لباسِ خضر میں رہزن

"طالبان سے مذاکرات" یہ ایک ایسی بحث ہے جس کے ذریعے اصل دہشت گردوں کے چہرے پر نقاب ڈالاجارہاے۔لوگوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ دہشت گردی کے اصلی ذمہ دار طالبان ہیں۔حالانکہ بحث یہ ہونی چاہیے کہ دنیائے اسلام میں طالبان کا کیا کردار ہے؟مثبت یا منفی-

اگر مثبت کردار ہے تو طالبان کی بنیادیں فراہم کرنے والوں کو اعزازت و انعامات سے نوازاجانا چاہیے اور اگر منفی کردار ہے تو طالبان کی داغ بیل ڈالنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جانی چاہیے۔

یہ کیسی احمقانہ بات ہے کہ کرائے کے دہشت گردوں سے تو نفرت کی جائے ، انہیں سیاست میں آنے سے روکا جائے اور ان سے مذاکرات کو جرم تصور کیا جائے لیکن دہشت گردی کی ٹریننگ دینے والوں،کیمپ لگانے والوں،دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں اورفنڈز فراہم کرنے والوں کے گلے میں پھولوں کے ہارڈالے جائیں اور ان کے لئے سیاست کے دروازے کھلے رہیں۔

طالبان تو وہ نیک دل اور مخلصانہ جذبات رکھنے والے دینی طالب علم ہیں جو گھروں سے علمِ دین حاصل کرنے نکلے تھے لیکن لباسِ خضر میں چھپے ہوئے رہزنوں نے ان کے دینی جذبات کو غلط استعمال کیا اور دنیابھر میں دینِ اسلام کو طالبان کے نام سے بدنام کیا،وحدتِ اسلامی کو تاراج کیا اور لوگوں کو اسلام سے خوفزدہ کیا۔

تاریخ ِ اسلام کو اگر تمدن کے ترازو میں تولا جائے تو اس کے دونوں پلڑوں میں دوزمانے نظر آتے ہیں۔پہلے زمانے میں دنیائے اسلام متحد تھی لیکن مسلمانوں کو وحدت کا شعور نہیں تھا،لوگ ایک خلیفے ،ایک خطبے اور ایک اسلامی سلطنت کی بات کرتے تھے لیکن عملا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہتے تھے،موقع ملتے ہی علاقوں کے حاکم مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کردیتے تھے اور حکمرانوں کی پشت پناہی سے فرقہ وارانہ کتابیں لکھی جاتی تھیں،باشاہوں کی محفلوں میں اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنایاجاتا تھا،علمی مناظروں کے نام پر ایسی ابحاث چھیڑی جاتی تھیں کہ جن کے باعث اسلام کے بجائے فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوتا تھا اور چھوٹی موٹی چپقلشوں کے دوران لائبریریوں کو آگ لگانا اور علماء کرام کو موت کے گھاٹ اتارنا روز مرّہ کا معمول تھا۔

ان مناظروں ،لڑائیوں اور بدگمانیوں کے باعث اسلام کمزور اور بادشاہ مضبوط اور مستحکم ہوتے تھے۔یہانتک کہ بادشاہ مسلمانوں کے بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے،رنگ رلیاں بھی بناتے تھے اور امیرالمومنین اور خلیفۃ اللہ بھی کہلا تے تھے۔

ایک لمبے عرصے تک دنیائے اسلام اسی اندرونی انتشار کا شکار رہی ۔ایک خدا کی پرستش کرنے والے،ایک نبی کا کلمہ پڑھنے والے اور ایک کتاب پر ایمان رکھنے والے بالاخر منتشر ہوگئے اور خلافتِ عثمانیہ کا سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی اسلامی وحدت کا قدیمی تصور دم توڑ گیا۔

