بیدا ر قافلہ ہے مگر تازہ دم نہیں....!

کرناٹک اُردو اکادمی

گہرے احساسِ ذمہ داری اورنہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ یہ چند معروضات ریاست ِ کرناٹک(اِنڈیا) کے قابلِ صد احترام ادبائ، شعرائ، صحیفہ نگار حضرات اور قلمکاروں سمیت نومنتخب ارباب حکومت کی خدمت میں پیش کرنے کی ہم جسارت کر رہے ہیں۔ اُمید کہ درجِ ذیل اُمور آپ کی توجہ کے مستحق بنیں گے اوروسیع پیمانے پر تائید کے حصو ل میں کامیاب رہیں گے:

ریاست میں رونما ہونے والی انقلابی سیاسی تبدیلیوں کے بعد عوام کی جانب سے معرضِ وجود میں آنے والی نو منتخب سیکولر حکومت،جسے مسلمانانِ کرناٹک کی بڑے پیمانے پر مسلمہ عملی حمایت حاصل رہی،آج عوام کی نیے سرے سے خدمت کے عزائم اور اِرادوں کے ساتھ کھڑی ہے اور بجا طور پر ریاست کی عوام بھی اپنی مسرت کے اِظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ریاست کی اُردو عوام بھی خوش ہیں کہ اردو کے فروغ کے سلسلے میں نئی حکومت ایسے اقدامات ضرور کرے گی جو اردو کی بقاءاور ترقی کے ضامن بن سکیں۔

کرناٹک اردواکادمی کی نیے سرے سے تشکیل اور اِس کے چیرمین کا انتخاب ابھی طے ہونے کے مراحل میں ہے۔ اِس موقع پر ہم یہ بات حکومت کے گوش گزار کرنا ضروری بھی اور برمحل بھی سمجھتے ہیں کہ کرناٹک اُردو اکادمی کی چیرمین شپ ابھی تک” شمال مغربی کرناٹک“کے حصے میں نہیں آسکی ہے، جس میں بلگام ، دھارواڑ، کاروار اور بیجاپور جیسے دیگر کئی نظر انداز شدہ اضلاع شامل ہیں۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ اِس علاقے کو بھی یہ سعادت دی جائے کہ یہاں سے کوئی چیرمین مقرر ہو۔ اُمید ِ قوی ہے کہ نئی حکومت اِس علاقے کی کسی قابل شخصیت کو جو نہ صرف شمالی کرناٹک میں بلکہ پوری ریاست کے ساتھ ملک گیر بلکہ عالم گیر سطح تک پر وقار شہرت رکھتی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ گلبرگہ، شیموگہ، بنگلورکے علاوہ بھی ریاست کے کئی اضلاع ایسے ہیں جنہیں اُردو کے مراکز ہونے کا شرف حاصل رہا ہے اورجہاں اُردو کی ایسی مقتدر شخصیات بلاشبہ موجود ہیں،جنہیں چیرمین کے عظیم المرتبت عہدے کا بلا خوف ِ تردّد اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ نیز حق و اِنصاف کی رُو سے ا ِن تین اضلاع کے علاوہ دیگر اضلاع کا بھی یہ حق بنتاہے کہ اِنہیںخدمت کا موقع فراہم کیا جائے؟اب بلگام یادھارواڑ یاکاروار یا بیجاپور یا دیگر نظر انداز شدہ اضلاع کی باری ہے کہ اِن کی طرف بھی حکومت کی نظر ِ کرم ہو۔

اِس صورتحال میں ہم یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ریاست کے ذی مرتبت،قابل و باصلاحیت شعرائ، ادباءاور مختلف اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کرنے والے قابلِ قدر قلمکاروں سے ملتمس ہیں کہ وہ کم از کم اِس بار تو متحرک ہو جائیںاور اپنا حق منوانے کی جہد مسلسل میں لگ جائیں۔ کیا آپ خود کو اِس قابل نہیں سمجھتے کہ آپ بھی کرناٹک اردو اکادمی کا ایک حصہ بن سکیں....؟ کیا وقت نہیں آیا کہ آپ اپنا بایو ڈٹا متعلقہ حکام کے ہاں بھیج دیں اور اکادمی کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔؟آپ اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں ، اپنی قابلیتوں کے پیش نظر خود آگے بڑھیں اور اپنی خدمات کی حکومت کو پیش کش کریں تو کیا عجب کہ آپ کو اردو کی خدمت کا ایک جامع اور موثر پلیٹ فارم میسر آجائے....!

حکومت کی طرف بایو ڈٹا کا ایک سیلاب اُمنڈ آتا ہے تو حکومت پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اردو کے پروانوں کی کتنی بڑی تعداد کرناٹک میں موجود ہے جو شمع ِ اُردو پر مر مٹنے کے لیے ہمہ تن مستعد ہے اور کس تندہی کے ساتھ یہ اردو کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کرنے کو بھی تیار ہے۔ ساتھ ہی حکومت کو بھی یہ موقع فراہم ہو گا کہ وہ صلاحیتوں اور مقبولیتوں کے اِس انبار میں سے ، چیرمین شپ اور ممبر شپ کے لیے سب سے بہترین افراد کا اِنتخاب کرسکے اور اردو عوام کو ایک بہترین ٹیم’ اردو اکادمی“ کی شکل میں نذر کرے،جو ” جی حضوروں“ پر مشتمل کوئی ٹیم نہیں ہوگی، کسی” شہر سے وابستہ مخصوص لوگوں“ کا کوئی گروپ نہیں ہوگی، بلکہ ایک ایسی ٹیم ہوگی جسے پوری ریاست کے اردو عوام کا اعتماد اور ان کی نمائندگی کا شرف حاصل ہو سکے گا۔ہمارے فن کاروں کوکبھی اپنے دل میں یہ طے نہیں کر لینا چاہیے کہ وہ چیرمین یا ممبر بننے کے قابل نہیں۔کیونکہ ا کادمی کسی مخصوص گروپ کی جاگیر نہیں، نہ ہونا چاہیے ۔ یہ ریاست کے سارے ہی اردو نوازوں کا ایک خدمت گزا ر ادارہ ہے، جہاں سے ادیبوں اور شاعروں کے لیے ادب و احترام کی لہریں اُٹھنی چاہئیں اور نئی نسلوں کی اُمنگوں کی سیر ابی کا بھی کام انجام پائے، نتیجتاً یہ زبان پھلے پھولے اور فروغ پائے۔

