پی پی پی کا صفایا کیوں؟

پاکستانی قوم اپنی سیاسی زندگی کے تلخ ترین مگر خوشگوار دور سے گزر رہی ہے۔ تلخ و ترش اس لئے کہ انرجی بریک ڈاون لاقانونیت تخریب کاری مہنگائی اور غربت و بےروزگاری کے کارن عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے خوشگوار اس خاطر کہ ریاستی تاریخ میں ایک سول حکومت 5سالہ مدت پوری کرنے کے بعد عوامی مینڈیٹ کے بل پر الیکٹ ہونے والی ن لیگ کو ائینی طور پر شاہی اختیارات منتقل کررہی ہے۔ ن لیگ کے سربراہ نواز شریف اس کالم کی اشاعت تک وزیراعظم ہاوس کے پردھان منتری بن چکے ہونگے۔ پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کے مردہ ڈھانچے میں سانسیں بھر کر پارلیمان میں ن لیگ کو ووٹ دیا یوں پی پی پی نے یوسف رضاگیلانی کو متفقہ وزیراعظم منتخب کروانے پر نواز لیگ کا ساتھ دیکر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ نواز شریف کو متفقہ وزیراعظم بنانے کی خواہش کا پہلا اظہار صدر مملکت زرداری نے الیکشن کے بعد پہلے انٹرویو میں کیا۔ صدر نے کہا وہ انتقال اقتدار پر خوش و خرم ہیں۔ پی پی پی کو حالیہ الیکشن میں ہیوی مینڈیٹ قسم کی شکست ہوئی ہے۔پی پی پی کا وسطی اور جنوبی پنجاب میں صفایا ہوگیا۔ سندھ میں پی پی پی نے اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھا۔سندھ میں جیالے اگلے پانچ سالوں تک وزیراعلی ہاوس کے مالک بن گئے ہیں۔ پی پی پی کی شکست میں جہاں حاکموں کی غلط پالیسیوں بجلی بحران معاشی ناکامیوں اور کرپشن کے سیکنڈلز کا رول ہے تو وہاں خفیہ ہاتھوں کے فن و کمالات ریٹرنگ افسران کی نظر عنایات کے قصوں میڈیاوار اور الیکشن کمپین میں عدم موجودگی نے بھی خوب کمال دکھایا۔ پنجاب میں پی پی کو کل ووٹوں میں سے11٪ ن لیگ کو47٪ پی ٹی ائی کو18٪ ننھی منی جماعتوں و گروپوں کو8٪ اور ازاد امیدواروں کو 15٪ ملا۔ پی پی کی کارکردگی لمحہ فکریہ ہے۔موجودہ الیکشن میں مجموعی طور پر 9 کروڑ ووٹرز میں سے ایک کروڑ42 ہزار ووٹرز کا زور دار چھکا نواز شریف نے لگایا۔ عمران خان70 لاکھ پر کلین بولڈ ہوکر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی پی پی نے اپنی زندگی کی پچاس بہاروں میں پہلی مرتبہ68 لاکھ ووٹرز کی خزاں دیکھی۔قائد عوام نے پی پی پی کی بنیاد رکھی تو پہلے الیکشن 1970 میں پی پی کو پنجاب میں41٪ ووٹ حاصل کئے۔پی پی پی کی قیادت نے1988 سے لیکر1993 تک پنجاب کے شہری علاقوں میں تنظیم سازی کی جانب توجہ نہ دی۔بی بی دونوں مرتبہ پنجاب کے دیہی حلقوں سے کامیاب ہوئیں۔ دوسری جانب اینٹی پیپلز ووٹ کو ایجنسیوں اور طبقہ اشراف نے دولت کی ژالہ باری سے شہری علاقوں میں ن کے شجر سایہ دار تلے جمع کردیا۔2008 کے الیکشن میں بی بی کی شہادت اور ہمدردی کے تناظر میں ppp نے انتخابی میلہ تو سر کرلیا تھا مگر پنجاب کے شہری علاقوں میں پی پی پی ہار گئی۔ شہادت کے بعد پارٹی کو پنجاب میں27٪ ووٹرز کی عقیدت و ووٹ ملے۔ موجودہ الیکشن میں پی پی کے زائچہ نگاروں نے احمقانہ زائچہ نکالا کہ عمران شریف برادران کے ووٹ تقسیم کرے گا اور پی پی اپنے نظریاتی ووٹ بنک کے بل بوتے پرجیت جائیں گے۔ پی پی نے ق کے ساتھ الحاق کو الہہ دین کا چراغ سمجھ لیا کہ ق اور پی پی پی متحد ہوکر جیت جائیں گی مگر ان عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پوروں نے یہ نہ سوچا کہ جو چوہدری زرداری کے چرنوں میں بیٹھا ہے وہ بی بی کے قاتلوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھٹو لورز سے یہ امید کیسے وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ قاتل لیگ کے الائنس کو ووٹ دیں گے؟ ق لیگ تو مفاداتی سیاسی لٹیروں کا محض ایک گروہ ہے جسے مشرف نے بید اور چمک سے اپنے اقتدار کے دوام کے لئے اکٹھا کیا تھا۔2008 میں ق نے اسی لاکھ ووٹ حاصل کئے مگر اب کیو کا حصہ14 لاکھ تک پہنچتے ہی دم توڑ گیا۔ کیا یہ مقام شرم نہیں کہ لاہور میں پی پی کے امیدواروں نے پانچ یاسات ہزار ووٹ حاصل کئے۔پی پی پنجاب میں اقلیتی جماعت بن گئی ہے۔ سرائیکی صوبہ کے لایعنی اعلانات اور سرائیکی بیلٹ کو صوبے کے نام پر شعبدہ بازیاں دکھا کر یہ تصور کیا گیا کہ سرائیکی بیلٹ میں pp بیس تا 25 نشستیںجیت لے گی مگر سچ تو یہ ہے کہ سرائیکی صوبے کی شعبدہ بازی و بازیگری کو سرائیکی بیلٹ نے پر کھ لیا تھا۔ سرائیکی صوبے کی لیپا پوتی کے ری ایکشن میں ووٹرز نے پی پی پی کا بوریا بستر گول کردیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں گھپلے کئے گئے۔ لوٹوں کو بلا بلا کر ٹکٹ الاٹ ہوتے رہے۔جنوبی پنجاب میں پی پی کو14٪ ن لیگ کو43٪ اور پی ٹی ائی کو21٪ ووٹ ملے۔ جیالوں کو نظر انداز کیا گیا۔نئی نسل تو بھٹو ازم کے نام سے اشنا نہیں۔ صدر زرداری نے جہاں اعتراف شکست تسلیم کیا وہاں انہوں نے عالمی ایجنسیوں کو قصور وار ٹھرایا۔یہ درست ہے کہ امریکہ نے جس طرح بھٹو کو ایٹم بم بنانے کی پاداش میں پھانسی گھاٹ دکھایا تھا اسی طرح وائٹ ہاوس نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کی۔ درجنوں امریکی سفیر پاکستان درامد ہوتے رہے ۔زرداری گیلانی کو وارننگ دی گئی کہ یہ منصوبہ ترک کردیا جائے مگر زرداری اور احمد نژادی کے جراتمندانہ قول و فعل نے امریکی خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ صدر مملکت نے اعتراف کیا کہ جب کوئی حکومت عوام کو 10گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ دے تو تب عوام سے ووٹ کی کیسے اور کیونکر توقع کی جاوے۔ زرداری کا کہنا تھا جب کوئی پارٹی اپنی لیڈرشپ اور سربراہ کے بغیرمیدان میں جاتی ہے تو نتیجہ بھی شکست کی شکل میں نکلتا ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ وہ صدارتی الیکشن سے باہر ہونگے کیونکہ ppp کومیجارٹی نہیں ملی اسی لئے صدارت پر انکا کوئی حق نہیں بنتا۔ صدر نے نواز شریف کی حمایت کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ اور انکی پارٹی جمہوری تسلسل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ذرداری نے حوصلے تدبر وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف نہ صرف عوامی مینڈیٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شکست کو تسلیم کیا تو دوسری طرف انہوں نے ثابت کردکھایا کہ صدر پاکستان ppp اور اسکے قائدین جمہوریت کے سفر کو ہر صورت میں رواں دواں رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پی پی حکومت کی کارگزاریاں اگر عوامی معیار کے مطابق نہ تھیں مگر ن لیگ سمیت ہر سیاسی اور دینی جماعت کوزرداری کو خصوصی تحسین پیش کرنا چاہیے کہ اس نے 18 ویںترمیم کی صورت میں صدر مشرف کے امرانہ اختیارات دوبارہ پارلیمان کو منتقل کئے۔ صوبائی خود مختیاری اور این ایف سی ایوارڈ کی برادرانہ تقسیم انتقال اقتدار کی پر امن منتقلی بلوچ پیکج اور جنوبی پنجاب میں پہلی مرتبہ کھربوں کے ترقیاتی پراجیکٹس کی تکمیل پختونوں کو تہذیبی شناخت عطا کرنا صدر زرداری کی زندہ و تابندہ جمہوری بصارت کے ائینہ دار ہیں۔ صدر زرداری نے ppp کی پنجاب میںتنظیم نو کی خاطر ستمبر کے بعد پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کا ڈھول بجادیا ہے۔وہ اپنے تینوںبچوں کو کارزار سیاست میں اتارنے کا بیباکانہ اعلان کرچکے ہیں۔ صدر مملکت کا فرض ہے کہ وہ pppاور بھٹو خاندان کے وارثان فاطمہ بھٹو زیڈ جونیر بھٹو کو ساتھ ملائیں۔ppp اور بھٹوز ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں اگر صدر زرداری نے70 کلفٹن کے باسیوں کو ساتھ نہ ملایا تو پھر ہر دفعہ ہر الیکشن میں ppشکست سے شکست در ہوتی رہے گی۔

Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 34 Articles with 25345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.