اس کے بعد دنیائے اسلام کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں بظاہر مسلمانوں کی خلافت،مرکزی حکومت،ایک خلیفہ اور ایک خطبہ سب کچھ بظاہر ختم ہو گیا لیکن اس دور میں مسلمانوں کے درمیان وحدتِ اسلامی کا شعور تیزی سے پروان چڑھا۔

فرقہ وارانہ مناظروں اور باہمی غلط فہمیوں کی جگہ قرآن و سنّت ،اسلامی تہذیب و تمدن اور دینی اخوت و بھائی چارے کی گفتگو عام ہونے لگی۔مشرق کا مسلمان ،مغرب کے مسلمان کے درد کو محسوس کرنے لگا اور اسلامی تمدن کے احیاء اور اسلامی برادری کا تصور اجاگر ہونے لگا۔عالم اسلام کو عالمِ کفر کی ذہنی و فکری نیز اقتصادی و سیاسی غلامی سے نجات دلانے کی تحریکیں شروع ہوئیں اور دشمن شناسی اور اسلام دوستی جیسی بحثیں عام ہوگئیں۔

اس دوسرے دور میں عالمِ اسلام کو باقرالصدر، ،جمال الدین افغانی، شاہ فیصل ، علامہ محمد اقبال،مولانا محمد علی جوہر، امام خمینی،سید قطب، مولانا مودودی ، محمد علی جناح اور سید حسن نصراللہ جیسے رہبر میسر آئے۔

اس دوسرے دور میں ملت اسلامیہ کے درمیان ملی و اجتماعی شعور تیزی سے پروان چڑھا اور استعماری و استبدادی طاقتوں کے منصوبوں کو شدید دھچکالگا۔دنیائے اسلام میں ان کے بٹھائے ہوئے مہرے یکے بعد دیگرے شکست کھاتے گئے اور عالمِ کفر کی بچھائی ہوئی بساط تیزی سے الٹتی گئی۔

گزشتہ چند دہائیوں میں استعماری طاقتوں نے عالم اسلام کے اتحاد کے باعث اپنی موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی،چھوٹے موٹےمولویوں کو خرید کر فتوی سازی کی دکانیں کھلوائیں،بے دین اور اوباش لوگوں کو اسلحہ اور ٹریننگ دے کر اسلام میں کمیونزم اور سوشلزم کی ملاوٹ کرنے کوشش کی،دینی مدارس کو جہاد کے نام پر دہشت گردی میں ملوث کر کے دنیا کو اسلام اور جہاد سے متنفر کرنے کی سازش کی،بڑے پیمانے پرفرقہ وارانہ لٹریچر کی نشروشاعت کی گئی، مساجد و اما بارگاہوں نیز اولیاء کرام کے مقدس مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر لوگوں کو اسلام سے ڈرانے اور دور کرنے کی سعی کی گئی۔

اس کے باوجود اس وقت عالمِ کفر مسلمانوں کے اتحاد سے خوفزدہ ہے۔استعماری طاقتوں کو اپنی یہ ساری کوششیں اور سازشیں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔آپ سروے کر کے دیکھ لیں۔اسلامی دنیا ایک بڑے عالمی اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہے۔مسلمان ہر صورت میں اپنے مشترکہ دشمنوں خصوصا امریکہ اور مغرب کی غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔حتّی کہ طالبان اور القائدہ جیسے لوگ بھی امریکہ و یورپ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔طالبان اور القائدہ کے لوگوں بھی یہ باور کرایا گیا ہے کہ ان کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا نقصان امریکہ و یورپ کو پہنچ رہاہے۔لہذا وہ اسی جذبے کے تحت مصروفِ عمل ہیں۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ طالبان اور القائدہ کی کاروائیوں سے امریکہ و یورپ کو نقصان پہنچ رہاہے یا اسلام کو ،البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان اور القائدہ سے وابستہ لوگوں کی اکثریت امریکہ و یورپ سے نفرت کرتی ہے۔

ہم یہاں پر یہ ذکر بھی کردینا چاہتے ہیں کہ امریکہ و مغرب سے مسلمانوں کی یہ نفرت بلاوجہ نہیں اور نہ ہی تعصب یا ضد پر مبنی ہے۔

