نواز شریف کے سر پرپھولوں کا نہیں کانٹوں کا تاج؟

مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے 5جون کو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم کا حلف اُٹھالیا ہے اور یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ صدرِ پاکستان آصف علی ذرداری نے ایوان صدر میں منعقدہ ایک پرر وقار تقریب میں نئے وزیر اعظم کو انگریزی زبان میں حلف دلایا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں 244ووٹ حاصل کرکے نواز شریف قائد ایوان مقرر ہوئے۔ 11مئی کو ہوئے پاکستانی انتخابات میں نواز شریف کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ ایوان قائد مقرر ہونے کے بعد اپنی سنجیدہ تقریر میں نواز شریف نے ملک کی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہے۔ دھشت گردی اور مالی خسارے نے ملک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ امن وامان درہم بر ہم ہوچکا ہے، ملک توانائی کے بحران سے بھی گزررہا ہے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے اپوزیشن سے ایک مشترکہ لاعمل اختیار کرنے کی مدد مانگی۔ قومی اسمبلی میں مختلف سیاسی رہنماﺅں نے اپنی تقاریر میں ملک کی بدحالی دور کرنے لئے نواز شریف کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔

حلف برداری کی تقریب کے بعد نواز شریف پرائم منسٹر ہاؤس چلے گئے جہاں پاک فوج کے چاک و چوبند دستوں نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ یہ وہی پرائم منسٹر ہاﺅس ہے جہاں آج سے ساڑھے تیرہ سال قبل جنرل پرویز مشرف نے ان کو اور اُن کے اہل خانہ کو بے دخل کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ اس کے بعد اسیری اور جلا وطنی کے دن کا ٹنے کے بعد ساڑھے تیرہ سال بعد نواز شریف اسی پرائم منسٹر ہاﺅس میں گارڈ آف آنر لے رہے تھے۔ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور وہ تیسری دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ وزیر اعظم ہائس میں انہوں نے پہلی ملاقات آرمی چیف جنرل پرویز کیانی سے کی اور ملک کی موجودہ صورت حال پر جنرل سے تبادلہ خیال کیا۔ اس سے پہلے ان کا تعارف پرائم منسٹر ہاﺅس کے عملے سے کرایا گیا اور یوں انہوں نے باقاعدہ وزیر اعظم پاکستان کام کرنا شروع کردیا۔ پورے پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے خوشیاں منائیں۔ مٹھایاں تقسیم کی گئیں اور شکرانے کی نمازیں بھی پڑھی گئیں۔ لاہور شہر پر پی۔آئی۔اے کے ایک طیارے نے فضا سے پھولوں کی بارش کردی ۔ گویا پورا پاکستان یہ امید لگائے رکھا ہے کہ نواز شریف ملک کو بدترین صورتِ حال سے باہر نکالنے میںضرور کامیاب ہوں گے ۔ کیا نوا ز شریف عوام کی امیدوں پر پورا اُتریں گے اسکا فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن فوری طور پر نواز شریف کے سامنے اس وقت کئی اہم چیلنجز ہیں جو پاکستان کے لئے بے حد خطرناک ہیں اور اس کی تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اسی لئے کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کے سر پر پھولوں کا نہیں کانٹوں کا تاج اور چوں کہ پاکستان چاروں طرف سے مصائب میں گھرا ہوا ہے اس لئے نوازشریف کو ایک کڑے امتحان سے گزرنا ہوگا۔

پاکستان میں اس وقت دھشت گردی عروج پر ہے اسکے تین صوبے یعنی سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خان اس کی زد میں اس وقت زبردست طریقے سے ہیں۔ ان صوبوں کا امن و امان گذشتہ کئی برسوں سے درہم برہم ہے ڈکیٹی، قتل و غات گری ، اغوا جیسی وارداتیں ان صوبوں میں عام سی بات بن کر رہ گئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دھشت گردی کو روکنے میں بالکل ناکامیاب ہوچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2001ءسے لیکر اب تک تقریباً 50ہزار بے گناہ افراد دھشت گردی کا شکار ہوکر اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی اس وقت بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے جہاں آئے دن قتل کی وارداتیں ایک معمول سا بن گئی ہیں۔ اس شہر کا امن و امان درہم برہم ہے۔ بم دھماکے چوری کی وارداتیں ، ڈکیٹی اور اغوا کاری سے کراچی کے عوام کی نیدیں حرام ہوچکی ہیں اسی طرح کی صورت حال سے بلوچستان اور خیبر پختو ن خان بھی گذر رہا ہے۔ ان تینوں صوبوںمیں اپنی اپنی حکومتیں ہیں۔ خیبر پختون خان میں پاکستان تحریک انصاف اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ دونوں حکومتیں نواز شریف کی حریف ہیں۔ خیبر پختون خان میںڈرون حملوں نے بہت سارے معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ یہ حملے ملک کی سالمیت کی خلاف ورزی بھی ہیں اسی لئے پاکستان تحریک انصاف پارٹی ان حملوں کو بند کرانے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے۔ بلوچستان میں اکثریت ہونے کے باوجود (ن) لیگ نے وہاں کے مقامی لیڈرکو وزیر اعلیٰ نامزد کرکے ایک اچھا پیغام تو دیا ہے اس کے باوجود وہاں چند قوتیں ایسی ہیں جو مثلہ ¿ بلوچستان کا پُر امن حل نہیں چاہتی ہیں۔ اب نواز شریف تیتوں صوبوں کی حکومتوں کے ساتھ حالات ٹھیک کرنے کے لئے کون سا لاعمل تیار کرتے ہیں اسکا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران میاں نواز شریف نے تیتوں حکومتوں کو ہر قسم کا تعاون دینے کا وعدہ بھی کیا ہے اور ان سے تعاون بھی مانگا ہے۔ اگر قومی اور صوبائی حکومتوں میں کوئی اختلافات پیدا نہیں ہوتے ہیں تو کسی حد تک بات بنتی دکھائی دیتی ہے ورنہ حالت کشیدہ رہنے کا ہی خطرہ ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر خیبر پختون خان میں ڈرون حملے بند نہیں ہوتے ہیں تو تحریک انصاف اس کے خلاف یقینا احتجاج کرے گی کیوں کہ انتخابی منشور میں انہوں نے یہ حملے بند کروانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس لئے نواز شریف کے سامنے یہ ایک بہت بڑا Challengeہے جس کے لئے انہیں ہر حال میں اقدامات اُٹھانے ہوں گے کیوں کہ ان حملوں سے ملک کی سالمیت کا مسّلہ بھی جڑا ہے۔ ادھر نواز شریف کو تحریکِ طالبان اور دھشت گردی سے نمٹنے کے لئے بھی ایک مشترکہ لائے عمل اپنانے کی ضرورت ہے اور یہ حکمت عملی صوبائی اور مرکزی حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت شدید ترین مالی بحران سے دوچار ہے۔ خربوں ڈالرز کے قرض کی وجہ سے یہ ملک مقروض ہوچکا ہے جسکی وجہ سے پورا پاکستان معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ کرپشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس بات کا اعتراف نواز شریف نے ایوان میں اپنی تقریر میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے کرپٹ آفیسرز کو ہٹانے کی بات تو کہی لیکن اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ملک کو مالی بحران سے کس طرح سے آزاز کرایا جائے۔ اس وقت پاکستان کو مالی بحران سے اسی صورت میں باہر نکالا جاسکتا ہے کہ کوئی مالدار عرب ملک ایک بہت بڑی رقم لے کر مدد کے لئے آگے آجائے جسکی طرف نواز شریف نے اگرچہ کہ کوئی اشارہ نہیں دیا لیکن اگر وہ کسی عرب ملک سے مالی مدد حاصل کرنے کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان کی مالی حالت بہتر ہوسکتی ہے ورنہ خدا ہی حافظ ہے۔