ہم عوامی اُمنگوں کی مظہر حکومتِ نومنتخب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُردو کے موجودہ حالات سے واقفیت کے لیے پوری ریاست کے اضلاع کا جائزہ لے اور عدل و اِنصاف کی روش کو اپنی خدمات کی روح بنائے، تاکہ نہ صرف زبان و ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں خیر و برکت کی بہار نظر آنے لگے۔ساری ریاست کے مختلف گوشوں میں پنپنے والے جذبات کی قدر کیے بغیر حکومت کا کوئی اقدام بارآور ثابت نہ ہو سکے گا۔تجربہ،تعارف اور مقبولیت کے اعتبار سے اِس عظیم ریاست میں شخصیات کی کمی نہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ذی مرتبت قلمکار کمتری کے احسا س سے باہر نکل آئیں اور پوری قوتِ خوداعتمادی کے ساتھ منزل مقصود کی جانب مارچ کریں، تاکہ اُردو کا فروغ اپنی مطلوبہ سرعت کے ساتھ انجام پائے۔آج اردو اکادمی کو تازہ خون اور نیے چہروں کی ضرورت ہے۔بار بار تقدیر آزمائی کرنے والوں کو کچھ دیر آرا م کا موقع ملنا چاہیے۔ ایک ایسی ٹیم کھڑی ہو جس کا وسیع پیمانے پر قلمکاروں اور اردو نوازوں سے رابطہ ہواور جواکادمی کے پلیٹ فارم سے اصل فنکاروں کو حقیقی توثیق و تصدیق میں فخربھی محسوس کرے، اِن کی خدمات کی ستائش بھی کرے اور اِن کے گرانقدر تجربات سے مستفید بھی ہو۔ یہ کام اُسی وقت ممکن ہے ، جب کہ اُردو اکادمی کے نظم و انصرا م کے لیے1977ءمیں جو قوانین وضع کیے گیے تھے اور جوآج بھی جوں کے توں برقرار ہیں اور اِس قدر طویل عرصے میں زبان و ادب اور جید ٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کے پیش نظر اِن میں مناسب ترمیم ، حذف و اِضافہ نہیں ہو سکا ہے جو تشویش کا معاملہ ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اکادمی ایک Out of Dateادارہ بن کر رہ گئی ہے اور اِس کی جانب کسی چیرمین، کسی ممبر یا کسی ادبی حلقے کی توجہ منعطف نہیں ہوئی۔یہی سبب ہے کہ اردو معاشرے میں اُٹھنے والی ہر آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی رہی ہے۔ مثلاً،اُردو ہال کا شور ہر دور اقتدار میں بلند ہوا لیکن سابقہ اکاڈمیوں کے کسی چیرمین نے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیانہ اُس کے بس کی بات ہی تھی۔اِ س لیے اولین فرصت میں مذکورہ قوانین پر نظر ثانی ہو اور بدلے ہوئے منظر نامے میں نیے قوانین وضع کیے جائیں ،تاکہ اکادمی کے مقتدر لو گ انقلابی تبدیلیوں کے حامل بن سکیں۔

اوّل تو یہ کہ اکادمی کو” اقلیت “کے تصور سے باہر نکالا جائے کیوں کہ اُردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ خود کرناٹک میں غیر اقلیتی شعراءکی کمی نہیں۔جب ہم اِسے” اقلیت“ کے لفظ جوڑتے ہیں تو خواہ مخواہ اِسے صرف مسلمانوںکی زبان بنانے کا ہم جرم کرتے ہیں۔ اِس طرح ہم اِس کی آفاقیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ثانیاً یہ کہ اِسے کسی مخصوص گروپ کی اجارہ داری کا مرہونِ منت نہ بنایا جائے۔ ثالثاً یہ کہ اِسے جدید اور عصر حاضر سے مطابقت رکھنے والے قوانین کا سہارا دیا جائے۔

ہم ریاست کے عزت مآب وزیر اعلیٰ شری سد رامیا جی،قابل صد احترام مسلم وزرائ،ریاست کے دیگر محترم و معززمسلم ممبرانِ اسمبلی اور ریاست کے ہر اُس ممبراسمبلی سے، جسے اُردو سے محبت ہے اور جو اُردو کی شیرینی سے اپنی نجی محفلوں میں غزلوںاورٹھیٹ اردو فلمی گیتوں سے محظوظ ہوتا رہا ہے ، گزارش کرتے ہیںکہ اِن اُمور پر اپنی توجہ عنایت فرمائیں ۔انشاءاللہ، آپ کے ہر فیصلے میں برکت کے لیے ہم قلمکارانِ کرناٹک دُعا گو ہیں اور اِنشاءاللہ ا ٓپ کے منصفانہ فیصلوں کی تائید میں کھڑے ہونے والوں کی اولین صف میں آپ ہمیں شامل پائیں گے:
بیدار قافلہ ہے.... مگر.... تازہ دم نہیں
اے کاش اِن صفوں کو کبھی تازہ خوں ملے....(عزیزبلگامی)....٭

Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 75784 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.