پاکستان میں امریکی ڈرون حملے

پاکستان میں ڈرون حملوں کی ابتداءصدر پرویز مشرف کے دور میں ایک معاہدے کے تحت ہوئی۔ جس کا اعتراف گزشتہ دنوں میں پرویز مشرف نے دوران تفتیش کیا۔ امریکہ کی اس جنگ میں پاکستانی حکمرانوں نے چند ڈالرز کے عوض پاکستان کو اس امریکی جنگ میں دھکیل دیا۔ جس سے پاکستان کا کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ مگر آج تک پاکستانی عوام اس عذاب سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکی اور اغیار کی اس جنگ میں ہم نے کئی اپنے کھودیئے ہیں۔ مگر افسوس حاصل کچھ نہ ہوا۔ ماﺅں نے اپنے بیٹے کھو دیئے، بہنوں سے ان کے بھائی چھن گئے، بیویوں کے سوہاگ اجڑ گئے اور چھوٹے ننھے بچے باپ کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ اس امریکی جنگ میں پاکستان نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا اور امریکہ نے تمام تر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان گنت معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کیا اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومتی جماعت نے کبھی بھی ان حملوں پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی کبھی متاثرین کی دادرسی کی۔ الیکشن کے دور میں موجودہ نومنتخب حکومت سے متاثرہ لوگوں نے کئی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور خودبھی سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کی روک تھام کے لئے پوری کوشش کریں گے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں الیکشنز کے بعد طالبات کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ پاکستان میں چھڑی امریکی جنگ کو روک کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ اسی سلسلہ میں دونوں فریقین کی جانب سے کوششیں جاری تھیں اور ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی تھی۔ پاکستان میں امریکی جنگ کے خاتمے کے کچھ اثرات نظر آرہے تھے جو کہ ان حالات میں پاکستان کی سالمیت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ مگر شاید امریکی حکام ان کوششوں سے ناخوش تھے چنانچہ امریکہ نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے لیڈر ولی الرحمن کو شہید کرڈالا۔ جس سے پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کے فوراً بعد طالبانے نہ صرف پاکستان سے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کیا بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ اپنے لیڈر کی موت کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔ نتیجتاً طالبان نے پاکستانی حکومت کے مذاکراتی عمل کو مسترد کردیا جو کہ آنے والے وقت میں پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ نہ امریکی کی طرف سے اس حملے کی کوئی مذمت آئی اور نہ ہی کسی اور فریق کی طرف سے۔ جبکہ اس وقت ان حالات میں طالبان کے ساتھ یہ رویہ طالبان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ جس کا خمیازہ نہ امریکہ کو بھگتنا پڑے گا اور نہ ہی کسی اور کو بلکہ اس حملے کا سارا خمیازہ ملک پاکستان اور اس میں بسنے والوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ان تمام تر واقعات میں اگر دیکھا جائے تو کس نے نقصان اٹھایا اور کس کا فائدہ ہوا؟ اس واقعہ سے امریکہ نے تو شاہد اپنے حریف طالبان کے لیڈر کو مار ڈالا مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور اس کے باسیوں کو ہوگا۔ مگر افسوس ہمارے حکمرانوں نے اس ایشو کا کوئی نوٹس نہ لیا اور نہ ہی کبھی نیک نیتی سے ان امریکی ڈرون حملوں کی مزمت کی۔ کاش کے ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اس امریکی جنگ میں امریکہ کبھی بھی پاکستان کا فائدہ نہیں سوچے گا کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو اور سرزمین پاکستان کو استعمال کیا اور اپنے ٹارگٹس حاصل کرنے پر ہمیشہ بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لہذا ان حالات میں ماضی کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کی روک تھام کو یقینی بنائیں تاکہ پاکستانی عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اس اہم مسئلے کو نظر انداز کرتی ہے تو پھر ہماری عسکری قیادت کو ملک پاکستان اور اس کے باسیوں کے وسیع تر مفاد میں ان حملوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور ان کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت بحال ہوسکے۔ ورنہ اگر امریکہ اسی طرح پاکستانیوں کا قتل عام کرتا رہا تو یہ جنگ کبھی بھی نہ رکے گی اور امریکہ ہر روز پاکستانیوں کو لاشوں کی صورت میں تحفے دیتا رہے گا۔ ہر روز کسی ماں سے اس کا لخت جگر چھن جائے گا تو کسی بہن سے اس کا بھائی، کسی بیوی سے اس کا مجازی خدا چھن جائے گا اور کوئی معصوم بچہ شفقت پدری سے محروم ہوجائےگا اور یہ تماشا یونہی چلتا رہےگا۔
گر یہی حال رہا ساقی تیرے مہ خانے کا
ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 58386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.