توانائی کے اعتبار سے پاکستان اس وقت صفر پر ہے اندازہ لگائے جس ملک میں اٹھارہ گھنٹے لوڈ شڈ نگ ہوگی اُس کی کیا حالت ہوگی۔ کارخانے بند پڑے ہیں۔ عوام گرمی سے پریشان ہیں۔ انتخابات میں ہر پارٹی نے لوڈ شڈنگ ختم کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن یہ مسّلہ ایک دن میں حل ہونے والا نہیں ہے اور پھر نواز شریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیںجو پورے پاکستان کے لئے راتوں رات بجلی پیدا کرلے اس لئے یہ مسّلہ بھی نواز شریف کے لئے درد سرہی بنے گا۔

ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی بے روزگاری کا مسّلہ سنگین ہے ایک اندازے کے مطابق ہرسال میں پورے پاکستان میں 20لاکھ کے قریب نوجوان بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ اتنی تعداد میں بے روزگار نوجوانوں کو روز گار فراہم کرانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس پر طرہ یہ کہ مہنگائی نے بھی پاکستانی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اشیاءکی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں جسکی وجہ سے پاکستان کا غریب طبقہ بے حد پریشان ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کو بہتر بنانے کے لئے نواز شریف کو سخت محنت کرنی پڑے گی حالانکہ انہوں نے دوسرے ممالک میں رہنے والے مالدار پاکستانیوں سے اس سلسلے میں مدد مانگی ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ملک پہلے ہی اتنے مصائب میں مبتلا ہو وہاں کا روبار یا کوئی بڑی صنعت لگانے کا رسک کون لے گا۔

وزیر اعظم پاکستان پاک۔ہند دوستی کے متمنی بھی ہیں دونوں ممالک کے درمیان1999ء میں دوستی کا عمل جو انہوں نے شروع کیا تھا اسے انہوں نے بحال کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے وہ مثلہ کشمیر کا پر امن احل بھی چاہتے ہیں مگر گذشتہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف مسّلوں پر تلخیاں زیادہ بڑھ گئیں ہیں۔ ان حالات میں نواز شریف دوستی کا کون سا لاعمل اختیار کریں گے اس کا دونوں ممالک کے عوام کو بے صبری سے انتظار ہے اور پھر کیا پاکستان جو خود ہمالیائی مسائل سے دوچار ہے کیا ان حالات میں نوازشریف دوستی کے لئے وقت نکال بھی پائیں گے یا نہیں کیوں کہ پاکستان میں اس وقت اندرونی خلفشار اتنا زیادہ ہے کہ وزیر اعظم کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ملک جب بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہوا تو اس کا فائدہ ہمیشہ پاکستانی عامروں نے لیا۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً جمہوری حکمرانوں کی حکومتوں کو پلٹ کر اقتدار کی کرسی اپنے ہاتھ میں لی اور پھر ان عامروں نے وہ کارنامے انجام دئے جس کا خمیازہ آج پاکستان بھُگت رہا ہے ۔ خدا کرے اب پاکستان میں جمہوری حکومت کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ نواز شریف کو ماضی کا تجربہ ہے اس لئے انہیں اس سلسلے میں اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنے ہوں گے تاکہ جمہوری ادارے مستحکم ہو کر پاکستان کے امن و امان اور خوشحالی کا سبب بن سکیں اور نواز شریف کا کانٹوں بھرا تاج پھولوں میں تبدیل ہوسکے۔
Professor Shohab Inayat Malik
About the Author: Professor Shohab Inayat Malik Read More Articles by Professor Shohab Inayat Malik: 7 Articles with 3783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.