شوق سے لیجیے امتحان

بڑے بھائی وزیر اعظم پاکستان اور چھوٹے بھائی وزیر اعلی پنجاب بن گئے انکی اس خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے انکے ووٹر ،سپورٹر اور ورکر سڑکوں پر نکل آئے کچھ عہدے دار مٹھائی لیکر پہنچ گئے اس طرح یہ خوشی مزید میٹھی ہوگئی ان خوشی منانے والوں میں سے اکثر یت ایسے افراد کی تھی جو معمولی کاروباری تھے اور سخت گرمی میں کوئی لسی کی رہڑہی لگا رہا ہے تو کوئی نان چھولے فروخت کررہا ہے یہ سب روزانہ ایک سو روپے سے لیکر تین سو روپے تک کمانے والے افراد ہیں جن کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے شائد اپنی پوری زندگی میں بھی ان سے نہیں مل سکیں گے ان محنت مشقت کرنے والوں کے ووٹوں سے جیتنے والے آج مختلف عہدوں پر براجمان ہوچکے ہیں کوئی وزیر اعظم ہے تو کوئی سپیکر بن چکا ہے اور باقی بچنے والوں میں سے کوئی وزیر ہے تو کوئی وزیر اعلی بن چکا ہے جن کو تمام سرکاری ہسپتالوں میں علاج اورلاکھوں روپے کی ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں جن کے ایک اشارے پر پورا پورا محکمہ ایدھر سے اودھر ہو جاتا ہے جن کو ریلوے اسٹیشن ،ائرپورٹ سمیت تمام پبلک مقامات پر وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے جن کے سفر کے دوران پوری سڑک پر ٹریفک روک کر خالی کروالی جاتی ہے جن کی گاڑیوں میں سرکاری پیٹرول ڈلنا شروع ہو جاتا ہے اور انکے گھروں کے باتھ روم سے لیکر اسمبلی ہال تک ائرکنڈیشن نصب کردیے جاتے ہیں تاکہ ان عوام نمائندوں کو کہیں گرمی نہ لگ جائے اور جن کی مراعات دن بدن بڑھتی جاتی ہیں اور سب سے بڑھکر یہ کہ جس کو یہ حکمران نوازنا چاہیں ان کے ایک اشارے پر ملکی خزانہ ان کے قدموں میں نچھاور کردیا جاتا ہے اپنے چاہنے والوں اور قریبی دوستوں کو مشیر اور ایڈوائزر بنا کر نواز دیا جاتا ہے اور خود یہ ہمارے حکمران ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ جیسے پاکستان انکے باپ داد کی جاگیر ہو ہماری 66سالہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ملک پرجتنے حکمران آئے سب پاکستان اور غریب عوام کا مقدر بدلنے کے لیے ہی آئے مگر بدقسمتی سے سب نے اپنے ہی مقدر سنوارے کسی نے عوام کا نہیں سوچا کہ بے چاری عوام جس کے ووٹ سے یہ عوامی نمائندے کہلاتے ہیں اور اسمبلیوں میں جاتے ہیں کیا وہ دوبارہ عوام میں جانے کی زحمت بھی گوارہ کرتے ہیں لسی اور نان چھولے کی رہڑی لگانے ولا ان کو ووٹ دیکر آج بھی سرکاری ہسپتالوں میں جب سخت گرمی کے دنوں میں ایک روپے کی پرچی ایک گھنٹہ لائن میں لگنے کے بعد بنوا کر جب ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں پر موجود مسیحا دو منٹ میں اسی سرکاری پرچی پر دوائی لکھ کر اسکے ہاتھ میں تھما دیتا ہے تو وہ غریب ووٹر حیرانگی سے کبھی دوائی والی پرچی کو دیکھتا ہے تو کبھی مریضوں کے رش میں پھنسے ہوئے ڈاکٹر کی طرف اور بلا آخر وہ غریب ووٹر مہنگی ادویات کے چکر میں پڑنے کی بجائے کسی نہ کسی عامل کے پاس چلا جاتا ہے جہاں پر اسے بیس روپے کے عوض تین چار تعویز صبح شام پینے کو مل جاتے ہیں اور شفا من جانب ﷲ ۔

اسی طرح وہی غریب ووٹر جس کے ووٹ سے ایک عام آدمی بھی الیکشن جیت کر وی آئی پی بن جاتا ہے جب اپنی بیٹی کی شادی کے لیے یابوڑھے والدین اور اپنی بیوی بچوں کے آپریشن کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تووہ ایک امید پر مالی امداد کی درخوست دے دیتا ہے اس کے بعد پھرجو اسکے ساتھ ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے اگر اس کو لکھ دیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ آئندہ کوئی غیرت مند مالی امداد کے اس شعبہ کی طرف تھوکنا بھی پسند نہ کرے جبکہ جس مقصد کے لیے غریب ووٹر نے مالی امداد کی درخواست دے رکھی ہوتی ہے وہ کام ہی اپنے انجام تک پہنچ جاتا ہے اور اسکو پھر امداد کی ضرورت ہی نہیں رہتی جبکہ انہی غرباء کے ووٹ لیکر ایوان اقتدار کی دہلیز پار کرنے والے پھر واپس پلٹ کر ان کی طرف نہیں دیکھتے اور خود انکے سر میں بھی درد ہو تو بیرون ملک بھاگتے ہیں کیونکہ انکو پتا ہے کہ انکے علاج کے پیسے انکے باپ نے نہیں دینے بلکہ اسی ووٹر کے جیب سے جارہے ہیں جن کے ووٹ سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں یہ صورتحال صرف اس حکومت کی نہیں ہے بلکہ سبھی حکومتوں نے عوام کے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیلا ہے دیکھتے ہیں کہ اس کھیل کا انجام اور اختتام کب اور کہاں پہنچ کر ہوتا ہے عوام تو آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر ہے کبھی آپ بھی عوام کی خدمت کرکے دیکھیے اور شوق سے لیجیے امتحان مگر خود بھی تیاری رکھیے جناب ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 798 Articles with 522286 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.