……روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے‘ کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں ، اکثر اوقات شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہر گزنہ ہوسکے گا اور کریں گے تو مر جائیں گے ‘بیمارپڑجائیں گے پھر جب خدا پر بھر وسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ادا کرادیتا ہے‘ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا ۔ ۷۵؍برس کی عمر میں نہ رکھ سکیں تو شیطان کے وسوسو ں سے بچ کر خوب صحیح طور پر جانچ کرلینی چاہیے کہ شریعت میں یہاں نہ کم ہمتی کا کوئی اعتبار ہے ، نہ شیطانی وسوسوں کا کہیں کوئی لحاظ……ایک اوربات یہ ہے کو ان بوڑھوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ لگا تا ر مہینے بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے ، مگر ایک دودن بیچ کے ناغہ کرکے رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکیں اتنے رکھنا ان پر فرض ہے جتنے قضا ہوجائیں ، بعد میں رکھ لیں (فتا وٰی رضو یہ )
روزہ توڑنے کا کفا رہ:
٭……روزہ توڑنے کا کفا ر ہ یہ ہے کہ آدمی لگا تا ر ساٹھ روزے رکھے‘ اگریہ نہ کرسکے کہ بیمارہے اور اچھے ہونے کی کوئی امید نہیں یا بہت بوڑھا ہے تو ساٹھ مساکین کوپیٹ بھرکر دونوں وقت کھانا کھلائے اور یہ اختیا ر ہے کہ ایک دم سے ساٹھ مسکینوں کو کھلادے یا متفرق طورپر اور اگر ایک وقت ساٹھ کو کھلا یا ‘ دوسرے وقت ان کے سوا دوسرے ساٹھ کو کھلا یا تو کفا ر ہ ادا نہ ہوگابلکہ ضر وری ہے کہ پہلو ں یا پچھلوں کو پھر ایک وقت کھلائے ۔(درمختار ‘ ردالمحتا ر )
٭……یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر مسکین کو بقد ر صد قہ فطر یعنی تقریبا ًسو ادوسیر گیہوں یا ان کی قیمت کا مالک کر دیا جائے او ریہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح کوکھلا دے اور شام کے لیے قیمت دے دے یا شام کو کھلادے یا دودن تیس تیس کو دے دے ، غر ض یہ کہ ساٹھ کی تعد اد جس طرح چاہے پوری کردے ، اس کا اختیا ر ہے ۔ (درمختا ر ، ردالمحتا ر )
Dr Iqbal Akhtar Al Qadri
About the Author: Dr Iqbal Akhtar Al Qadri Read More Articles by Dr Iqbal Akhtar Al Qadri: 30 Articles with 42765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.