اس وقت اسلامی میڈیا کو عالمِ اسلام کے اندرونی تعلقات اور بین الاقوامی برادری کے حوالے سے ایک "ارتباطی پل"کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بین الاقوامی برادری کے مفکرین سے تبالہ خیال کرنا چاہیے اور اقوام عالم کو امریکہ و مغرب کی انسان دشمن تاریخ اور انسانیت کش اقدامات سے اگاہ کرنا چاہیے نیز دیارِ مغرب کے رہنے والوں کو یہ شعور دینا چاہیے کہ ان کے حکمران،امریکہ کے کندھوں سے کندھے ملاکر اپنی دولت،اسلحے اور سازشوں کے بل بوتے پر دنیا کو جنگ،نفرت اور دشمنی کی طرف زبردستی دھکیل کر لے کر جارہے ہیں۔

دوسری طرف اسلامی میڈیا کو عالمِ اسلام کے مختلف فرق و مذاہب کے درمیان مکالمے،گفتگو اور افہام و تفہیم کی فضا کو آمادہ کرنے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔

مختلف فرقوں کے درمیان تناو اور چپقلش کے انداز کو احسن طریقے سے منظر عام پر لانا چاہیے اور اسی طرح مختلف مسالک کی طرف سے وحدتِ اسلامی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سراہنا چاہیے اور اس حوالے سے موضوعات کو نمایاں کوریج دی جانی چاہیے۔

اسلامی میڈیا کو فرقوں کے بجائے دینی اقدار،اجتماعی احساسات،معاشرتی ضروریات اور اسلامی رواداری کی نمائندگی کرنی طاہیے۔

مثال کے طور پر جب طالبان یا القائدہ سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسلامی میڈیا شدت پسندی کے حوالے سے تمام مکاتب کا نکتہ نظر بیان کرے۔ان لوگوں کو منظرِ عام پر لائے جنہوں نے امریکہ سے ساز باز کرکے طالبان اور القائدہ کے لئے،اسلام ، دینی مدارس اور اسلامی جوانوں کو استعمال کیا۔

اس سلسلے میں امریکہ کے لئے کٹھ پتلی کے طور پر استعمال ہونے والوں کے بیانات لئے جائیں اور مکمل طور پر تحقیق کی جائے کہ کون لوگ ملت اسلامیہ کے جوانوں کو دہشت گردی کے راستے پر لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں اورکس نے دینی مدارس کے طالب علموں کے ہاتھوں سے قلم کتاب چھین کر کلاشنکوف تھما دی ہے؟

اس ظلم کے مرکب ہونے والوں کووہ خواہ فوج کی وردی میں ہوں یا دین کی وردی میں انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایاجائے۔

اگر اصلی مجرموں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا اور جہالت اور لاعلمی ی بنیاد پر دہشت گرد بن جانے والے لوگوں سے نفرت کی جاتی ہے تو ہمارے اسلامی جوان آئندہ بھی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور استعمار کے ہاتھوں میں کھیل کر اسلام کی بدنامی کاباعث بنتے رہیں گے۔

یہ اسلامی میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشرق و مغرب میں لباسِ خضر میں چھپے ہوئے رہزنوں سے اقوامِ عالم کوآگاہ کرے اور لوگوں کو سمجھائے کہ نفرت کا اصل حقدار کون ہے۔۔۔؟
اسلام یا پھر امریکہ و مغرب اور ان کے آلہ کار
اگر لباسِ خضر میں چھپے ہوئے رہزنوں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا،ان پر سیاست کے دروازے بند نہیں کئے جاتے،انہیں سزائیں نہیں دی جاتیں اور ان سے نفرت نہیں کی جاتی تو چاہے طالبان سے مذاکرات کئے جائیں یا نہ کئے جائیں اس سے کو ئی مثبت تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔

نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 29966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.